تحریر : میر افسر امان اکثر سننے میں آتا ہے کہ پاکستان ترقی پذیر ملک ہے۔ ہم ترقی کی طرف آگے بڑھ رہے ہیں۔ آئیں ناقدانہ تجزیہ کریں کہ بحیثیتِ قوم ہم کس طرف بڑھ رہے ہیں۔ واقعی ترقی کی طرف بڑھ رہے ہیں یا کہ تنزل کی طرف۔ اس سلسلے میں ہم اپنے ملک کا مارل، سیاسی اور اقتصادی حیثیت سے تجزیہ کریں گے۔ سب سے پہلے مارل حیثیت سے دیکھیں تو شاید اس نام کی کسی چیز کا ہمارے ملک میں رواج نہیں۔ ملک میں کتنے بڑے بڑے دہشت گردی کے واقعات ہو جائیں یا کسی حکمران پر کوئی بڑے سے بڑا الزام لگ جائے حکمران ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ ہم پشاور کے آرمی پبلک اسکول کی بات کرتے ہیں۔ جس میںسفاک دہشت گردوں نے سیکڑوںمعصوم بچوں سے معلومات کر کے انہیں شہید کیا تھا۔ کیا اس وقت مارل حیثیت سے خیبر پختون خواہ حکومت کے سربراہ کو بچوں کے دکھ کا مداوا کرتے ہوئے استعفیٰ نہیں دے دینا چاہیے تھا؟ مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ کیونکہ اس سے قبل پاکستان میں ایسی نظیر نہیں ملتی۔ جبکہ ہم مغربی ملکوں ،حتہ کہ ہمارے پڑوس ملک، ازلی دشمن بھارت میں ایسی نظیریںدیکھنے کو ملتی ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے برطانیہ میں اس بات پر ریفرنڈیم ہوا تھا کہ یورپی یونین میں برطانیہ کو شامل رہنا چاہیے یا اس سے علیحدہ ہو جانا چاہیے۔
برطانیہ کے وزیر اعظم اس بات پر سوچ رکھتے تھے کہ برطانیہ کو یورپی یونین میں شامل رہنا چاہیے۔ ملک میں ریفرنڈیم ہوا اوربرطانوی عوام نے یورپی یونین سے نکلنے کے حق میں ووٹ استعمال کیا۔ دیوڈ کیمرون نے یہ کہہ کر مارل گرائونڈ پر استعفیٰ دے دیا کہ میری قوم نے مجھ پر اعتماد نہیں کیا اس لئے مجھے اُن پر حکمرانی کا حق نہیں۔ بغیر کسی دہشت گردی کے واقعہ بلکہ صرف عوام کے رائے کے تقدس کا احترام کرتے ہوئے ڈیوڈ کیمرون نے استعفیٰ دے دیاتھا۔ اس طرح اگر پاناما لیکس کی بات کی جائے تو کئی ماہ گزر گئے قوم ایک ہیجان میں مبتلا ہے حکمران کہہ رہے ہیں اپوزیشن ملک میں ترقی نہیں دیکھ سکتی۔ کبھی الیکشن میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے خلاف کنٹینر پر چڑھ کر کئی ماہ تک ملک کو ترقی سے روکے رکھا اور اب پاناما لیکس میں کئی ماہ سے حکومت کو مصروف کر رکھا ہے۔ ملک میں ترقی اپوزیشن کو پسند نہیں۔کیا ایسا ہی معاملہ دنیا میں دوسرے ملکوں میں پیش نہیں آیا ؟ کیادو حکومتوں کے وزیر اعظم نے استعفے نہیں دے دیے، ایک نے پارلیمنٹ کے اندر اپنی صفائی پیش کی اور معاملہ ختم ہو گیا۔
پھرپڑوسی ملک کا تذکرہ کرنا پڑ رہا ہے کہ وہاں اس کے حل کا فارمولہ جمہوری طریقے سے طے کردیا گیا۔ ہمارے وزیر اعظم صاحب نے دو دفعہ الیکٹرونک نیٹ ورک پر تقریر کر کے اپنے آپ اور اپنے خاندان کے احتساب کی بات کی اور پھر ایک دفعہ پارلیمنٹ میں میں بھی اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کیا ۔ اپوزیشن کے دبائو پر عدلیہ کو بھی پرانے قانون کے مطابق احتساب کے لیے خط لکھا۔ عدالت نے کہا کہ پرانے قانون میں فیصلہ سنانے میں سالوں لگیں گے۔ نیا قانون بنایا جائے تب ہم اس کیس کو سنیں گے۔ ٹی او آر کے معاملے کو حکومت نے اتنا لمبا کیا کہ اپوزیشن سڑکوں پر احتجاج کرنے پر مجبور ہوئی۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ وزیر اعظم الزام لگنے پر مارل گرائونڈ پر مستعفی ہو جاتے۔ اور اپنی ہی پارٹی کے کسی دوسرے فرد کو وزیر اعظم بناد یتے۔ آزاد عدلیہ الزام کا فیصلہ کرتی اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوتا۔ الزام غلط ثابت ہونے پر دوبارہ وزیر اعظم بن جاتے۔
Panama Leaks
ہمارے ملک میں مارل ویلیوز کا کوئی ریکارڈ نہیں یہی تنزل ہے۔ ملک کئی مہینوں سے پاناماکے چکر میں پھنسا ہوا ہے۔ اب مقدمہ سپریم کورٹ میں ہے۔ جس کی ڈے ٹوڈے عدالتی کاروائی ہو رہی ہی ہے۔ لگتا ہے فروری کے پہلے ہفتہ میں کوئی نہ کوئی فیصلہ سپریم کورٹ سنا دے گی۔ جہاں تک دنیا کے مقتدر لوگوں کے خاندانوں کا تعلق ہے تو امریکا کے سابق صدر اوباما کی بیٹیاں ہوٹل میں ملازمت کرتی رہی ہیں۔نائب صدر کے پاس اپنے عزیز کے علاج کے لیے مناسب پیسے نہیں تھے۔ہمارے برادر ملک ترکی کے وزیراعظم کا والد خراد مشین پر کام کرکے اپنا گزارہ کرتا ہے۔ہمارے ملک میں حکمرانوں کے محل رائے وئنڈ اوردوسرے کے سرے محل کے تذکرے عوام سنتے رہے ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم کی نواسی کی شادی پر اتنا خرچ کیا جاتا ہے کہ مغل بادشاہوں کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ ہمارے ملک میں غربت عام ہے اور ہمارے ایک صدر کے گھوڑے مربے کھاتے تھے۔ اگرسیاست پر بات کی جائے تو اس کو سیاست دانوں نے عبادت کی بجائے کاروبار بنایا ہوا ہے۔ لاکھ لگائو کروڑ کمائو والی پالیسی چل رہی ہے۔ ایک پارٹی کے صدر ٹین پرسنٹ سے ہینڈرنٹ پرسنٹ تک مشہور ہوئے۔ ساٹھ لاکھ ڈالر سوئس بنکوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ ان کے دو وزیر اعظموں پر کرپشن کے الزام پر عدالتوں میں مقدمے چل رہے ہیں۔ موجودہ وزیر اعظم پر پاناما لیکس کا مقدمہ چل رہا ہے۔ ان کے بچے باہر ملکوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔وزیر اعظم دوسرے لوگوں کو پاکستان میں انوسٹمنٹ کی ترکیب دلاتے ہیں جبکہ ا ن کے بچے باہر ملکوں میں کاروبار کرتے ہیں۔ان کاسرمایا باہر ملکوں میں محفوظ ہے۔
سیاست دانوں اور ان کے بچوں کاعلاج باہر ملکوں میں ہوتا ہے۔ اقتصادی ترقی پر بات کی جائے تو پاکستان میں نہ پہلی حکومتوں نے کوئی خاص ترقی نہیں کی نہ ہی موجودہ حکومت نے کچھ کیا۔ پہلی حکومتوںنے بجلی جیسی بنیادی ضرورت کیلیے کچھ بھی نہیں کیا بلکہ ایک یونٹ کا بھی اضافہ نہیں کیا۔ بجلی نہ ملنے کی وجہ سے کئی ملیں بند ہو گئیں ہیں۔ لوڈشیڈنگ کے عذاب سے عوام نڈھال ہو جاتے ہیں۔ اس طرح گیس کا بھی معاملہ ہے۔پاکستان اور ترکی کے تقریباً ایک جیسے حالات ہیں پاکستا ن کی طرح وہاں بھی تین دفعہ مار شل لا لگا۔ مگر اردگان کی صلاحیت کی داد دینی پڑتی ہے کہ وہاں پاکستان کے مقابلے میں اقصادیات میں تیز رفتاری سے ترقی ہوئی ہے۔ غیر مسلم ترقی پذیر ملکوں کو ایک طرف رکھ دیں۔ مسلمان ملکوں، جیسے انڈونیشیا ء اورملائشیاء کا بھی معاملہ ہے ان کے حکمرانوں نے بہترین لیڈر شپ کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاشی ترقی میں اپنا نام پیدا کیا۔ جہاں جمہوریت کا نظام ہوتا ہے وہاں اگر حکمرانوں میں اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت نہیں ہوتی تو ایسا ہی ہوتا ہے جیسے پاکستان میں ہو رہا ہے۔
حکمران ملک کے اداروں کو جنہوں نے ملک کے نظام کو چلانا ہوتا ہے اگر صحیح او ر آزادانہ کام نہ کر نے دیا جائے تو پھر سپریم کورٹ کو ریماکس دینے پڑتے ہیں کہ ملک کے ادارے مفلوج ہو گئے ہیں۔ ہاں پاکستان میں چین پاک اقتصادی راہداری سے ترقی ضرور ہوگی ۔ ایک تو اس میں چین نے اپنا فائدہ دیکھنا ہے دوسرااس میں ابھی وقت لگے گا۔ اللہ اس پروجیکٹ کو دشمنوں کی نظر سے بچائے ۔ صاحبو! پاناما لیکس پر عدالت کے باہر اور شام کو الیکٹرونک میڈیا پر تو اس وقت سیاستدانوں کے درمیان ایک قسم کشتی ہو رہی ہے۔ اللہ کرے پاناما لیکس کیس کا جلد فیصلہ ہو جائے ۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ سیاستدان اس سے سبق حاصل کریں اور ایک دوسرے کی ٹانگیں نہ کھینچیں۔ ملک کو ترقی کی شاہ راہ پرگامزن کریں ۔یہ سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے تاکہ پاکستان ترقی پذیر ہو نہ کہ تنزل پذیر۔