تحریر : واٹسن سلیم گل کرسمس آیا اور گزر گیا نیا سال آیا اور وہ بھی گزر گیا۔ میں اکثر کرسمس اور نئے سال کے موقعوں پر اداس ہوتا ہوں کیونکہ میں ان موقعوں پر اپنوں کو بہت یاد کرتا ہوں جو اب اس دنیا میں نہی ہیں ۔ ایسے ہی اداس بیٹھا سوچ رہا تھا اور اپنے ماضی کے ماہ و سال پر غور کر رہا تھا کہ ہمارے اردگرد دنیا کس قدر تبدیل ہو چکی ہے ہماری دُنیا جو آج سے محض چالیس سال قبل تک غیر تسخیر شدہ لگتی تھی اب ایک گلوبل ویلج میں تبدیل ہو چکی ہے۔ جاپان اور جرمنی سمیت سارا یورپ دوسری جنگ عظیم کے بعد برباد ہوچکا تھا وہ محض ستر سالوں میں ترقی کر کے کہا سے کہا پہنچ گیا ہے۔پاکستان بھی تقریبا ستر سال قبل دنیا کے نقشے پر ابھرا تھا۔ ان ستر سالوں میں پاکستان میں بھی بہت سی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہے۔
ستر سال پہلے چاند پر قدم رکھنے کے عمل کو دیوانے کا خواب تصور کیا جاتا تھا پھر دیوانے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا۔ 1964 میں پاکستان ٹیلویژن کا آغاز ہوا۔ ابتدائ دور میں ایک موٹے پیٹ والے ٹی وی نے عوام کی نیندیں حرام کر دیں تھیں۔ ہفتے میں ایک دن چھٹی ہوتی تھی اور رات کو دس بجے بند ہو جاتا تھا۔ اسی طرح وی سی آر نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں دھوم مچا دی تھی مگر ان چیزوں نے اتنی جلدی تبدیلی اور ترقی کا سفر مکمل کیا کہ آج ٹی وی اور وی سی آر ہماری جیب میں موجود ہے۔
میں اگر گھر سے باہر جیو نیوز دیکھنا چاہتا ہوں تو اپنے سمارٹ فون پر دیکھ لیتا ہوں اسی طرح میری جیب میں فون، فیکس، ریڈیو، ٹی وی، ہزاروں کتابیں، پوسٹ آفس اور نہ جانے کیا کیا موجود ہے۔ یعنی دنیا بھر میں بشمول پاکستان میں حیرت انگیز تبدیلیاں واقع ہوئ ہیں مگر افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ ستر سالوں میں اگر کوئ چیز نہی بدلی تو وہ ہمارا جمہوری مزاج ہے جو آج بھی جوں کا تو ہے۔ پولیس اسٹیشن میں ایک معمولی سے سپاہی سے لیکر آئ جی تک اور گورنمنٹ ملازم کے گریٹ ایک سے لیکر بائیس گریٹ تک اور پھر اعلی حکومتی عہدیداروں سے لیکر پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے ہمارے نمایندوں تک سب کی سوچ غیر جمہوری ہے۔آپ چاہے کتنے ہی عزت دار ہوں اپنے موبائل فون کی چوری کی رپورٹ لکھوانے تھانے چلے جائیں تو سپاہی آپ کی طبیت ٹھیک کر دے گا۔ سب کو اپنے لیے جمہورری حقوق چائیں مگر دوسروں کی تزلیل، بےعزتی تو جیسا حق ہے ہمارا۔ ستر سال سے جمہوریت کی خوبصورت پیکینگ میں بدصورت آمری سوچ اور نظریہ عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔
عوام بھی اس سوچ کے عادی ہو چکے ہیں اس لئے ان سے کسی بھی انقلاب کی توقع کرنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ آمر تو آمر ہیں مگر ہمارے جمہوری نظام کے ٹھیکدار بھی آمرانہ سوچ رکھتے ہیں۔بھٹوں نے اقتدار کے لئے اُدھر تم ادھر ہم کا نعرہ لگایا۔ فوج سے تو پہلے ہی ناراض تھے نتیجہ یہ نکلا کہ فوج اور مغربی پاکستان کے سیاستدانوں نے پاکستان کا نقصان کر دیا۔ پھر ایک جونئیر جنرل کو چیف بنا دیا گیا۔ وہ بھی ایسا ہی مزاج رکھتا تھا اپنے آئینی چیف کو ہی تختہ دار پر لٹکا دیا۔ اس واقعہ نے بھی جمہوری رویوں اور مزاج میں کوئ تبدیلی پیدا نہی کی۔ پھر بے نظیر اور نواز شریف کے اقتدار کا سلسلہ شروع ہوا مگر پھر وہی غیر جمہوری مزاج نے جمہوری نظام کو پنپنے نہی دیا۔
مشرف دور میں جسے آمرانہ دور کہا جاتا ہے اس غیر جمہوری دور میں کچھ جمہوری فیصلے ہوئے جیسے کہ اسمبلیوں میں خواتین کی نشستوں میں غیر معمولی اضافہ اور میڈیا کا نیا دور مگر پھر بھی بہت سے غیر جمہوری فیصلوں نے پاکستان کو پھر نقصان پہنچایا۔ نواز شریف کے حالیہ دور میں پھر فرشتوں نے اپنا کام شروع کر دیا ہے۔ کراچی میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے خلاف خطرناک کیس بنا ئے گئے ۔نواز شریف بطور وزیراعظم کچھ نہ کر سکے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی فرینڈلی اپوزیشن کو توڑ کر جمہوری نظام کو پہلے کمزور کیا گیا اور اب آخری کیل باقی ہے۔ کیونکہ سب جانتے ہیں کہ اگر سیاسی جماعتوں میں اتحاد ہو جائے تو جمہوری نظام کو پٹری سے اتارنا مشکل ہے۔
ڈاکٹر عاصم پر دہشتگردی جیسے کتنے خطرناک الزامات لگائے گئے جے آئ ٹی نے الزامات ثابت کرنے کے دعویٰ کئے مگر اب خاموشی ہوگئ۔ دوسری طرف ڈاکٹر زوالفقار مرزا جس نے خود کئ انکشافات کئے اور اعترافا ت کئے مگر اس پر کوئ ایکشن نہی لیا گیا۔ ن لیگ پر بھی وہی آپریشن کیا جا رہا ہے جو ایم کیو ایم کے خلاف کیا گیا تھا۔ ن لیگ کو توڑنے کی یہ کوشش ن لیگ کو تو کم مگر پاکستان کو زیادہ نقصان پہنچائے گی۔
پاکستان کے موجودہ حالات کا اثر خارجی امور کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ دشمن انکھیں دکھا رہے ہیں۔ مجھے خدشہ ہے کہ اگر 2018 کے الیکشن میں کسی لاڈلی پارٹی کو جتانے کی کوشش کی گئ تو جو حالات میں دیکھ رہا ہوں وہ لکھنے کی جسارت نہی کر سکتا۔ اتنا جانتا ہوں کہ اب حالات 1999 والے نہی ہیں۔ خون خرابہ ہو سکتا ہے۔ پاکستان کو ترقی کی راہ پر چلتا دیکھ کر صرف دشمن ہی جلتا ہے۔ اپنوں کو کسی دکان سے عقل کے ناخون خریدنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے ایسے حالات پیدا کرنے سے گریز کیا جائے۔