یہ کہانی برسوں پر محیط ہے۔ بھارت کے ساتھ ہر صورت تعلقات بہتر کر کے اس کے ساتھ تجارت کھولنے کا فیصلہ ہوا۔ لاہور سے واہگہ بارڈر تک اور لاہور سے قصور کے گنڈا سنگھ بارڈر تک شاندار دو رویہ سڑکیں تعمیر ہوئیں، طے یہ تھا کہ یہ کام آہستہ آہستہ آگے بڑھایا جائے گا، پاکستان کے لوگوں کی رگ و پے میں سرایت بھارت کی نفرت رفتہ رفتہ کم کی جائے گی۔ اس کے لئے وسیع پیمانے پر کام شروع ہوا، بھارت سے پاکستان میں ہندوئوں کے وفود پر وفود بھی آنے لگے۔
پاکستان میں ہندوئوں کے مندروں اور سکھوں کے گوردواروں کی تعمیر نو اور بحالی تک شروع ہو گئی۔ معاملات یہاں تک پہنچے کہ اڑھائی برس پہلے باقاعدہ اعلان کر دیا گیا کہ جلد ہی بھارت کو پسندیدہ ترین تجارتی قوم (MFN) کا درجہ دے کر اس سے ہر طرح کے تجارتی تعلقات بحال کر دیئے جائیں گے۔ یہ کہانی اتنی سادہ بھی نہیں تھی کہ جتنی نظر آتی ہے۔ اس کے پیچھے امریکہ سمیت، تمام عالمی طاقتوں کی لمبی منصوبہ بندی تھی، امریکہ اور اس کے حواری جنہوں نے طے کیا تھا کہ وہ افغانستان سے نکلتے ہوئے اس کا سارا کنٹرول بھارت کو دیں گے۔ بھارت ان کی جگہ ڈیڑھ لاکھ فوج بھی متعین کرے گا۔ رہا مسئلہ راہداری کا، تو اس کیلئے پاکستان کو استعمال کیا جائے گا جو بھارت کو پسندیدہ ترین تجارتی قوم قرار دے کر اپنے سارے راستے اس کیلئے کھول دے گا۔
اس اعلان کی دیر تھی کہ جماعة الدعوة پاکستان کے امیر حافظ محمد سعید میدان میں اتر گئے۔ دفاع پاکستان کونسل کو متحرک کیا ۔تاریخ پہ تاریخ دی جاتی رہی کہ اب بھارت پسندیدہ ہوا کہ اب ہوا… بھارت کی بے تابی بھی دیکھی نہ جاتی تھی… کرتے کرتے بات 16دسمبر 2012ء واہگہ بارڈر مارچ تک پہنچی۔ مجھے یاد ہے وہ دن کہ جب ہم اسی مارچ کی تیاریوں کے سلسلے میں ایک نیوز فورم کے دوران ایک سینئر صحافی جو دفاع پاکستان کونسل کے رہنمائوں سے فو رم انٹرویو لے رہے تھے، استفسار پر کہنے لگے، مجھے بتایئے کہ پاکستان میں سوائے جماعة الدعوة کے بھارت کے خلاف میدان سجانے والا اور سامنے آنے والا اور ہے کون…؟ لیکن پھر دنیا نے دیکھا کہ 3 سال سے جاری یہ معرکہ بالآخر اپنے انجام کو پہنچا تو حکومت پاکستان اعلان کر رہی تھی کہ بھارت کو پسندیدہ ترین قوم قرار دینے کا باب بند ہو چکا ہے کتاب کا اگلا ورق الٹئے! پاکستان میں گزشتہ سات سال سے 23 مارچ 1940ء کے تاریخی دن کو بھلانے کا سلسلہ جاری ہے۔ اسلام آباد میں ہونے والی مسلح افواج کی سالانہ پریڈ بھی مسلسل منسوخ ہے۔ 23 مارچ کی چھٹی بھی ختم ہو چکی ہے۔ کوشش یہی کی جا رہی ہے کہ قوم کو 23 مارچ کا سبق، پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ کا سبق بھلا دیا جائے۔
پھر 11 فروری کا دن طلوع ہوا۔ پروفیسر حافظ محمد سعید اپنے رفقا اور جانثاروں کے ہمراہ بیٹھے اعلان کر رہے تھے کہ ملک کی اساس اور نظریہ اسلام کا دفاع کیا جائے گا ۔ ماہ مارچ کا آغاز ہوا تو ملک کی فضا اچانک بدلنے لگی۔ ہر گلی، ہر محلے سے ایک ہی صدا لا الہ الا اللہ سنائی اور دکھائی دینے لگی اور پھر ملک بھر کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو خیال آنے لگا کہ وہ اس عظیم مقصد میں کیوں پیچھے رہیں؟ دیکھتے ہی دیکھتے کہیں تحفظ پاکستان، کہیںبقائے پاکستان، تو کہیں عزم پاکستان کے نام سے پروگراموں کے اعلان ہونے لگے۔ 20 مارچ کو تو حکومت نے یہ کہہ کر حیران کر دیا کہ 6 سال بعد اب اس بار مسلح افواج کی پریڈ بھی ہوگی۔ سلامی بھی دی جائے گی۔ یہی نہیں بلکہ ملک کے تمام بڑے شہر جہاں مسلح افواج کی بڑی چھائونیاں ہیں، جنگی سازو سامان کی نمائش بھی ہوگی اور آزادی مارچ بھی ہوں گے۔ جی ہاں! سال رواں کے آغاز ماہ جنوری میں ہی حکومت اعلان کر چکی تھی کہ اس بار بھی مسلح افواج کی پریڈ منسوخ کر دی گئی ہے کیونکہ ملکی حالات اس کے مواقع موافق نہیں۔ یہ اعلان جنوری میں اس لئے ہوا تھا کہ پریڈ کی تیاری جنوری سے ہی شروع کر دی جاتی ہے لیکن احیائے نظریہ پاکستان سامنے آتے ہی اس بار تین مہینے نہیں محض تین دن میں پریڈ کے انعقاد کا اعلان کر کے تیاری بھی مکمل کر لی گئی۔
Pakistan Day
23 مارچ کا سورج طلوع ہوا تو ملک کا کونہ کونہ، ملک و ملت کی محبت کی سرشاری میں ڈوبا، سبز ہلالی پرچم اٹھائے لا الہ الا اللہ کے زمزمے بلند کرتا نظر آیا۔ تو دوسری طرف اس مینار پاکستان کے چہار اطراف انہی متوالوں اور جیالوں کے سروں کا سمندر پھیلا ہوا تھا جو 74 سال پرانی تاریخ کو دہرا اور ایک نئی تاریخ رقم کر رہے تھے۔ 74 سال پہلے 23 مارچ 1940ء کے اس روز ایک طرف یہاں آل انڈیا مسلم لیگ کے 27 ویں اجلاس کا تیسرا روز تھا اور تو دوسری طرف انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر۔ شیر بنگال اے کے فضل حق پہلی بار اسلام کے نام پر ہند کی تقسیم کی قرار داد پیش کر رہے تھے جسے ہندوئوں نے خود ہی قرار داد لاہور سے قرار داد پاکستان قرار دے دیا۔ ملک کے شہر شہر اور کونے کونے کی طرح لاہور بھی تو کئی دن سے کلمہ طیبہ کے ترانوں سے گونج رہا تھا۔ جہاں نگاہ اٹھائو جہاں نظر دوڑائو ہر طرف کلمہ طیبہ ہی سننے اور دیکھنے کو ملتا رہا۔ 23مارچ کے روز نصف النہار کے تھوڑی دیر بعد میر کارواں پروفیسر حافظ محمد سعید تشریف لائے۔ دنیا کو دل کا پیغام سنایا اور پھر رب کے حضور دعا مانگ کر سفر کا آغاز کر دیا گیا۔
یہاں آئے لوگوں کو جب 74 سال پرانے جلسے اور قیام پاکستان کی کہانی سنائی جاتی تو ہر شخص یہی محسوس کرتا کہ جیسے وہ اسی دور میں پہنچ گیا ہے اور اس نے پاکستان بنانے والوں کے مشن کو پاکستان کو اس کے مقصد اور منزل تک پہنچا کر ہی رہتا ہے۔ مارچ جیسے جیسے آگے بڑھا، اس میں شامل ہونے سے رہ جانے والے دوڑ دوڑ کر شامل ہو جاتے۔ ہر چوک، ہر موڑ پر کتنے لوگ ہاتھوں میں پھولوں کی پتیاں لئے نچھاور کرتے چلے جا رہے تھے اور سڑک دور تک پھولوں کے رنگ میں رنگی جا رہی تھی۔ گھنٹہ بھر سفر کے بعد قافلہ ناصر باغ لاہور پہنچا تو سبھی لوگ ”تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے” کے مصداق سربسجود تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں اگلے سفر کا آغاز ہوا اور پھر آدھ گھنٹے میں اگلی منزل پر پڑائو ڈال دیا گیا۔
مسلمانوں کو فرقوں، رنگ و نسل اور علاقے کی بنیاد پر لڑنے والوں کیلئے آج کا منظر دہلا دینے والا تھا۔ اسٹیج پر ان تمام تفرقات سے آزاد رہنما موجود تھے۔ جذبوں اور ولولوں کا ایک چڑھتا سورج، ایک بہتا دریا اور ابھرتا ساغر جو تا حد نگاہ محسوس کیا جا سکتا تھا، آج لاہور کی اس شاہراہ قائداعظم پر دور تک پھیلا ہوا تھا۔ ایک مقرر نے جب یہ الفاظ ادا کئے کہ دشمنو! ہم تمہیں حافظ محمد سعید کا ایک بال بھی نہیں دیں گے تو حافظ محمد سعید کے جان نثار لاکھوں ہاتھ بلند کئے ، حمایت میں کھڑے تھے۔ تھوڑی ہی دیر بعد حافظ محمد سعید اس نئے رنگ و ترنگ والے مجمع سے خطاب کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ کی دعوت اور پکار ہر شخص تک پہنچائیں اور اس دعوت پر سا ری قوم کو متحد و یکجا کریں گے۔
جواب میں ہر جانب سے ان شاء اللہ کی صدائیں بلند ہوتیں۔ ان کے کہنے پر پرچم لپیٹ لئے گئے تھے کہ پاکستان کے سارے دشمنان اچھی طرح دیکھ لیں کہ ملک و ملت کے محافظوں کی صرف یہاں پہنچنے والی تعداد کتنی ہے۔ انہوں نے یہاں 3 نکاتی ایجنڈا پیش کیا۔ بھارت سے اپنے مقبوضات واپس لینے کا تذکرہ کیا تو ساتھ ہی خوش خبری سنائی گئی کہ لا الہ الا اللہ کو قائم کر دو، بنگال دوبارہ مل جائے گا اور پھر وہ کہہ رہے تھے کہ ہم یہ سب کچھ کر کے دکھائیں گے۔دوسری طرف ذرا دیکھئے تو سہی کہ بنگلہ دیش میں تاریخ کا انوکھا فیصلہ ہو ا ہے کہ کرکٹ میچ میںکسی دوسرے ملک کا پرچم نہیں آئے گا۔وجہ یہ بنی کہ بنگالی پاکستانی پرچموں کی بہار کر دیتے تھے۔ دفاع، تکمیل و استحکام پاکستان کے قافلے کا سفر مزید تیز ہونے والا ہی کہ حافظ محمد سعید نے تحریک کو مزید تیز اور منظم کرنے کا حکم دے دیا ہے۔