وزیر اعظم نواز شریف نے امریکہ میں وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے جرمنی کے شہر کولون میں دعویٰ کیا ہے کہ ڈرون حملے پاکستان کی اجازت کے بغیر کئے جا رہے ہیں۔ وُضع داری کا تقاضا تو یہی ہے کہ جب دو شریف آدمی کوئی بات پوری دیانتداری سے کریں تو اسکا یقین کیا جائے۔
یقین تو شاید کر ہی لیا جاتا اُن دیگر وعدوں اور دعوؤں کی طرح کو حالیہ الیکشن میں انتخابی مہم کے دوران کئے گئے لیکن اعصاب چٹک گئے۔ پاؤں ٹھٹھک گئے امریکی کانگریس میں ایوان نمائندگان کی خارجہ امور کی کمیٹی کے رُکن ایلن گریسن کا رونگٹھے کھڑے کر دینے کا انکشاف سُن کر کہ ڈرون حملے پاکستان کی اجازت سے کئے جا رہے ہیں۔
ذرا ماضی میں جھانکیں، زیادہ وقت نہیں گزرا جب میاں نواز شریف نے بنے بنائے یعنی پہلے سے تیار شدہ ایٹم بم کو چلانے کا اعلان کر کے دعویٰ کیا تھا کہ میں نے پاکستان کو دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بنا دیا ہے۔ اب اسے کوئی میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا کیونکہ یہ ملک نا قابل تسخیر بن چکا ہے۔
میاں صاحب نے پاکستان کو کسی حد تک نا قابل تسخیر بنایا اس بات کا اندازہ یوں لگائیے کہ گزشتہ کئی سالوں سے بغیر سوار کے ہوا میں اُڑتی ہوئی ایک مشین پاکستانی سرحدوں کی حدود کو توڑتی ہوئی پہلے طے شدہ علاقے میں داخل ہوتی ہے آگ اور خون کا کھیل کھیلتی ہے اور بغیر کسی روک ٹوک کے جہاں سے اُڑتی ہے وہیں جا اُترتی ہے۔
Nawaz Sharif, Obama
پاک سر زمین کی سرحدوں کی پامال کو روکنے پر مامور کوئی اینٹی کرافٹ کوئی طیارہ شکن کوئی ایف سولہ حرکت میں آتا۔ چیخ و پکار آہوں اور سکسیوں کی دلخراش صداؤں کے باوجود ناقابل تسخیر ملک کی سرحدوں کے محافطوں کو پتہ تک نہیں چلتا کہ کون آیا کون گیا۔ وہیں چاک و چوبند جوانوں پر مشتمل دنیا کی بہترین پروفیشنل اتنی کیوں ہے۔
سرکاری اعدو شمار کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں میں 317 ڈرون حملے ہوئے جن میں 2160 دہشت گرد جبکہ 61 عام شہری مارے گئے لیکن یہ رپورٹ حقائق پر مبنی نہیں ایلن گریسن کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان چاہے تو ڈرون حملے کل بند ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کی اجازت اور منظوری کے بغیر ڈرون حملوں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اُس نے اپنے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے عراق کی مثال دی۔ امریکیوں کی ایک خصوصیت ہے بات صیح کر رہے ہوں یا غلط اسے اُدھورا نہیں چھوڑتے مسئلے کا جو ھل بتاتے ہیں۔
اسکا توڑ پہلے کر رکھتے ہیں۔ اس نے کہا کہ عراقی جنگ اس وقت ختم ہوئی جب وہاں کی حکومت نے امریکی فوج سے وہاں سے جانے کیلئے کہا دیا۔ دیکھنا یہ ہے پاکستان میں یہ حالات کب پیدا ہوں گے۔ ڈرون حملے رکوانے کیلئے دھمکی نہیں بات چیت سے کام چلے گا۔
معاشی بحران میں گرے ہوئے امریکہ کیلئے زیادہ دیر تک ڈرون طیاروں کے ذریعے گشت و خون جاری رکھتا ممکن نہیں۔جنگجوؤں پر اپنا اسرورسُوخ قائم رکھتے اور عوام کی توجہ مسائل سے ہٹائے رکھنے کیلئے ہر حکموت نے گزشتہ سالوں کے دوران امریکہ کو ڈرون حملوں کی اجازت دی تاکہ خوف کے سائے لہراتے رہیں اسکے بدلے امریکی مطالبے پورے کئے جاتے رہے۔
دو طرفہ لین دین کا جواب پاکستان کے سر پڑ گیا ہے۔ پاکستان کا امریکہ کے ساتھ اس معاملے پر کیا معاہدہ ہے اس معاہدے کا منظر عام پر آنا ابھی باقی ہے۔ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا بحران یہی خاموشی ہے۔ ایلن گریسن کہتا ہے کہ پاکستانی ایئرفورس کا تاقتوار ہے اور اسکے پاس اختیار ہے کہ اپنی سرحدوں پر وہ جب چاہے پابندی لگا سکتے ہیں۔
پاکستان کی منظوری کے بغیر اس طرھ کی کاروائی یعنی ڈرون حملوں کی کاروائی ممکن ہی نہیں۔ یہ کیسے ہوسکتان ہے کہ اگر وہ امریکی ڈرونز کو سہولتیں دینا بند کر دیں تو وہ زبردستی پاکستانی علاقوں میں گس کر بمباری کر سکیں گے۔پاکستانی فوج بھی چند شرپسندوں کو قابو کر کے ڈرونز کی کاروائیوں کا جواز ختم کر سکتا ہے۔
Drone Attack
امریکی انخلا کے بعد پاکستان کو افغنستان اور قبائیلوں کے ساتھ پہلے والے تعلقات بحال کرنا ناگریز ہوگا۔ اگر پُراسرار چُپ کا روزہ نہ ٹوٹا اور ڈرونز کی کاروائیاں بند نہ کی گئیں تو ہمارء قابئل اور ہمسایہ افغنستان ہمیشہ کیلئے ہمارے دُشمن بن جائیں گے۔ ڈرونز پر جو بھی خفیہ معاہدہ ہے اُسے فی الفور ختم کر کے دینا چاہئے کیونکہ اندھی طاقت کے استعمال سے آج تک کھبی بھی امن قائم نہیں ہوا۔