پاکستان کیسے اور کیونکر ٹوٹا

Pakistan

Pakistan

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
پاکستان بننے کے بعد سکندر مرزا سیکریٹری دفاع کم اور انگریزوں کے وفادار زیادہ تھے یہ بنگال کا رہنے والا اور غدار ِدین ووطن میر جعفر کا پڑپوتا تھا 1954 میں مشرقی پاکستان کے گورنر بننے کے بعد اس نے وہاں وہ ظلم کے پہاڑ توڑے کہ بنگالی سبھی پاکستان کے خلاف نعرے لگانے لگے متحدہ پاکستان میں مشرقی پاکستان میں بسنے والے بنگالیوں کی تعداد کسی بھی دوسری زبان بولنے والوں سے کہیں زیادہ تھی بلکہ اردو بولنے والوں سے تو دو گنا سے بھی زیادہ مگر جب اردو کو قومی زبان قرار دیا گیا تو بنگالی بپھر گئے بنگلہ زبان کے لیے تحریک چلی جسے گولیوں سے بھونا گیا ور بنگالی ان لسانی فسادات میں شہید ہوئے 1970کے پہلے عام انتخابات ہوئے تو اس وقت ڈکٹیٹر ایوب خان کو ہٹا کر یحییٰ خان قابض ہو چکا تھا۔اس نے ان انتخابات کو انتہائی صاف شفاف کروایا لیکن اس کے نتائج توقعات کے برعکس نکلے یحیٰی خانی دور کے خفیہ ادارے خان عبدالقیوم خان کی مسلم لیگ کو فاتح قرار دے رہے تھے مگر اس کے تقریباً سب امیدوار جو کہ جغادری سیاستدان وڈیرے اور مختلف علاقوں کے جاگیردار تھے بری طرح ہارگئے اور مسٹر بھٹو کی نوزائیدہ پیپلز پارٹی نے صرف 34فیصد ووٹ لیکرمغربی پاکستان کامیدان مار لیا۔

اور مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الر حمٰن نے بزرگ سیاستدان نور الامین کی ایک سیٹ کے علاوہ سبھی 165سیٹیں جیت لیں ۔اب انتقال کی منتقلی کا مرحلہ درپیش تھا یحییٰ خان کی آئندہ مستقل صدر رہنے کے لیے خواہش پر شیخ مجیب رضامند نہ ہوا ۔آئین کے مطابق منتخب قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس ڈھاکہ میں منقعد ہونا تھا جس کا اعلان کردیا گیا یحیٰی خان عیاش طبع راگ رنگ کی محفلوں اور شراب کا رسیہ تھا اور (جنرل )رانی کی زلف کا اسیر بن چکا تھا وہ ہر صورت اپنی صدارت کو برقرار رکھنا چاہتا تھا اس لیے اس نے مغربی پاکستان میں اکثریتی جماعت کے سربراہ بھٹو صاحب سے آنکھ مچولی شروع کردی بھٹو صاحب نے ڈھاکہ میں ہونے والے اجلاس کی کھلم کھلا مخالفت شروع کردی یہاں تک کہہ ڈالا کہ جو مغربی پاکستان کا ممبر قومی اسمبلی اس اجلاس میں جائے گااس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔اس اجلاس میں مغربی پاکستان سے شمولیت کے لیے پیپلز پارٹی کا ہی واحد ممبر قومی اسمبلی نواب محمد احمد خان قصوری کا بیٹا احمد رضا قصوری گیا (واضح رہے کہ بعد میں نواب محمد احمد خان کے قتل ہونے پر بھٹو صاحب کو ان کے قتل کے جرم میں ہی پھانسی کی سزا دی گئی تھی)بھٹو صاحب نے اسی دوران ایک اور نعرہ مستانہ لگادیا کہ”اُدھرتم اِدھر ہم” یحییٰ خان حالات سے قطعاً مطمئن نہ تھا بنگلہ بدھو مجیب الرحمٰن انتخابات کے نتیجے میں واضح وزیر اعظم نہ بننے کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں تحریک چلا چکا تھا عدالتیں اور تمام ادارے اس کا حکم بجالا رہے تھے جسے کچلنے کے لیے مشرقی کمان میں موجود افواج پاکستان کویحییٰ خان نے حکم دے ڈالا۔ مگر یہ کوششیں ناکام ہوگئیں دونوں پاکستان کے حصوں میں ایک ہزار سے زائد میل کا فاصلہ تھا ور مشرقی پاکستان میں کوئی فوجی کمک پہنچ ہی نہیں سکتی تھی خونخوار بلی کی طرح موقع ملتے ہی ہندو مہاشے مکتی باہنی اور اپنی افواج کے ذریعے مشرقی پاکستان کی سرحدیں عبور کرکے داخل ہوگئے اور خونخوار بھیڑیوں کے ذریعے متحدہ ہندوستان پر مسلمانوں کی700سالہ حکمرانی کابدلہ لینے اور پاک وطن کو توڑنے کے ناپاک ارادوں سے جھپٹ پڑے وہاں پر اسلامی چھاترو شنگھو((IJT کے کارکنوں نے مسلمانوں کی سرزمین کی حفاظت کے لیے البدر و الشمس بنا کر اور افواج پاکستان سے ملکر ہندو افواج کا زبردست مقابلہ کیا اپنے ہزاروں نوجوان شہید کروائے جس کی وجہ سے ہی اب شیخ مجیب کی بیٹی حسینہ واجد انہی پاکستان کے حمایتی نوجوانوں کو پھانسی پر لٹکا رہی ہے مشرقی پاکستان میں گھمسان کی جنگ جاری تھی۔یحیٰی خان بھٹو کی رہائش گاہ لاڑکانہ شکار کے بہانے پہنچے وہاں 2دن قیام کے دوران مذاکرات میں طے پایا کہ مغربی پاکستان کے وزیر اعظم بھٹو صاحب اوروہ بدستور صدر رہیں گے اس طرح بھیانک سازش کے ذریعے “مشرقی پاکستان ” کو “الواداع ” کہنے کا منصوبہ تیار ہوگیا ۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے خصوصی اجلاس میں پولینڈ کی مشرقی پاکستان میں جنگ بندی کی قرار داد پر بحث کی جانی تھی جس کے لیے بھٹو صاحب کو پاکستان کا نمائندہ بنا کر بھیجا گیا بھٹو صاحب نے اجلاس میں کسی کی بھی ایک نہ سنی زبردست جذباتی تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہم ہندوستان کے خلاف 1000سال تک جنگ لڑیں گے اور یہ کہ ہم کوئی جنگ بندی وغیرہ نہیں چاہتے اور قرار داد پھاڑ کر واک آئوٹ کردیا پھر سلامتی کونسل کو کیا کرنا تھا؟ جب پاکستانی مندوب ہی بائیکاٹ کرچکا تھا “میاں بیوی راضی توکیاکرے گا قاضی” امریکہ کے ہم پاکستان کے بعد لیاقت علی خان کی وزارت عظمیٰ کے دوران اتحادی بن گئے تھے بعد ازاں سیٹو سنیٹو کے ممبر بھی بنے جدید اسلحہ بردار امریکن بحری بیڑے کا بہت پراپیگنڈا کیا گیا کہ وہ بحیرہ عرب میں داخل ہو چکا ہے اور جلد مشرقی پاکستانی افواج کی امداد کرے گا مگر یہودیوں کے زیر اثر سامراجی گماشتوں کے ہر قسم کے دیگر وعدوں کی طرح یہ وعدہ بھی جھوٹ نکلا۔

اور ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں یحیٰی خان کے حکمپر مشرقی کمانڈکے جنرل نیازی نے 93000مسلم سپاہ کے ساتھ بھارتی جنرل اروڑا سنگھ کے آگے ہتھیارڈال دیے ساری مسلم سپاہ کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک کر بھارتی افواج لے گئیں اور قید کرڈالا ۔افسوسناک ترین اس جنگ کا پہلو یہ ہے کہ بھارتیوں نے اپنے کہنے کے مطا بق کہ ہم نے نظریہ پاکستان کو سمندر میں غرق کردیا ہے ملک تو ٹوٹا مگر بے غیرت افواج ہماری نوجوان اور کم سن 28000بچیوں کو بھی منہ کالا کرنے کے لیے ساتھ لے گئے جن کی اب دوسری یا تیسری نسل کلکتہ ودیگرشہروں کے” ان بازاروں “میں بیٹھی کسی محمد بن قاسم کی آمد کا انتظار کر رہی ہے مگر ہم مسلمانوں کی غیرت ایمانی کا آخری قطرہ بھی شاید ختم ہوچکا ہے!اب تو حکمران بھی دوستیوں کا دم بھرتے اور ذاتی فنکشنوں میں موذی مودی سینکڑوں بغیر پاسپورٹ ہندوئوں کے جلو میں شامل ہوتے اور شریفین ان سے ہماری مسلمان خواتین کا پردہ تک بھی نہیں کرواتے اور پاک باز غیرت مند اور غیور بوڑھی والدہ تک کو بھی ان سے ملوانا اپنا کارنامہ سمجھتے ہیں۔

Dr Mian Ihsan Bari

Dr Mian Ihsan Bari

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری