تحریر : شیخ خالد ذاہد ہم پاکستانی بجلی، پانی، گیس اور سب سے بڑھ کر بھوک جیسے گھمبیر مسائل کہ جال میں بری طرح سے جکڑے ہوئے ہیں اور پھنستے ہی جارہے ہیں۔ ہر گزرتا دن اس جال کی سختی بڑھاتا جارہا ہے اور آنے والے دن کی مشقت میں اضافہ کر رہا ہے، ہر دن نئی سے نئی دشواری تیار کرکے جاتا ہے۔ زیادہ تر خوابوں کا تعلق بند آنکھوں سے ہوتا ہے چاہے خواب میں محبوب آئے یا پھر کوئی ڈرؤنی شکل، خوابوں کو کھلی آنکھ سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ خواب کی دونوں قسموں کا تعلق ہمارے ذہن میں پکنے یا بسنے والے خیالات ہیں۔ دونوں ہی طرح کے خوابوں کیلئے مدت سے ماحول سازگار نہیں۔ آج ہر طرف ایک نفسا نفسی ہے ہر کوئی بھاگے جا رہا ہے اور اسکا یہ بھاگنا کسی بھی قسم کے مقصد سے عاری ہے سوائے اسکے کہ سب اپنے آپ کو ہلکان کئے جارہے ہیں۔ آج تمام امور بغیر کسی بھاگ دوڑ کے حل ہوتے جارہے ہیں۔ رہی سہی کسر سماجی میڈیا نے پوری کر دی ہے۔
پہلے زمانوں میں زندگیاں سکون نامی شے سے کافی حد تک شناسا تھیں اور خوابوں کی دنیا آباد کرنے کیلئے سکون کا ہونا بہت حد تک ضروری ہے۔ نا موبائل کا شور تھا انٹرنیٹ اور کمپیوٹر جیسی بلائیں ابھی معاشرے کو اپنے حصار میں نہیں لے سکیں تھیں تو بہت حد تک معاشرے کو سکون میسر تھا۔ سوچ بچار کرنے کا بھی وقت میسر تھا اور اپنی سوچوں کو دوسروں تک منتقل کرنے کا بھی وقت تھا ادب لحاظ بھی تھا اور بڑے بوڑھوں کی باتوں میں دنائی بھی تھی۔ چائے اور پانی کے ایک ایک گلاس پر گھنٹوں کی بھیٹکیں ہوتی تھیں مگر اب تو جو کچھ ہے وہ سب کا سب انٹرنیٹ پر ہے بزگوں کی دنائی بھی، انکی سوچیں بھی اور اقوالِ زریں بھی۔ جب خوابوں کے دیکھنے کا مقصد ہوا کرتا تھا اور در حقیقت آج ان خوابوں کی بدولت ہی دنیا کی ترقی کی منزلیں طے کی ہیں اور یہاں تک پہنچی ہے۔ مگر دنیا کو یہاں تک پہچانے والوں نے خواب دیکھنے والوں نے یقیناً ایسا بلکل نہیں چاہا ہوگا جیسا کہ ہوتا جا رہا ہے۔ انکے خوابوں کا منباء تو اپنی آنے والی نسلوں کیلئے اپنے سکون سے کہیں زیادہ سکون مہیا کرنا تھا اور افزائشِ سکون کے اسباب پیدا کرنے تھے۔ مگر سب کچھ الٹا ہی ہوتا چلا گیا اور ہم اپنی اپنی منزلوں سے کہیں دور نکل گئے۔
جب خواب کھلی آنکھوں سے دیکھا جائے اور اسکی تعبیر کیلئے دن رات بھاگ دوڑ کی جائے یہاں تک کہ جان و مال کی قربانی سے بھی دریغ نا کیا جائے تو یقنناً ایسا خواب مسلمانوں کیلئے ایک الگ اور آذاد ریاست کا مطالبہ ہی ہوسکتا ہے اور اس متبرک خواب کی تعبیر پاکستان کی صورت میں ہوتا ہے۔ انسان اگر خوابوں کی تاریخ مرتب کرے گا تو حکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا خواب اسے اول درجے کہ خوابوں میں رکھنا پڑے گا۔ ڈاکٹر اقبال نے مسلمانوں کی ایک الگ ریاست کا جو خواب کھلی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے پیروکاروں کو، امت کے معماروں کو 23 مارچ 1940 کو بتایا، اس خواب کی اہمیت نے اس دن کو تاریخ ساز دن بنا دیا ہم پاکستانی رہتی دنیاتک اس دن کی یاد مناتے رہنگے اور ہر پاکستانی اپنے آپ سے یہ عہد کرتا رہے گا کہ وہ پاکستان کی سلامتی اور بقاء کیلئے تعبیر پر معمور خواب دیکھتا رہے گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ “دو قومی نظریہ” کی بنیاد سر سید احمد خان نے رکھی تھی ان پر یہ بات واضح ہوچکی تھی کہ اب ہمیں ہندوستان میں ہندؤں کے ساتھ نہیں رہنے دیا جائے گا۔ اس بات کو آج دلائل سے واضح کر دیا گیا ہے۔ سر سید احمد خان کے دوقومی نظریہ کو قائدِ اعظم نے پیش کیا اور اس کی بنیاد پر علامہ اقبال نے خواب دیکھا اس خواب کی تعبیر کیلئے لاکھوں انسانوں نے اپنے جان و مال کی قربانی دی اور “پاکستان” کے وجود کو جنم دیا۔
ہم پاکستانیوں کی زندگیوں سے سکون ختم کردیا گیا ہے، سکون ہی وہ چیز تھی جس کی بدولت خواب دیکھے جا سکتے تھے۔ ہم نے خواب دیکھنے چھوڑدئیے ہیں یا پھر ہم کسی اور راستے پر چل پڑے ہیں وہ راستہ جو ہمیں اغیار نے دیکھایا ہے۔ ہم نے خواب دیکھنے چھوڑدئے ہیں بلکہ ہم نے اقبال کے خواب کو بھی بھلادیا ہے، ہمیں ایک سوال اپنے آپ سے کرنا چاہئے کہ ہم نے اپنی آنے والی نسلوں کو یہ بات کتنی بار بتائی ہے کہ ہم “یومِ پاکستان” کیوں مناتے ہیں یا پاکستان کی تاریخ میں اس دن کی کیا اہمیت ہے۔ رہی سہی کثر ہمارے تعلیمی نظام نے پوری کردی ہے جنہوں نے ہماری کتابوں سے وہ اسباق بھی متروک کروادئیے ہیں جن کی بدولت یہ پیغام آگے بڑھ رہا تھا۔
ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کیلئے اب اس بے ہنگم ماحول میں ہی خواب دیکھنے ہونگے روشن و پاک پاکستان، قائداعظم کے فرمودات کا پاکستان، اقبال کہ شاہینوں کہ پاکستان کے خواب۔ ان خوابوں کی پرورش کرنی ہوگی اپنی آنے والی نسلوں کیلئے، انکی تعبیر کیلئے ہمیں کسی بھی حد سے گزرنا پڑے تو گزر جائینگے۔ ہم آج اس عہد ساز دن اپنے آپ سے اور اپنی آنے والی نسلوں سے یہ وعدہ کرتے ہیں کہ ہم خواب دیکھنگے اور تعبیر کیلئے تن من اور دھن لگا کر کام کرینگے اور دنیا کو اپنے زندہ قوم ہونے کا پیغام دینگے۔