اسلام آباد (جیوڈیسک) انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم ایک بڑی تنظیم ’ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان‘ نے 10 اکتوبر کو سزائے موت کے خلاف عالمی دن کے موقع پر ایک بار پھر مطالبہ کیا کہ ملک میں موت کی سزا ختم کی جائے۔
’ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان‘ سے تعلق رکھنے والے متعدد سرگرم کارکنوں نے پیر کو اسلام آباد میں ایک مظاہرہ کیا، شرکا نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اُٹھا رکھے تھے جن پر درج تھا کہ سزائے موت کو ختم کیا جائے۔
مظاہرے میں شریک انسانی حقوق کی ایک سرگرم کارکن نسرین اظہر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ تاثر درست نہیں کہ موت کی سزا دینے سے جرائم کی شرح میں کمی آئے گی۔
’’ اب تک جو ہمیں فکر ہے، جس وجہ سے ہم یہاں جمع ہیں وہ یہ کہ ہم یہ دیکھتے ہیں ہماری جو تفتیش ہوتی ہے وہ بہت ناقص ہوتی ہے ۔۔۔ اگر ایک بھی آدمی کو غلط پھانسی دے دی جائے تو وہ بہت بری بات ہے اور اس سے ایک معاشرے میں زیادہ تشدد کا رجحان پیدا ہوتا ہے اگر ہم (اچھا معاشرہ ) چاہتے ہیں۔ (جہاں) ہمیشہ انصاف ہو اور صحیح انصاف بروقت ملے لوگوں کو۔۔۔ لوگوں کی شکایت ہی یہ ہے کہ ہمیں انصاف نہیں ملتا تو میرا خیال ہے کہ حکومت کو ہمیں یہ پیغام دینا چاہیں گے۔‘‘
دسمبر 2014 میں پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد پاکستان میں سزائے موت پر چھ سال سے عائد پابندی کا خاتمہ کر دیا گیا تھا، جس کے بعد سے اب تک لگ بھگ 400 افراد کی سزائے موت پر عمل درآمد ہو چکا ہے۔
آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد ملک میں دو سال کے لیے فوجی عدالتیں بھی قائم کی گئیں، جن کی طرف سے درجنوں مشتبہ دہشت گردوں کو سزائے موت سنائی جا چکی ہیں اور اُن میں سے بہت سی سزاؤں پر عمل درآمد بھی ہو چکا ہے۔
حکومت میں شامل عہدیداروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کو غیر معمولی حالات کا سامنا ہے جن سے نمٹنے کے لیے اُن کے بقول سخت سزائیں ضروری ہیں۔
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی طلال چوہدری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں یہ دعویٰ کیا کہ سزائے موت پر عمل درآمد کے بعد ملک میں جرائم کی شرح میں کمی آئی ہے۔
’’انسانی حقوق کی تنظیم کے تحفظات اپنی جگہ لیکن جب کہ سزائے موت پر عمل درآمد شروع ہوا ہے ہمارے ہاں قتل اور اس طرح کے بڑے واقعات میں کمی آئی ہے، لوگوں میں ڈر پیدا ہوا ہے۔‘‘
دسمبر 2014 کے بعد پاکستان میں سزائے موت پر عمل درآمد کی بحالی کے بعد ابتدا میں صرف دہشت گردی کے مقدمات میں سزا پانے والے مجرموں کی سزاؤں پر عملدرآمد کیا گیا مگر بعد میں تمام مقدمات میں سزائے موت پانے والوں کی سزاؤں پر عملدرآمد شروع کر دیا گیا۔
انسانی حقوق کی مقامی و بین الاقوامی تنظیموں، اقوام متحدہ اور یورپی یونین کی جانب سے پاکستان میں سزائے موت پر عملدرآمد پر تشویش کا اظہار کیے جانے کے باوجود ملک میں پھانسیاں دیئے جانے کا عمل جاری ہے۔