پاکستان کی جمہوریت بھی عجیب ہے۔ یہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنے رنگ بدلتی رہتی ہے۔ جب حکومت میں ہو تو اُس کے بغیر پتّا نہیں ہلتا، حکمران جمہوریت جمہوریت پکارتے رہتے ہیں اور جمہوریت کے بغیر لقمہ نہیں توڑتے لیکن جب کرسی نہ ہو تو کیسی جمہوریت اور کہاں کی جمہوریت۔ گویا ہماری جمہوریت بھی ”کرسی” کے ساتھ مشروط ہے۔ یہ جمہوریت اگر کسی آمر کی چھتر چھایا تلے ہو تو ہمارے جمہوری سیاستدان آمر کو دَس بار وردی میں منتخب کروانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں اور گلی گلی ریفرینڈم کے حق میں تقریریں کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے ۔ سچ یہی اور تلخ حقیقت بھی کہ ہمارے جمہوری حکمران آمروں کی نرسری کے پالے ہوئے اور اِن کی جمہوریت بھی برائے نام۔
ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو آمر ایوب خاں کا ”پیرٹ” کہا جاتا تھا۔ ایوب خاں کی 19 رکنی کابینہ میں وہ واحد سویلین وزیر تھے۔ میاں نواز شریف کی سیاست کو ضیاء الحق نے پروان چڑھایا۔ ضیاء الحق تو میاں نوازشریف کو اپنی عمر تک لگ جانے کی دعائیں دیا کرتے تھے۔ محترمہ بینظیر شہید ایک طرف میاں نوازشریف اور دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ میثاقِ جمہوریت کر رہی تھیں تو دوسری طرف آمر پرویز مشرف کے ساتھ بیک ڈور ڈپلومیسی کے تحت این آر او کا معاہدہ ہو رہا تھا۔ اِسی این آر او کے تحت اُنہیں پاکستان آنے کا موقع ملا اور میاں نواز شریف کی وطن واپسی کی راہ بھی ہموار ہوئی۔ 1999ء میںپرویز مشرف نے میاں نوازشریف کی جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹا تو شیخ رشید اور چودھری برادران جیسے کئی لوگوں نے پرویزمشرف کی جھولی میں گرنے میں دیر نہیں لگائی۔ اگر نوازلیگ جنرل ضیاء الحق کا لگایا ہوا پودا تھا تو قاف لیگ کی پرورش جنرل پرویز مشرف نے کی۔ موجودہ وزیرِاعظم عمران خاں نے بھی ڈَٹ کر جنرل پرویز مشرف کی حمایت کی۔ یہ الگ بات کہ جب وہ ”کرسی” سے دور ہوئے تو یہی پرویزمشرف اُن کی نگاہوں میں کھٹکنے لگا۔ آج اُسی پرویز مشرف کے تقریباََ سارے حواری عمران خاں کے ساتھ کھڑے جمہوریت جمہوریت الاپ رہے ہیں۔ اگر واقعی پاکستان میں سچی اور سُچی جمہوریت ہوتی تو ہم اڑتیس سالوں تک مارشل لاؤں کی زَد میں نہ رہتے۔ حقیقت یہی کہ ہمارا جمہوری سفر اُسی وقت تک ہوتا ہے جب تک ”زورآوروں” کی مرضی ہو۔
وزیرِاعظم فرماتے ہیں ”میں منتخب وزیرِاعظم ہوں اور فوج میرے ماتحت ادارہ ہے۔ مخالفین جمہوری حکومت ہٹانے کے لیے فوج پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔ ایسا کرنے والوں پر آرٹیکل 6 لگتا ہے”۔ دست بستہ عرض ہے کہ فوج ہر حکومت کا ماتحت ادارہ ہی ہوتا ہے لیکن یہ بھی تلخ حقیقت کہ اِسی ماتحت ادارے نے ملک پر 38 سالوں تک جمہوری باب بند کیے رکھا۔ ماتحت ادارے سے ایک لطیفہ یاد آیا کہ دو دوست جنگل میں جا رہے تھے۔ ایک نے دوسرے سے پوچھا کہ اگر سامنے سے شیر آجائے تو تم کیا کروگے؟۔ دوسرے نے جواب دیا ”میں نے کیا کرنا ہے، پھر جو کرے گا، شیر ہی کرے گا”۔ اِس لیے ماتحت ادارے والی بات تو رہنے ہی دیں کہ یہ ہضم نہیں ہوتی البتہ جمہوری حکومت کو ہٹانے کے لیے فوج پر دباؤ ڈالنے والوں پر آرٹیکل 6 ضرور لگنا چاہیے لیکن یہاں مسٔلہ آن پڑا کہ یہ الزام تو وزیرِاعظم کی ذات پر بھی آتا ہے۔
یاد کیجئیے ڈی چوک اسلام آباد میں وہ 126 روزہ دھرنا۔ کیا سول نافرمانی کرنے والوں پر آرٹیکل 6 لاگو نہیں ہوتا؟۔ کیا وزیرِاعظم ہاؤس اور پارلیمنٹ ہاؤس پر حملہ کرنے والوں پر آرٹیکل 6 لاگو نہیں ہوتا؟۔کیا قومی ادارے پی ٹی وی پر قبضہ کرنے والوں پر آرٹیکل 6 لاگو نہیں ہوتا؟۔ کیا سرِعام یوٹیلٹی بِلز جلانے اور بیرونِ ملک پاکستانیوں کو ہُنڈی کے ذریعے رقوم بھیجنے کی تلقین کرنے والے پر آرٹیکل 6 لاگو نہیں ہوتا؟۔کیا پولیس سٹیشن پر حملہ کرکے اپنے ساتھی چھُڑوانے پر آرٹیکل6 لاگو نہیں ہوتا؟۔ آرٹیکل 6 کی بات تو رہنے ہی دیں کہ اگر اُس وقت یہ آرٹیکل لاگو نہیں ہوا جب آپ ہر روز امپائر کی انگلی کھڑی ہونے کی نوید سنایا کرتے تھے تو پھر اب یہ کیسے لاگو ہوگا جبکہ اپوزیشن میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ امپائر کی انگلی بَس کھڑی ہونے ہی والی ہے۔ اپوزیشن جدوجہد کر رہی ہے اور جدوجہد اُس کا جمہوری حق ہے جس کی اجازت اُسے آئین دیتا ہے۔ یاد کیجئیے جب آپ ہی کے پلیٹ فارم سے موجودہ وزیرِداخلہ شیخ رشید صاحب جلاؤ، گھیراؤ، مارو ، مرجاؤ جیسے نعرے بلند کر رہے تھے مگر موجودہ اپوزیشن نے تو ایسا کوئی نعرہ لگایا نہ سول نافرمانی کا اعلان کیا۔ اگر شیخ رشید پرآرٹیکل 6 لاگو نہیں ہوا تو اپوزیشن پر کیسے لاگو ہوسکتا ہے؟۔
وزیرِاعظم صاحب نے ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا ”میرے پاس بٹن نہیں کہ آن آف کرنے سے سب ٹھیک ہو جائے گا”۔ بالکل درست فرمایا لیکن جانے کیوں ہمیں بھٹو یاد آگئے۔ اُنہوں نے اپنی الیکشن کمپین میں روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایالیکن جب وزیرِاعظم بنے تو عوام نے روٹی، کپڑا اور مکان کی صدائیں بلند کیں۔ بھٹو صاحب نے فرمایا ”میں سونے کا انڈا دینے والی مرغی نہیں، محنت کروگے تو روٹی، کپڑا اور مکان مل جائے گا”۔ آج لگ بھگ سینتالیس سال بعد جب وزیرِاعظم صاحب کی زبان سے یہ الفاظ سنے کہ میرے پاس بٹن نہیںکہ آن آف کرنے سے سب ٹھیک ہو جائے گا تو ہمیں یقین ہو چلا کہ اِس قوم کے مقدر میں ابھی وہ مسیحا نہیں جو قومی درد کو پہچان سکے۔ وزیرِاعظم صاحب نے انتخابات سے پہلے جو کہا، وہ سب بھلا دیا لیکن قوم کو تو حرف حرف یاد ہے۔
اِسی لیے تو آج عاشقانِ تحریکِ انصاف بھی کہتے ہیں ”تیرے وعدے پہ جیئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا ۔۔۔۔ کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا”۔ کہاں گئے وہ سو دنوں میں ملک کی تقدیر بدلنے، ایک ہزار نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کے وعدے؟۔ کہاں گئے وہ بیرونِ ملک پڑے ہوئے دو سو ارب ڈالر واپس لانے کے دعوے؟۔ کہاں گئی 2 روپے یونٹ بجلی، 45 روپے لِٹر پٹرول جیسی بڑھکیں؟۔ کہاں گئی ریاستِ مدینہ اورکہاں گئی کشمیر کی آزادی؟۔ کہاں گئی آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بہتر خودکُشی (اب فرما رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے میں دیر کردی)؟۔ کہاں ہے ریاستِ مدینہ اور کہاں ہے نیا پاکستان؟۔ باتیں تو بہت لیکن ”صاف چلی شفاف چلی” کے بارے میں کیا کہیں کہ وہاں تو صرف یو ٹرن ہی بِکتا ہے کیونکہ یوٹرن وزارتِ عظمیٰ تک لے جاتا ہے۔ہم ہرگز یہ نہیں کہتے کہ اپوزیشن میں سب اچھا ہے۔ ہمارا مقدمہ تو یہ ہے کہ یہی اپوزیشن جب حکمران تھی تو اِس کے لچھن بھی کچھ اچھے نہ تھے لیکن قوم اِس سے اتنی مایوس کبھی نہیں ہوئی جتنی کہ موجودہ حکومت سے ۔ سرویز بھی یہی بتا رہے ہیں کہ خاںصاحب کی مقبولیت روزبروز کم ہو رہی ہے۔ خاںصاحب نے یہ تو کہہ دیا کہ اپوزیشن جتنا جی چاہے زور لگا لے، وہ حکومت نہیں چھوڑیں گے اِسی لیے اپوزیشن فوج پر دباؤ ڈال رہی ہے۔ ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ اگر اپوزیشن ایک ہفتے تک اسلام آباد میں دھرنا دے دے تو وہ مستعفی ہونے کے بارے میں سوچیں گے۔ اگر اپوزیشن کو یقین ہو کہ خاں صاحب اپنے اِس بیان پر بھی یوٹرن نہیں لیں گے تو وہ ایک ہفتہ تو کیا ایک ماہ تک دھرنا دیئے بیٹھی رہے گی۔