تحریر : انجینئر افتخار چودھری سچ تو یہ ہے کہ دنیا میں ترقی کرنے والوں نے جو قوانین بنائے وہ سب پر لاگو کئے اپنا وزیر اعظم بھی اگر ایسا کرتا تواسے جرمانہ ہو جاتا ۔فرینکفرٹ میں جب زیر زمین ٹرین میں بیٹھ کر جا رہے تھے تو ہم ڈبے کے اندر چند سیٹوں پر بیٹھ گئے جو کچھ بہتر تھیں وہاں ایک عرب نے ہمارے عرب دوست کو بتایا کہ یہاں سے اٹھ جائیے اس لیئے کہ آپ کے ٹکٹ اکانومی کے ہیں ہم نے شکر کیا کہ پمیں کسی نے بتا دیا ورنہ اتنا جرمانہ ہوتا کہ بس نہ پوچھیں۔میاں نواز شریف کو جس جرم میں نکالا اسے بڑا کہئے یا چھوٹا اس نے انہیں سخت نقصان پہنچا دیا ہے انہیں ڈر ہے کہ اب اگر یہ کیس میرے خلاف چلے تو میری خیر نہیں،اس لئے کہ ضبط ہونے کی صورت میں بیرون ملک جائداد بھی قرق ہو جائے گی اور وہ میاں صاحب نہیں چاہتے انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ میں وزیر اعظم رہوں یا نہ رہوں لیکن وہ ٣٠٠ ارب کو بچانے کے لئے پریشان ہیں۔اسی لئے وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت کی بساط الٹ جائے تا کہ وہ مظلوم بن سکیں شائد اسی لئے وہ عدالتوں کو کام نہیں کرنے دے رہے۔
اس سے بڑھ کر کیا زیادتی ہو گی کہ ہمارے سابق تا حیات نا اہل وزیر اعظم کو اپنے ہی فلیٹ کے باہر گاڑی غلط پارک کرنے پر ٦٥ پائونڈ جرمانہ کر دیا گیا ہے۔معمولی اس رقم سے انہیں کیا فرق پڑتا ہے لیکن جو ان کے دل پر گزری ہو گی وہ وہی جانتے ہیں ۔انہوں نے ضرور سوچا ہو گا کہ اپنے ملک سے بہتر کون سی جگہ ہو سکتی ہے جہاں وہ سڑکوں پر دندھناتے پھرتے ہیں انسانوں کو کچل دیتے ہیں پینسٹھ پائونڈ کیا لوگ ان پر صدقے واری جاتے ہیں۔اور اس بات کو اعزاز سمجھتے ہیں کہ وہ پوری قوم کو کچل ڈالیں اف نہیں کریں گے۔میاں صاحب جب مشرف کے مارشل لاء کے بعد سعودی عرب پہنچے تو اکثر لوگوں کا یہ خیال ہے کہ وہ بڑے مزے میں تھے لیکن میری ان آنکھوں نے انہیں دیکھا ہے کہ سعودی بھی انہیں اپنے مقام پر رکھتے تھے۔ہمارے ایک دوست چودھری اسلم تھے مہران ہوٹل کے مالک اللہ غریق رحمت کرے وہ سن ٢٠٠٠ میں گاڑی کے حادثے میں ینبع جاتے ہوئے اللہ کو پیارے ہو گئے۔یہ مارچ کے دن تھے ان کے جنازے میں میاں صاحب بھی شریک تھے حرم مکی کی بات ہے پاکستان کا سابق وزیر اعظم اپنے جاہ و جلال کو پاکستان چھوڑ کر آ گیا تھا اسے جان عزیز تھے مچھر کاٹتے تھے اور اور اسے یہ بھی شکائت تھی کہ اس کی کوٹھڑی میں اندھیرا رہتا ہے۔
اس کی خواہش تھی کہ اسے جیل سے نکالا جائے اس کے لئے اس نے ایک معاہدہ کیا جس کے تحت اس نے دس سال ملک سے باہر رہان گوارا کر لیا۔یہ اس جلاوطنی کے دور کی بات ہے جو میں سنا رہا ہوں ہم نے حرم مکہ میں غالبا عصر کی نماز کے ساتھ جنازہ پڑھا۔منہ دیکھنے کے لئے میاں صاحب آگے بڑھے تو ساتھ کھڑے کیپٹن نے ان کی بادامی رنگ کی قمیض کو زور سے کھینچا اور عربی میں کہا خلک ہنا جس کا مطلب ہے ایتھے ای کھلو جا۔سچ پوچھیں مجھے دلی دکھ ہوا اور دل ہی دل میں سوچا یہ لوگ کیا سے کیا ہو جاتے ہیں پل بھر میں دنیا بدل جاتی ہے۔یہ وہی نواز شریف تھا جس نے ایٹمی دھماکے کرائے(بقول ان کے) اور سارا عالم انہیں سر پر اٹھا رہا تھا خصوصا اسلامی ملکوں نے تو سوچا یہ تو اپنی چیز ہے۔میاں نواز شریف کو مرے ہوئے چودھری اسلم کا منہ نہیں دیکھنے دیا گیا اور وہ بغیر دیکھے اس سوکھے سے منحنی سے کیپٹن کے ساتھ واپس چلے گئے،خود دو ایک بار کیپٹن صفدر واک کرنے کے بہانے ہمیں لاثانی ملنے آئے ۔یہ پردیس ہے یہاں کوئی نہیں رعائت برتے گا۔میاں صاحب آپ کیا سمجھتے ہیں کہ وہ ٣٠٠ ارب روپیہ جو باہر کے بینکوں میں رکھا ہے وہ آپ کا ہو گا ہر گز نہیں یہ گورے بڑی تیز چیز ہوتے ہیں انہوں نے ایسے قوانین بنائے ہوئے ہیں جن سے انہیں ہی فائدہ پہنچتا ہے ۔میاں نواز شریف سے کتنے گنا زیادہ امیر ہوں گے لیبیا کے قذافی،عراق کے صدام حسین،ایران کے رضا شاہ پہلوی اور بہہت سے لوگ ان کا مال ہڑپ کر لیا گیا ۔اور جب مال مفت ملا تو تو کہا کہ ان لوگوں نے اپنی کمائیاں ناجائز طریقے سے کمائیں لہذہ انہیں نہیں ملیں گی۔ہونا تو یہ چاہئے کہ یہ کمائی اس ملک کے غریب عوام کے نام کر دی جائے مگر ایسا ہوتا نہیں۔
اللہ کے کام ہیں جہاں انہیں مقدر کا سکندر کہا جاتا تھا وہ سکندر رکاوٹوں کی دوڑ میں سب پھلانگتا چلا آیا مگر بہت سیانے میاں صاحب جب پانامہ کے کے سلسلے میں عدالتوں کے سامنے کھڑے ہوئے تو ان کی شان سکندری تہس نہس ہو گئی میاں صاحب صورت سے بھولے نظر آتے ہیں مگر اصل میں ہیں نہیں۔مجھے کسی خاص مسلم لیگی نے بتایا کہ میاں صاحب خود دوستوں کو کہتے ہیں کہ میری سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ لوگ مجھے چہرے سے معصوم سمجھتے ہیں۔انسان اپنے کاموں سے پہچانا جاتا ہے۔اس ملک کی قسمت بری کہ انہیں اس قسم کے حکمران ملے جنہوں نے اس ملک کے مال کو شیر مادر سمجھ کر پیا اور پھر یہ کہا بھی کہ ہمیں اس ملک کو آگے لے جانا تھا اور ستر سالوں میں ہمارا ہاتھ روکا گیا۔کسی نے روکا وہ دنیا جانتی ہے پاکستان کے غریب لوگ اپنی چھت اور دو وقت کی روٹی کے متلاشی ہیں بد قسمتی ہے جو آیا سیر آیا اور اس کے بعد آنے ولا سوا سیر۔کون بد بخت جمہوریت کی گاڑی کو ڈی ریل کرنا چاہتا ہے لیکن جمہوریت والے بھی تو سمجھیں۔ہمیں وہ سیاہ دور یاد ہے جب لوگوں کو ٹکٹکیوں سے باندھ کر مارا گیا اور بیرون ملک جیلوں میں بند کروا کے پاکستان لایا گیا لیکن کیا یہ صرف جدہ کے عظمت نیازی،آفتاب میرزا،شہباز دین بٹ،خواجہ امجد،انجینئر افتخار چودھری کے ساتھ ایک آمر کے دور میں ہو اجو کہا کرتا تھا کہ میں ڈرتا ورتا نہیں ہوں حضور آپ کے اسحق ڈار ان لوگوں کے اجڑنے پر روئے آپ نے افسوس کیا آپ کے اہل خانہ ہمارے دکھوں میں شریک ہوئے۔لیکن شومیء قسمت دور بدلا آپ کی جمہوریت کے دور میں فضل سبحان اور دیگر لوگ ڈیپورٹ ہوئے فرق کیا تھا ظالم کا رنگ بدلا سزائیں تو اسی طرح موجود رہیں۔اور وہ لوگو جو انہیں صبح مساء کہا کرتے تھے کہ میاں صاحب ڈٹ جائیں کچھ بھی نہیں ہونے والا۔سیاسی پارٹیوں میں ایسے لوگ وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں جو آگے کا نہیں سوچتے چاپلوسوں میں حالے میں آئے ہوئے حکمران صب و شام سب اچھا کی رپورٹ ملنے پر مطمئن ہو جاتے ہیں اور اقتتدار کے نشے میں مخمور پھر ایسی غلطیاں ہو جاتی ہیں جس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔
میاں صاحب کو ٦٥ پائونڈ دیتے ہوئے جو تکلیف محسوس ہو ئی ہو گی اس کی قیمت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔یہ ایک تازیانہ ہے ۔ہم لوگ کب سبق سیکھیں گے کب سدھریں گے۔کیا ہم اپنے ملک میں اس طرح نہیں رہ سکتے جیسے باہر جا کر رہتے ہیں۔میں نے زندگی کا طویل عرصہ باہر گزارا ہے یقین کیجئے جب سعودی عرب جایا کرتے تھے تو وہاں اشاروں کی پابندی قطار میں لگنا سہمے ہوئے کھڑے رہنا ہم سب کچھ کرتے تھے مگر پاکستان آتے ہی یہ ساری چیزیں الگ سے رکھ دی جاتی تھیں۔پاکستان کے مہا وزیر اعظم کے ساتھ جو سلوک ہوا ہے کم از کم انہیں یہ احساس ضرور ہو گیا گے کہ اب وہ کسی کو کچل نہیں سکتے کسی کو ناجائز تنگ نہیں کر سکتے۔میں سمجھتا ہوں یہ تو گورے کا نظام تھا ابھی انہیں ایک اور مشکل پیش آئے گی وہ لوگوں کی آوازیں ہوں گی جو ان کا آنے والے دنوں میں پیچھا کریں گی۔ان کے چیلے چانٹے پولیس کے منہ پر تھپڑ مار سکتے ہیں لیکن صرف پاکستان میں وہاں بریطانیہ میں میاں صاحب کو وہاں کے قوانین کی پابندی کرنا ہو گی۔٦٥ پائونڈ کی ادائیگی میاں صاحب کے لئے وارننگ ہے کہ آپ اب پاکستان میں نہیں ہیں اور یہاں کوئی ایسا سر نہیں ہے جسے آپ گاڑی کے نیچے کچل کر رکیں گے بھی نہیں کوئی ہمارے ان میاں صاحب کو بتا ئے اور سمجھائے کہ میاں صاحب وہ پاکستان نہیں۔