پاکستان میں فوجی ڈکٹیٹرز سیاست دانوں کی غلطیوں سے فاہدہ اُٹھاتے ہوئے کئی بار اقتدرار پر قابض ہوتے رہے۔ ڈکٹیٹرتین ماہ میں انتخابات کا وعدہ کر کے دس دس سال اقتدار پر قابض رہے۔ عدلیہ نے بھی نظریہ ضرورت ایجاد کیا۔ مگر پاکستانی عوام کو جان لینا چاہیے کہ اب نہ وہ فوج ہے نہ ہی نظریہ ضرورت والی عدلیہ۔ حالات یکسر بدل چکے ہیں۔ فوج نے بھی سبق سیکھ لیا ہے اور عدلیہ بھی آزاد ہو گئی ہے۔ قوم کو یاد ہو گا کہ سابق سپہ سالار جنرل پرویز کیانی صاحب کے دور میں ،انہوں نے آئی ایس آئی کے سربراہ کو پارلیمنٹ میں بھیجا تھا۔ انہوں نے پارلیمنٹ کے اندر تاریخی بیان تھا کہ فوج نے اب آئی ایس آئی میں سیاسی ونگ ختم کر دیا ہے۔ اس طرح مار شل لاء کے خوف کو جنرل پرویز کیانی صاحب نے ختم کیا۔ اس کے بعد پاکستان میںحالات چاہے کیسے بھی ہوں فوج نے اقتدار پر قبضہ کرنے کی روش بدل لی۔ فوج کے اس اچھے کام پر ہم نے ”پاکستان کی تاریخ کا صحیح فیصلہ” کے نام سے کالم لکھا تھا۔آمریت ون مین شو ہوتا ہے۔اس سے ملک کے دشمن فاہدہ اُٹھاتے ہیں۔ اب پاکستان میں تسلسل سے جمہوریت کا تیسرا دور شروع ہوا ہے۔ ملک میں فوج ہی کی نگرانی میں صاف و شفاف الیکشن ہوئے۔
الیکشن میں تحریک انصاف نے سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کیں۔ دوسرے نمبر پر نو ن لیگ، تیسرے نمبر پر پاکستان پیپلز پارٹی رہی۔ تحریک انصاف کے ممبران نے اپنے چیئرمین عمران خان کو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا۔ پاکستان کی پندرویں قومی اسمبلی کے نو منتخب ارکان قومی اسمبلی نے حلف اُٹھا لیا۔ سردار ایاز صادق اسپیکر قومی اسمبلی نے کاروائی مکمل کی۔ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب ١٥ اگست کو ہو گا۔ ١٧ اگست کو وزیر اعظم کا انتخاب ہو گا۔اس کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کر دیا جائے گا۔اسی طرح بلوچستان، سرحد اور سندھ کی صوبائی اسمبلیوں کے ممبران نے بھی حلف اُٹھا لیا۔ اب صرف پنجاب اسمبلی کے ارکان کا حلف رہتا جو پندرہ تاریخ کو ہو گا۔ اس کے بعد قومی اسمبلی میں اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب ہو گا۔تحریک انصاف اور متحدہ اپوزیش نے اپنے نمائندوں کا اعلان کر دیا ہے۔ گو کہ شروع میں مولانا فضل الرحمان صاحب نے سخت بیانات دیے۔ کہا کہ الیکشن میں اسٹبلشمنٹ نے مداخلت کی ہے۔ الکیشن دوبارہ کرائے جائیں۔ساری پارٹیاںحلف نہیں اُٹھائیں گی۔ عمران خان کووزیر اعظم نہیں بننے دیں گے۔
مرکزی اور صوبائی الیکشن کمیشن کے دفاتر کے سامنے احتجاج بھی کیا گیا۔ مگر پھر برف پگلنے لگی اورقومی اور تین صوبائی اسمبلیوں کے ممبران نے حلف بھی اُٹھا لیے۔ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیر کا انتخاب بھی ہو جائے گا۔ اس کے بعد عمران خان وزیر اعظم کا حلف بھی اُٹھا لیں گے انشاء اللہ جمہوریت پٹڑی پر چلتی رہے گی۔ ہاں پارلیمنٹ میں مضبوط متحدہ اپوزیشن ہو گی۔ جو حکومت کے ناپسندیدہ کاموں پر نظر رکھے گے۔ ویسے بھی عمران خان کو اپوزیشن کے ساتھ لے کر چلنا پڑے گا۔ سینیٹ میں بھی پیپلز پارٹی کا چیئرمین ہے۔ عمران خان نے شروع میں ہی اپنا لہجا نرم رکھا ہوا ہے۔ تحریک انصاف نے پیپلز پارٹی سے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے لیے ووٹ بھی مانگ لیے۔ تحریک انصاف کے سپوک پرسن اور ممبر قومی اسمبلی فواد چوہدری صاحب نے دعوت نامہ پیپلز پارٹی کے لیڈر خورشید شاہ صاحب تک پہنچا دیا۔ عمران خان کا پیغام ہے کہ تحریک انصاف اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے کے تیار ہے بھی اپوزیشن تک پہنچا دیا گیا۔ تحریک انصاف نے یہ بھی کہا کہ الیکشن کے متعلق نون لیگ کے تحفظات دور کریں گے۔
صاحبو! جمہورت کے لیے قوم نے بڑی قربانیاں دیں ہیں۔ہمارے ملک کی سیاسی تاریخ بڑی تلخ ہے۔٢٠٠٨ء اور ٢٠١٣ء کے دور سے پہلے پاکستان کی اسمبلیاں مختلف وجوہات کی وجہ سے ٹوٹتی رہیں۔ کبھی مارشلء لگا اور کبھی سیاستدانوں کی کرپشن اور بیڈ گورنز وجہ بنی۔ اس سے قبل دو دور میں پاکستان کی اسمبلیوں نے اپنا ٹرن آوٹ پورا کیا۔ اب الحمد اللہ یہ تیسری بار ہے۔ ملک کے سارے اداروں کو بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جمہوریت کی گاڑی کو پٹری پر صحیح صحیح چلانے میں مدد کرنی چاہیے۔ یہ ملک سب کا ہے۔
ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم پاکستان میں جمہورت کو پنپنے دیں۔ مہذب جمہوری دنیا کی طرح ادارے آئین میں دیے گئے اختیارات سے تجاوز نہ کریں۔جمہوری نظام میں پارلیمنٹ سپر ادارہ ہے۔ اس کی سپرمیسی کو قائم رہنا چاہیے۔ پارلیمنٹ کا کام قانون سازی ہے۔ عدلیہ کا کام اس کی تشریع کرنا ہے۔ ہاں عدلیہ کی نظر پارلیمنٹ کی قانون سازی پر ہونی چاہیے۔ اگر پارلیمنٹ پاکستان کے اسلامی نظریہ اور اس کی اساس اور آئین میں دیے گئے انسانی بنیادی حقوق سے ہٹ کر کوئی قانون سازی کرے تو پارلیمنٹ کی رہنمائی کرے۔ اس لیے انتظامیہ کو اپنا کام کرنا چاہیے۔ فوج ملک میں امن و امان اور سرحدی کی حفاظت کا فریضہ انجام دے۔ فوج کو کسی حالت میں بھی سیاست میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔
سیاست دانوں کو بھی فوج پر ناروا تنقید سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ملک کی پولیس کو سیاسی وفداریوں سے پاک کرنا چاہیے۔ اداروں میں میرٹ کی بنیاد پر تقرریاں ہونی چاہیے۔ عمران خان نے الیکشن میں پاکستان کی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ملک میں علامہ اقبال اورقائد اعظم کے وژن کے مطابق مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست کا نظام ِ ِحکومت قائم کریں گے۔
ہم سب مسلمان ہیں۔ ہمار اللہ ایک،رسول ۖ ایک اور کعبہ ایک ہے اور ہم سب کلمہ گو ہیں۔ لہٰذاحکومت اور پوزیشن کا پہلا کام یہ ہونا چاہیے کہ ملکِ پاکستان میں مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست کا طرزحکومت نافظ کریں۔ اس میں قانون سازی کے لیے حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔الحمد اللہ پاکستان میں جمہوریت کی تسلسل کا تیسرا دور شروع ہو۔ ہماری دعاء کہ پاکستان میں جمہورت پھولے پھلے ۔ اللہ پاکستان کا محافظ ہو۔ آمین