کراچی (جیوڈیسک) عالمی بینک نمائندہ ناموس ظہیر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں جاری مارگیج قرضوں کی تعداد بہت کم ہے۔
عالمی بینک نمائندہ ناموس ظہیر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں جاری مارگیج قرضوں کی تعداد 60 ہزار ہے جو بہت کم ہے، پاکستان میں فنانشل انکلوژن کے لیے 13 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کی معاونت کی ہے، ہاؤس فنانس عالمی بینک کی فنانشل انکلوژن پالیسی کا حصہ ہے، عالمی بینک پاکستان میں گرین مارگیج کلچر کو فروغ دے گا، پاکستان میں1کروڑ سے زائد گھروں کی کمی کا سامنا ہے، شہری علاقوں میں 40فیصد پکچی آبادی پر مشتمل ہے، پاکستان میں 2فیصد خواتین کے نام جائیداد کی ملکیت ہے۔
نیشنل بینک کے صدرسعید احمد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں گھروں کی کمی کو سستے گھروں کی اسکیم سے پورا کیا جاسکتا ہے، سستے گھروں کی تعمیر کے لیے حکومتی سطح پر سپورٹ کی ضرورت ہے،گھروں کی کمی بہت زیادہ ہے، یہ مسئلہ روایتی طریقوں سے حل نہیں ہوگا، اس کے لیے خصوصی ادارے بنانا ہوں گے۔ پاکستان مارگیج فنانس کمپنی کے سی ای او این کوکیولاروپن نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں 1کروڑ گھروں کی کمی کا سامنا ہے، سالانہ 4 سے 6 لاکھ گھروں کی طلب بڑھ رہی ہے، پاکستان مارگیج ری فنانس کمپنی مئی 2018 سے کام کرنا شروع کر دے گی، حکومتی پالیسی ہے کہ عوام کے پاس گھروں کی ملکیت ہو۔
کوکیولاروپن نے کہا کہ پاکستان کی مارگیج مارکیٹ بہت محدود ہے،سال 2008 سے 2013 تک پاکستان میں ہاوس فناسنگ شدید متاثر ہوئی، گھروں کی لاگت کا معاملہ بہت اہم ہے،گھر بنانے کی لاگت کم کرنے کے لیے اقدامات کرنا ہوںگے، سال2013 سے کمرشل اور اسلامی بینکوں کی ہاؤس فنانس سہولت نے ترقی کی ہے۔
دوسری جانب پاکستان مارگیج ری فنانس کمپنی کے شراکت داروں کے معاہدے پر دستخط کی تقریب سے خطاب کے دوران ڈپٹی گورنراسٹیٹ بینک جمیل احمد نے کہا ہے کہ مرکزی بینک نے پی ایم آر سی کے لیے اہم کردار ادا کیا، مرکزی بینک کے سال2020 وژن میںہاؤسنگ، زراعت اور ایس ایم ای بنیادی نکات میں شامل ہیں۔
ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ پاکستان میں رہائشی یونٹس کی کمی کا سامنا ہے، صرف کراچی میں 562 کچی آبادیاں ہیں،کچی آبادیوں میں بنیادی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے بیماریاں پھیلتی ہیں، انہوں نے کہا کہ کچی آبادیوں میں جرائم اور منشیات پنپتی ہے، پی ایم آر سی مقامی مارکیٹ کے فروغ میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قرض نادہندگان کی جائیداد ضبط کرنے کے قوانین پر عمل نہیں ہوتا۔