پاکستان میں اس وقت قومی سطح پر جو مسئلہ سب سے زیادہ گرم ہے وہ ہمارے ملک کے سب سے بڑے دشمنوں کی ہمارے ملک پر جارحیت ہے۔ امریکہ کی جانب سے قبائلی علاقوں سے باہر نکل کر ہنگو میں ایک مدرسے پر ڈرون حملہ اور پھر 8 شہادتوں کے بعد صوبہ خیبرپختونخوا میں وہاں کے حکمران اتحاد کی جانب سے نیٹو سپلائی کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ اتحاد کی پارٹیوں کے کارکن دھرنے دے کر سپلائی روک رہے ہیں جبکہ دوسری طرف دفاع پاکستان کونسل اور اس میں شامل مذہبی و سیاسی جماعتوں کا اپنے اپنے طور پر بھی امریکی ڈرون دہشت گردی، نیٹو سپلائی اور کنٹرول لائن پر بھارت کی جانب سے دیوار کی تعمیر کے فیصلے کے خلاف زبردست رد عمل دیکھنے میں آرہا ہے۔
ملک کے کونے کونے میں ان بنیادی مسائل پر عوام اپنی بھرپور دلچسپی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ عوام ملکی سرحدوں کے دفاع سے غافل نہیں ہیں۔ امریکہ نے ہمارے ملک پر جو ڈرون حملوں کے ذریعے بے گناہ عوام، مظلوم عورتوں اور بچوں کا قتل عام شروع کر رکھا ہے اس پر کسی طور آنکھ بند نہیں رکھی جا سکتی۔ دنیا کا کوئی آزاد ملک اپنی سرحدوں کے اندر کبھی دوسرے ملک کو حملے کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور اگر کوئی حملہ کرے تو اسے کھلی جنگ تصور کیا جاتا ہے جبکہ ہمارے ملک پر امریکہ کی جانب سے 2006ء سے ڈرون حملے جاری ہیں جن میں لگ بھگ ساڑھے تین ہزار پاکستانی جام شہادت نوش کر چکے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو براہ راست امریکی حملوں اور دہشت گردی کا نشانہ بنے ہیں جبکہ امریکہ کی اس جنگ میں ہمارے شہید ہونے والے شہریوں کی تعداد 50 ہزار بیان کی جاتی ہے۔
فوج کے شہداء بھی ہزاروں میں ہیں جن میں اعلیٰ سطح کے جنرل بھی شامل ہیں، ساتھ ہی ساتھ ہمیں اس جنگ کا ساتھی اور اتحادی بننے سے معاشی تباہی کا سامنا ہوا وہ 100 ارب ڈالر سے زائد ہے۔ پاکستان غیر کی جنگ کو اپنے گھر میں لاکر دنیا بھر میں بدنام اور تنہا الگ ہوا۔ اس موقع پر ہم اپنی قوم اور حکومت کے سامنے ترکی و شام کو رکھنا چاہیں گے کہ ان ممالک نے 2003ء میں عراق پر امریکی حملے کے وقت اس کا اتحادی بننے سے انکار کر دیا تھا اور امریکہ کا حکم مانا تک نہیں تھا، آج بھی ترکی، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہے اور کمال و حیران کن بات یہ ہے کہ دس برس میں ترکی نے اپنی 80 سالہ تاریخ میں سب سے زیادہ حیران کن ترقی کی۔ وہی ترکی جو کل تک یورپین یونین کا حصہ بننے کے لئے ہاتھ پھیلائے بھکاری کی صورت کھڑا نظر آتا تھا آج وہ اس ”اعزاز” کے حصول سے بے نیاز ہے اور یورپین یونین خود اسے اپنے اندر مدغم کرنے کیلئے بے چین ہے۔
اگر دنیا میں ملکوں، حکومتوں اور انسانوں کی تقدیر و مستقبل کا مالک امریکہ ہوتا تو سوچنے کی بات ہے کہ ترکی پھر کیسے اس قدر آگے نکل جاتا۔ جدید ترکی نے اپنے بانی کمال اتاترک کی تعلیمات پر تین حرف بھیج کر ایک نیا سفر شروع کیا ہے اور وہ اسلام سے محبت اور اسلام کی طرف لوٹنے کا ہے۔ جیسے جیسے ترکی لادینیت کو ترک کر کے اسلام کی طرف بڑھ رہا ہے اور امریکہ کی بات سے انکاری ہو رہا ہے ویسے ویسے ہی اس کی ترقی کی منازل تیز تر طے ہو رہی ہیں۔ ہم نے یہ ساری تفصیل اس لئے بیان کی ہے کہ ہمارے حکمرانوں اور قومی قیادت و عوام کو اس بات کا ادراک ہو سکے کہ دنیا میں عزت و وقار، ترقی و قوت و استحکام کیسے ملتا ہے۔ ہمارے حکمران چونکہ موجودہ ترکی سے بہت زیادہ متاثر ہیں لہٰذا ہم انہیں یہی بتانا چاہتے ہیں کہ وہ آج کے ترکی کی ترقی کے اصل نکتے کو سمجھیں۔
Pervez Musharraf
ہمارا سابقہ صدر پرویز مشرف کمال پاشا اتاترک کو اپنا رہبر و رہنما مانتا تھا لیکن کمال اتاترک نے جس طرح ملکی نظریاتی سرحدوں کو غارت کیا لگ بھگ اسی طرح پرویز مشرف نے اس ملک کے ساتھ کیا، اب ہمیں اپنے اصل کی طرف لوٹنا ہے۔
ہم یہاں واضح کرنا چاہتے ہیں کہ نیٹو سپلائی کو اب کسی صورت پاکستان سے نہیں گزرنا چاہئے، وہ لوگ ہماری سڑکوں اور ہمارے وسائل کو ہی استعمال کر کے ہمیں ہی خاک و خون میں تڑپاتے ہیں پھر ہم کیوں ان پر اپنا سب کچھ وارنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اب نیٹو سپلائی کو بند ہونا چاہئے اور حکومت پاکستان کو بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں سے ملحقہ کنٹرول لائن پر ڈیڑھ سو کلو میٹر کے لگ بھگ مجوزہ دیوار بنانے سے بازرکھنے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ بھارت قانونی طور پر کنٹرول لائن جو کہ اصلاً سیز فائر لائن ہے پر کسی قسم کی ایسی تبدیلی نہیں کر سکتا کہ جس سے آزاد و مضبوضہ کشمیر کے عوام کے باہم تعلقات اور رابطے کٹ جائیں کیونکہ یہ سارا علاقہ متنازعہ ہے جسے ساری دنیا کا چارٹر تسلیم کرتا ہے، ہمارا اصل مقدمہ تو کشمیر کا ہی ہے جسے ہم نے لڑنا ہے اور اپنے ملک کو اسی کشمیر کے ذریعے ہی مضبوط و مستحکم بنانا ہے۔
بھارت نے باڑ لگانے اور دیوہیکل دیوار بنانے کا نظریہ اسرائیل سے لیا ہے اور وہی اس سلسلے میں اصل رہنمائی کر رہا ہے۔ بھارت سمجھتا ہے کہ اسرائیل نے غزہ اور مغربی کنارے کے اردگرد انتہائی مضبوط اور اونچی دیوار بنا کر فلسطینیوں کو قید کر دیا ہے جس کے بعد وہاں ان کے حملے بند ہو گئے ہیں اگر بھارت بھی اسی طرح دیوار بنا لے تو مقبوضہ کشمیر میں جہادی و سیاسی تحریک آزادی ختم ہو جائے گی لیکن بھارت کو بھی یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اسرائیل امریکہ و یورپ سمیت ساری اسلام دشمن دنیا کی کھلی مدد و حمایت کے باوجود ایک دن بھی سکون سے بیٹھ نہیں سکا، ساری اسرائیلی قوم شدید اضطراب و مصیبت کی کیفیت میں ہے۔ اسرائیلی ہر وقت موت کے خوف میں رہتے ہیں اور ان کی بے تحاشا خودکشیاں دنیا کے سامنے آ چکی ہیں، جس قدر موت و مٹنے کا خوف اسرائیلیوں پر طاری ہے، اس قدر دنیا کے کسی دوسرے خطے کی کسی قوم پر نہیں۔
بھارت یہ بات بھی یاد رکھ لے کہ مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی وہاں کے لوگ اپنے بل بوتے پر چلا رہے ہیں، بھارت نے سید علی گیلانی کی معمولی وقت کیلئے نظربندی ختم کی تو نتائج سامنے تھے کہ کس طرح لاکھوں کشمیری سڑکوں پر آ کر آزادی کے نعرے بلند کر رہے تھے، آج کل وہاں ایک بار پھر یہی تحریک تیز تر ہے۔ بھارت 10 لاکھ فورسز کی طاقت اور 70 سال کے عرصہ میں ہر طرح کے ہتھکنڈے آزمانے کے باوجود کشمیری قوم کو زیر نہیں کر سکا تو کیا وہ اس دیوار سے انہیں زیر کر لے گا، ہرگز نہیں، تو پھر ہمیں آج اس صورتحال میں امریکہ کی ڈرون دہشت گردی اور بھارت کی جانب سے کشمیر کے راستے پاکستان میں یلغار کا مقابلہ کرتے آگے بڑھنا ہے، اسی میں ہماری بقا و عزت ہے۔