تحریر: ۔چوہدری غلام غوث پاکستان ایک ایسا تحفہ خداوندی ہے جو کہ ہر قسم کے قدرتی وسائل سے مالامال ہے ہم اس تحفے کی شایان شان اللہ کا شکرادا کرنے سے قاصر رہے بدقسمتی سے بانی پاکستان قائد اعظم کی وفات کے بعد ملک پاکستان میں ،نیک صالح ،باکردار ،صاحب بصیرت اور محب وطن قیادت کا فقدان نظر آیا ہے ،اس ملک کو ترقیوں کی معراج پر فائز کرنے کیلئے ایک ایسی قیادت کی ضرورت تھی جو اس ملک کے قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کا صحیح معنوں میں ادراک کرتے ہوئے اس سمت میں اس ملک کی ترقی کے معیار کا تعین کر کے اس کو دنیا کے ترقی یا فتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرنے کی صلاحیت رکھتی بدقسمتی سے یہ ملک اپنے ہی وسائل اپنے ہی شہریوں کیلئے استعمال کرنے کی صلاحیت سے محروم رہا۔
ہمارا ملک بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اور اس کی بنیادی اکائی زراعت ہے 70فیصد سے زائد لوگ اس پیشہ سے براہ راست منسلک ہیں مگر کسی بھی حکومت نے آج تک کبھی بھی سنجیدہ ہوکر اس طرف توجہ نہیں دی ۔اگر حکومتیں زرعی اصلاحات لے کر آتیں اور عملی طور پر ان کا نفاذ کیا جاتا تو آج اس ملک کا کسان خوشحال نظر آتا جو کہ اس وقت سب سے زیادہ بدحالی کا شکار ہے بلکہ سڑکوں پرآئے روز سراپا احتجاج بن کر اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کے خلاف آواز اُٹھاتا ہے اس ملک کا کسان جسطرح سے اس ملک کی خدمت کافریضہ سر انجام دے سکتا تھا اور اس ملک کو غلے میں خود کفیل بنا سکتا تھا بلکہ وافر مقدار میں غلہ پیدا کر کے بیروں ملک درآمد کر کے زرمبادلہ کماکر دے سکتا تھا آج خود زبوں حالی کا شکار ہے زراعت کے شعبے میں خصوصی توجہ کی ضرورت ہے ۔
Natural Resources
اللہ تعالی نے اس ملک کو چار موسم ،پانچ دریا، زرعی زمینیں ،پہاڑ ،ریگستان ، زیر زمین معدنیات سبزہ ،خوبصورت قدرتی نظاروں سمیت ہرنعمت سے نوازا ہے،صرف قدرتی خوبصورتی کافی نہیں ہوتی بلکہ ملکوں اور علاقوں کو انسان کی انتھک محنت بھی درکار ہوتی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ جب تک قدرت اور انسان کے درمیان مل جُل کرکام کرنے کا تعلق پیدا نہیں ہوتا اس وقت تک چیزیں مکمل نہیں ہوتیں بیج کو لیجئے اللہ تعالی نے بیج پیدا کیا مٹی ہوا اور پانی بھی اللہ نے پیدا کئے اور جب تک انسان اس بیج مٹی ہوا اور پانی کو کھیت کی شکل نہیں دیتا انسان اناج میں خود کفیل نہیں ہوتا جس انسان نے اپنی اس ذمہ داری کو محسوس کر لیا وہ انسان اور خطہ خوشحالی سے مزین ہوگیا ،اس کا مقدر بدل گیا مگر انسانوں کے جس گرو ہ نے سستی اور تاخیر کا مظاہرہ کیا وہ گروہ اور ملک ترقی سے محروم ہو گیا ۔تاریخ کا سب سے بڑا سچ ہے پانی اللہ تعالی عنایت کرتا ہے مگر اس پانی کوڈیم میں بدلنا اس کی نہریں بنانا اور نہروں کو کھیتوں اور آبادیوں تک پہنچانا انسان کاکام ہوتا ہے موسم ،ماحول اور حالات بھی اللہ تعالی پیدا فرماتا ہے لیکن ان حالات اور اس ماحول سمیت موسموں کو اپنے لئے کارآمد بنانا انسان کا کام ہوتا ہے ،زمین کے پیٹ میں سونا ،چاندی ،لوہا ،تیل اور دیگر قدرتی جواہرات اللہ نے پیدا کئے ہیں مگر ان کو نکال کر سونے چاندی کے زیورات بنانا لوہے سے کارخانے بنانا ،تیل سے توانائی بنانا ،دیگر جواہرات اور قیمتی دھاتوں سے منفعت حاصل کرنا انسانوں کا کام ہے۔ میری نظر میں فلسفہ ترقی اور آگے بڑھنے کے پانچ بنیادی عناصر ہیں۔
(1)کوئی شخص یا قوم قرض لے کر کبھی بھی امیر اور خوشحال نہیں ہوسکتی اگر کوئی قوم قرضوں سے امیر ہوسکتی تو پورا افریقہ اس وقت یورپ ہوتا،(2)کوئی قوم تعلیم کے زینے کے بغیر ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتی( 3)کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں پا سکتی جب تک اپنے ملک کے قدرتی وسائل پر انحصار نہ کرئے(4)جب تک کوئی قوم صنعت اور تجارت کے دروازوں میں داخل نہ ہو وہ ترقی کے شعبے میں نہیں جا سکتی(5)جب تک آپ محروم طبقوں کو مرکزی دھارے میں داخل نہیں کرتے آپ ترقی نہیں کر سکتے جیسے چین اورملائشیا میں ایک مقولہ زبان زد عام ہے کہ ایک بھوکے کو ایک مچھلی دے دیں تو اس کا ایک دن آرام سے گذر جائے گا لیکن اگر آپ اسے مچھلی پکڑنے کی کنڈی دے دیں تو وہ عمر بھر کیلئے خود کفیل ہوجائے گا۔
کوئی قوم قرض لے کر امیر نہیں ہوسکتی کیونکہ قرض اس کی خودی کو ختم کر دیتا اس کا وقار دائو پر لگا دیتا ہے اس کی رائے کی صلاحیت سلب کر دیتا ہے حتی کہ اس کے ذہن کو غلام بنا کر رکھ دیتا ہے جس کی وجہ سے اس کی سوچ کا دائرہ کار محدود ہو جاتا ہے جبکہ اپنے وسائل پر انحصار اس کی عزت نفس کی بحالی کا موجب بنتا ہے اس کو محنت کرنے کے گُر سکھاتاہے اس کی سوچ میں پختگی لاتا ہے اور اس کو آگے بڑھنے کی لگن دیتا ہے تعلیم کے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کر سکتا کیونکہ قوم میں شعور اور اگہی آئے تو آگے بڑھے گی آج سے ہم اپنے ملک کی تعلیم پر توجہ دیں اپنے جی ڈی پی کا حصہ تعلیم کیلئے بڑھائیں دیہاتی بچوں کو سکالر شپ دے کر شہروں کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں لائیں دیہاتوں میں ہائر سیکنڈری سکولز کا جال بچھائیں سرکاری خرچ پر باصلاحیت نوجوانوں کو امریکہ اور یورپ کی یونیورسٹیوں میں داخلے دلوائیں اور ہمارے جو اعلی تعلیم یافتہ نوجوان امریکہ اور یورپ میں پُرکشش مراعات کے عوض نوکریاں کر رہے ہیں ان کو یہ مراعات دے کر واپس ملک میں لائیں اور ان کی صلاحتیوں سے استفادہ حاصل کرنے کی ٹھان لیں تو پھر دیکھیں ملک میں کیسی انقلابی تبدیلی آتی ہے نواجونوں کا اعتماد کیسے بحال ہوتا ہے اور ملک کیسے ترقی کرتا ہے اور ایسے آگے بڑھتا چلا جاتا ہے کہ نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
Gold
آج بھی ہم اپنے ملک کے قدرتی وسائل کو منصفانہ طور پر استعمال میں لے آئیں اور ان پر انحصار کی پالیسی اپنا لیں۔ بلوچستان سے سونا اور تانبا نکالیں ،خیبر پختونخواہ اور شمالی علاقہ جات کے تفریحی مقامات کوسیاحت کی انڈسٹری میں تبدیل کر دیں اپنے ریگستانوں سے تیل اور قدرتی گیس نکال کر توانائی کے شعبے میں جھونک دیں اپنے ضائع ہونے والے پانی کے ذخاائر کو ڈیموں کی شکل دے کر قابل استعمال بنا دیں ،زراعت کو منافع بخش صنعت کا درجہ دے کر اس کی ترقی پر وسائل خرچ کریں اپنے کسانوں کو عزت دے کر خوشحالی کی شاہراہ پر ڈال دیں تو پھر دیکھیں پاکستان آگے کیسے نہیں بڑھتا اپنے ملک میں صنعتوں کا جال بچھا دیں ٹیکسٹائل شعبے کو دنیا کااعلی ترین ترقی یافتہ شعبہ بنا دیں تجارت جیسے پیغمبری شعبے کو اپنا لیں اپنی یونیورسٹیوں سے زرعی اور صنعتی سائنسدانوں کو پیدا کرنا شروع کر دیںتو پھر دیکھیں ملک کیسے آگے نہیں بڑھتا۔
ایک مغربی مفکر کا قول ہے کہ ٹیلنٹ ہمیشہ شہروں سے 20/25میل دور پیدا ہوتا ہے کے مصداق ہم جب تک محروم طبقوں کو مرکزی دھارے میں داخل نہیں کریں گے ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کا خواب ادھورا رہے گا ہمارے ملک کا اصل ٹیلنٹ سہولتوں سے محروم علاقوں میں چھپا ہو تا ہے جس کو تلاش کرنے کیلئے ہم نے کبھی جستجو نہیں کی محروم علاقوں اور محروم طبقوں کو برابری کی بنیاد پر قومی دھارے میں شامل کر دیا جائے تو ان کی محنت اور کاوشوں سے ترقی کی نئی راہیں مل جائیں گی۔ اللہ کے فضل و کرم سے اس ملک میں قدرتی وسائل کی فراوانی سمیت افرادی قوت اور ٹیلنٹ کی بہتات ہے مگر کمی صرف ایک بات کی ہے کہ اس ملک کو نیک صالح ،باکردار ،صاحب بصیرت اور محب وطن قیادت درکار ہے جو کہ نیک نیتی اور حب الوطنی کے ہتھیار سے لیس ہو کر اس عظیم ملک کو ترقی کی شاہرہ پر ڈال سکے اور یہ ملک ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں فخر کے ساتھ کھڑا ہو کر اپنا مقام بنا سکے یہ ملک عطیہ خدا وندی ہے یہ نظریات اور اساس کی بنیاد پر قائم ہوا ہے اور قیامت تک قائم رہے گا ،انشااللہ