تحریر: لقمان اسد اس میں نہ کوئی دورائے ہوسکتی ہے، نہ کبھی تھی اور نہ کبھی ہونی چاہیے کہ سب سے پہلے IMF سے چھٹکارا حاصل کیا جانا بے حد ضروری ہے اگر توہ حلقے جو پاکستان کے تمام تر معاملات پر مکمل کنٹرول اور دسترس رکھتے ہیں اور وہ وطن ِ عزیز کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کی خواہش اور تمنا بھی اپنے میں دل میں رکھتے ہیں؟ اس امر میں سنجیدگی اور افسردگی کا سب سے بڑا اور نمایاں پہلو تو یہ ہے کہ مکمل 67 برس ہم نے مذاق ،مذاق میں برباد کردیئے اب حالت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ مادرِ گیتی کا ہر پیدا ہونے بچہ بھی دس لاکھ یا اس سے بھی کہیں کچھ زیادہ یا اوپر کا مقروض ہے۔ یہ ماہ ِ اگست ہے اور کچھ ہی دن چودہ اگست کو ہم انشاء اللہ جشن آزادی منائیں گے۔ اس حوالے سے جب تاریخ کے دوراہے یا چوراہے پر ایک پل یا ایک لمحہ بھی ہم کھڑے ہوکر پیچھے کر طرف مڑ کر دیکھتے ہیںتو دل خون کے آنسو روتا ہے، ہچکی بندھی جا تی ہے اور دماغ مائوف ہونے لگتاہے جبکہ ان مناظر کو ذہن میں لاتے ہوئے آنکھیں چندھیاجاتی ہیں کہ جن حالات میں ہمارے بزرگوں ، بڑوں اور ہم سب کے آبائو اجداد نے یہ جنت کا ٹکڑا یعنی وطنِ عزیز پاکستان حاصل کیا تھا۔
ایسی درد ناک ہجر ت جس میں محض گھر ، بار کی قربانی ہمارے آبائو اجداد نے دی بلکہ معصوم بچوں ،نوجوان بیٹوں ، نوجوان بیٹیوں اور بوڑھے والدین نے بھی لاتعداد شہادتیں دے کر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ۔جذبہ کیا کارفرماتھا اور ان تمام تر عظیم قربانیوں کا نصب العین اور مقصدکیا تھا ؟وہ سب یہ تھا آج ہم قربانی دے کر اپنی آنے والی نسلوں کا مستقبل تابناک بنادیں گے اور اگر آج ہم نے قربانی دینے سے دریغ کیا یا کنارہ کشی اختیار کرلی تو ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل ہمیشہ ، ہمیشہ کیلئے تاریک ہو جائے گا مگر افسوس دو دہائیوں بعد ہی ہم نے باہمی نفاق اور آپس کی نفرتوں کے باعث جنت کا آدھا ٹکڑا گنوا دیا اور اُن قربانیوں سے کوئی سبق ہم حاصل نہ کر پائے جبکہ ازلی دشمن ہمیشہ سے اور ہماری آزادی کے اول روز ہی سے اس مشقت میں غرق رہا اور تاک میں خیمہ زن کہ ہماری اندر کی لڑائیوں سے جس قدر فوائد سمیٹ سکتا اور اپنی سازشوں کو کامیاب کرسکتا ہے کرے۔
جناب والا! سرِ تسلیم خم اور بجا کہ ہند وستان کبھی بھی سامنے کی لڑائی میں ہمیں نہ شکست دے سکتا ہے ، نہ دے سکا اور انشاء اللہ کبھی قیامت کی صبح تک وہ ایسا سوچ سکتا یا کر سکتاہے مگر اس سامنے کے سچ کو تسلیم کر نے کے باوجود کیا ہمیں اس پر ہی اکتفا کرنا چاہیے اور کیا اسی پر ہی ہم فخر سے اپنا سر بلند رکھے رہیں کہ ہمار ا دشمن ہمیں سامنے کے میدان جنگ میں شکست سے دوچار کرنے صلاحیت سے یکسرمحروم ہے ؟عام سے عام مشاہد ہ بھی ہمارے اس نکتہ نظر ، فلسفے اور دانش کی واضح نفی کر تا اور معمولی سا غورو فکر بھی ہمیں اس بات کا پابندکرتا دکھائی دیتا ہے کہ قومی زندگی کا شعور ان واہموں ، خوش فہمیوں اور غلط فہموں سے کہیں الگ اور بلند ہوا کرتا ہے جبکہ قوموں کا معیار زندگی وقتی طورپر گھڑے ہوئے خیالوں ، فلسفوں ، منصوبوں اور فیصلوں سے بلندی کے زینے طے کبھی نہیں کرسکتا۔ IMF جیسے انسان دشمن اداروں پر ہی محض اعتماد اور یقین رکھ کر ملکی ترقی کے خوابوں کے شرمندہ تعبیر ہونے کی امید ہی اگر ہمارا قومی دماغ اور قومی شعور ہے تو پھر ہماری بدقسمتی کی انتہا کوئی نہیں۔
Terrorism
دوئم! دہشت گردی کے آسیب ِ بد سے نجات ضروری ہے، اس حوالے یہاں یہ بات ہمیں یاد رکھنا ہوگی کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور تک پاکستان بھر میں کسی ایک بھی ایسی جماعت یا تنظیم کا وجود تک نہ تھا جو پاکستان کی داخلہ یا خارجہ پالیسی کو وضع کرنے اختیار اپنے طور پر استعمال کر تی یا از خود کوئی ایسا منصوبہ سامنے لاتی جو ہمارے قومی اداروں قومی مستقبل پر اثر انداز ہو مگرذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد پاکستان بھر میں ایسی تنظیموں اور پرائیویٹ لشکر وں کا سیلاب امڈ آیا اس کے پیچھے امریکی مقاصد کارفرما تھے یا ہمارے نیشنل پالیسی سازاداروں کی یہ حکمت عملی تھی اب بہرحال ان اسباب کو تلاشنا یا اس بحث پر وقت صرف کرنا قیمتی وقت کے ضیاع کے ماسوائے کچھ نہیں لیکن یہ وہ سبق آموز داستانیں ضرور ہیں اگر ان کو کھنگا ل کر ہم اپنے کیے پر سے عبرت حاصل کر پائیں اور پھر آنے والے وقتوں میں دوبارہ اس انداز سے چلنے سے توبہ کو بھی اپنا مقدر بنا لیں تو اس میںذرہ برابر کچھ حرج بھی ہرگز نہیں ۔
سوئم !دنیا کی بڑی طاقتوں یا وہ طاقتیں جن سے ہمارے معاشی ، تجارتی اور ہر طرح کے دنیاوی مفاد وابستہ ہیں ان طاقتوں کے سامنے ہمیں بھیگی بلی بننے کی بجائے بہادری کے ساتھ کھل کر اپنا موقف رکھنا چاہیے اس لئے کہ ہمیں خود مختار اور آزاد ملک کا اپنا فطری اور جمہوری حق ہرصورت محفوظ رکھنا ہے اور اپنے اس بنیادی حق سے ہمیں کسی طور دنیا کی کوئی طاقت دستبرداری پر مجبور نہ کرسکے چاہے ہمارے پاس تین وقت کی روٹی کی نسبت ایک یا دو وقت کا کھانا ہی کیوں نہ میسر آئے کرہ ارض پر باشعور قوموں کا طرہ امتیاز اس سے بڑھ کر کبھی کوئی یا کبھی کچھ اس کے سوا نہیں رہتا کہ وہ دنیا میں ایک آزاد اور خود مختیار قوم کی شناخت کے طور پر تسلیم کی جائیں اور پہچانی جائیں تاریخ بھی اس بات پر شاہد کہ کبھی دنیا یا کسی خطہ کی نڈر لیڈر شپ اپنی آزادی اور خود مختاری پر کسی بھی حالت یا کیسے بھی مشکل ترین حالات میں سمجھوتہ نہیں کیا۔
چہارم!طویل المدتی منصوبہ بندی کا سوچا جانا اور ترتیب دیاجانا پاکستان کے زمینی حقائق کی روشنی اور ملک کو درپیش موجودہ مسائل مد نظر رکھتے ہوئے ہمارے لئے سب سے اہم اور لازم شے ہے کہ اب تک جس کے فقدان کے سبب آج ہم من حیث القوم قابل رحم حالت میں ہیں بے روزی گاری،دہشت گردی اور دوسرے سماجی مسائل بلاشبہ ہماری غلط منصوبہ بندیوں کا ہی پیش خیمہ ہیں۔ہر چار پانچ برس بعد آدھا ملک سیلاب میں ڈوب جاتا ہے اور ہم اس بات سے آنکھیں چراتے ہیں کہ جب تمام دنیا کے معروف تجزیہ نگار آنیوالے وقتوں میں پانی پر بڑی طاقتوں کی لڑائی اور جنگ عظیم کا طبل بجارہے ہیں۔ جبکہ ان سب حقائق کے برعکس ہم کروڑوں کیوسک پانی کے ضیاع پر ڈگڈگی بجاتے اور تعلیمی اداروں کو سیلاب زدگان کی رہائش گاہوں میں بدل کر یہ فخر محسوس کرتے ہیں کہ جیسے ہم نے اپنے کسی آفت زدہ ہمسایہ ملک کے پناہ گزینوں کی میزبانی کا اہم فریضہ انتہائی سلیقہ سے سرانجام دیا ہو
National Interests
پنجم!محض اور محض قومی مفادات کے پیش نظر ہمیں فیصلے کرنا چاہیے کرپشن جہاں کہی کسی فرد واحد کا وطیرہ اور عمل ہو ،جس سیاسی خاندان یا جس بیوروکریٹ اورجس کسی قومی ادارے میں بھی پائی جاتی ہے اجتماعی یا انفرادی طور پر اس کا خاتمہ اور قلع قمع کیئے بغیر دنیا کی تیز رو ترقی کے برابر کھڑا ہونے کی ہماری راہ میں ایک ایسا بڑا پہاڑ ہے کہ جس کو روندے بغیر ہمارا قومی مستقبل کبھی بھی تابناک نہیں ہوسکتا اس ضمن میں مگر سیاسی مفادات ،ذاتی پسند نا پسند اور انتقامی روش کو ترک کرنا پہلی شرط ٹھہرائی جانی چاہیے تاکہ سیاسی مقاصد کی بجائے اصل اہداف تک پہنچا جاسکے اور بلاجواز کسی طرح کے رد عمل کا کوئی اندیشہ کسی طرف سے ملک میں پیدا نہ ہوپائے یقیناً کرپشن کے خاتمے کیلئے بے لاگ اور کڑے احتساب کا آغاز کیا جاناچاہیے۔
اس جشن آزادی پر ہمارے ارباب اختیار پالیسی میکرز ،منصوبہ سازوں اور قومی لیڈر شپ کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ آخر کب تک ہم اپنے نسلی شعور، قومی ترقی اور قومی مستبقل کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں کے بوجھ سے مشروط رکھ کر جنیے کی آرزو اور خواب دیکھتے رہیں گے اور آخر ہمارے لیے کیوں یہ لازم نہیں کہ ہم بھی اپنی قوم کو ہر وہ زندگی کی سہولت میسر کرنے کی پوزیشن میں آنے کی جدوجہد کا عزم کریں کہ جو آج کے ترقی یافتہ ملکوں کے شہریوں کو نصیب ہے ہماری لیڈر شپ کو بارہا غور کرنا ہوگا کہ ہمارے ملک میں ہی کیوں دہشت گردوں کے لئے سب سے زیادہ فضا سازگار رہتی ہے اس لئے کہ ہم نے نوجوانوں کو باعزت روز گار دینے کی بجائے انہیں منگتا اور بھکاری بنادیابلاشبہ قوموں کی زندگی بہت بلند پایہ تخیلات، نڈر دلیرانہ قیادت کے بے باک فیصلوں اور قومی آزادی وخودمختاری کے تحفظ ایسے اقدامات کے باعث ہی سدھاری اور سنواری جاسکتی ہے ناکہ کروڑوں کیوسک پانی کو ہر دو تین برس میں ضائع کردینے اور ڈیمز بنانے کے بجائے میٹروں بس اور اورنج ٹرین منصوبوں پر سارے ملک کا خزانہ برباد اور صرف کرنے جیسے تباہ کن اقدامات کے سبب آزاد ممالک ترقی کی منازل طے کیا کرتے ہیں۔
ملک ے ک 19 کروڑ عوام تماشائی نہیں کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے سرکس کاتماشہ دیکھتے رہیں گے یہ ملک کسی ایک خاندان کی قربانی سے تو معرض وجود میں نہ آیا تھا کہ اب اس ملک پر حکمرانی کرنے والی کلاس کے علاوہ دوسرے عام لوگوں کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں، اس بار کے 14 اگست اور جشن آزادی کا دن یہ کبھی تقاضہ کرتا ہے کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے خاندان کو اور کوئی نہیں تو ثانی قائد اعظم خود کو کہلوانے والے میاں محمد نواز شریف ماڈل ٹائون میں موجود ایک گھر کی چابی انہیں عنایت کرکے ان کی جان کرائے کے گھروں سے چھڑادیں تاکہ بانی پاکستان کی روح کو تو سکون میسر آسکے اور تو کچھ دھج سے کچھ نہ ہوسکاچلو یہ کارنامہ ہی سرانجام دیدیں۔