واشنگٹن (جیوڈیسک) امریکا کی سابق وزیرِ خارجہ ہلیری کلنٹن نے کہا کہ افغانستان میں تزرویراتی گہرائی کے حصول کے لیے پاکستان کی پالیسی غلط ثابت ہوگئی ہے، اور اب اس ملک کو اپنی تمام طاقت عسکریت پسندوں سے نمٹنے کے لیے مرکوز کردینا چاہیٔے۔
افغانستان میں یا ہندوستان میں تزویراتی گہرائی حاصل کرلیں گے، میں سمجھتی ہوں کہ اگر کبھی وہ اس کو سچ بھی خیال کرتے تھے تب بھی مجھے اس میں شک تھا، اور یہ تصور کبھی حقیقت نہیں بن سکتا تھا۔‘‘
اپنی نئی کتاب ’مشکل انتخاب‘ پر مرکوز اپنے انٹرویو میں ہلیری کلنٹن نے کہا کہ پاکستان کو بھی اب مشکل راستے کا انتخاب کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کو چاہیٔے کہ وہ مختلف دہشت گرد گروپس کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع کر دے۔
اور اپنی تمام تر ریاستی طاقت کو انتہاپسندوں کے خاتمے کے لیے استعمال کرے۔ان کے تمام تربیتی مراکز، ان کی محفوظ پناہ گاہوں اور مدرسوں کو بند کردیا جائے، جہاں سے خودکش حملوں کی ترغیب دی جارہی ہے۔
اس کے علاوہ پاکستانیوں کو بھی مستقبل میں اپنے لیے مختلف نکتہ نظر کو اپنانا ضروری ہے۔ سابق امریکی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ آصف علی زرداری کی حکومت کو اس بارے میں علم نہیں تھا کہ فوج اور آئی ایس آئی کے اندر موجود عناصر اور مختلف انتہاپسندوں اور یہاں تک کہ دہشت گرد گروپس کے ساتھ کیا روابط ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ عناصر یہ غلط نکتہ نظر رکھتے تھے کہ ہندوستان اور افغانستان کے ساتھ اس قسم کی پراکسی جنگ پاکستان کے مفاد میں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’یہ اپنے گھر کے پچھواڑے میں زہریلے سانپوں کو پالنے کے مترادف تھا، جن کے متعلق یہ توقع کی گئی تھی کہ وہ صرف آپ کے پڑوسی کو ہی کاٹیں گے اور اب کیا ہم یہ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ اسی طرح کے عناصر کے ذریعے پاکستانی ریاست کو خطرہ لاحق ہورہا ہے۔‘‘
ہلیری کلنٹن نے کہا کہ جب انہوں نے ممبئی پر ہوئے دہشت گرد حملے کے بعد ہندوستان کا دورہ کیا تھا، اس وقت کی حکومت نے ان سے کہا تھا کہ اس وقت تحمل سے کام لینا بہت مشکل ہوگیا تھا، اس بات کا ان پر گہرا اثر ہوا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ جب ان کی سونیا گاندھی اور سابق ہندوستانی وزیراعظم منموہن سنگھ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ان سے کہا تھا ’’یہ ملٹری انٹیلی جنس کے ادارے کی بنیاد میں ایک عنصر ہے، لیکن سویلین حکومت اس میں ملؤث نہیں تھی۔ لیکن میں سمجھتی ہوں کہ اس قسم کے مسلسل حملوں سے کوئی بھی ملک دور نہیں رہ سکتا۔‘‘
ہلیری کلنٹن نے حوالہ دیا کہ اب یہ دہشت گرد پاکستان کے اندر گہرائی میں منتقل ہوگئے ہیں، وہ پاکستان کے بڑے شہروں میں اپنے اہداف پر حملے کر رہے ہیں۔ ’’ہم نے ابھی حال ہی میں کراچی میں ایک حملہ دیکھا ہے۔ اور مجھے نظر نہیں آتا کہ کس طرح پاکستان اس کو زیادہ دیر نظر انداز کرسکے گا۔‘‘
جب ان سے سوال کیا گیا کہ ان کے خیال میں ان دہشت گرد حملوں کا کون ذمہ دار تھا، تو انہوں نے کہا کہ ’’ہمارے پاس یقینی طور پر کوئی ثبوت نہیں ہے، کہ یہ بہت اعلٰی سطح پر تھا،لیکن ایسا ہوسکتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ سچ نہ ہو۔‘‘