اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں اپنی مخلوق، یعنی انسان کو خبردار کرتے ہوئے فرماتا ہے”اُس بڑے عذاب سے پہلے ہم اِسی دنیا میں(کسی نہ کسی چھوٹے) عذاب کا مزا اِنھیں چکھاتے رہیں گے شاہد کہ یہ( اپنی باغیانہ روش سے)باز آجائیں” السجدہ آیات (٢١)۔باز آ جانا یعنی اللہ کے بندے بن کر رہنا۔ جو اللہ کے احکامات اللہ کے رسولوں نے انسانوں تک پہنچائے ہیں ان پر عمل کرنا ۔جن چیزوں سے اللہ کے رسولوں نے منا کیا ہے ان سے منع ہو جانا۔ اِن آیت کی تفسیر تلاش کی جائے تو اللہ کی باغی ،گذشتہ قوموں کا ذکر تفصیل سے قرآن پاک میں موجود ہے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ عذاب کے بعد بھی انسان نے کبھی بھی سبق حاصل نہیں کیااوراللہ کی نافرمانیاں کرتا رہا۔ قرآن شریف کے مطابق اللہ کے پیغمبر حضرت نوح ٩٥٠ سال تک اپنی قوم کے نافرمان لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتا رہا۔ ایک کشتی میں جتنے سوار ہو سکتے ہیں ان ہی انسانوں نے اللہ کے نبی کی بات مانی۔باقی سب نافرمانوں کو اللہ نے اپنے پانی کے عذاب سے ختم کر دیا۔ پھر بھی انسان گناہ ہوں کی روش سے باز نہ آیا۔اپنے اعمال درست نہیں کیے۔ اللہ سے گناہ معاف کرنے کی دعائیں نہیں مانگیں ۔ بلکہ انسانوں سے درخواتیں کرتے رہے۔ تاریخ کا دھارا گزرتے گزرتے برصغیر تک آن پہنچا اور اسی پر مشہور شاعر اکبر الہ آبادی نے اپنے ایک شعر میں اس کفیت کا نقشہ یوں کھینچا ہے کہ:۔
مصیبت میں بھی یاد خدا آتی نہیں ان کو
دُعاء منہ سے نہ نکلی پاکٹوں سے عرضیاں نکلیں
قرآن شریف کی اور ایک آیات کا مفہوم ہے کہ بستیوں کے لوگ اللہ کے بندے بنتے تو اللہ ان کے لیے آسمان سے روزق برساتا اور زمین اپنے خزانے اُگلتی۔ایک دوسری آیات کا مفہوم ہے کہ مصیبت انسان کی اپنی کمائی کی وجہ سے آتی ہے۔ اللہ تو اپنے بندے پر مہربان ہے۔اگر ہم اس تشریع کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان میں ٨ اکتوبر ٢٠٠٥ء میں آنے والے زلزلے کی یاد تازہ کریں۔تو ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ پاکستان میں انسانوں نے انسانوں پر ظلم ستم کی انتہا کر دی۔ دبے ہوئے نچلے درجے کے لوگوںپر ظلم روا رکھا ۔ اگر باقی ساری نا انصافیوں کو اِس وقت ایک طرف رکھ کر بنیادی حقوق کی بات کریں تو غریب کے بچے کچرے کے ڈھروں سے رزق تلاش کر کرکے اپنے پیٹ کی آگ کو بجاتے ہیںاور اونچے درجے کے طبقوں کے کتے دودھ مکھن کھاتے ہیں۔
ان ہی حالات میں اللہ ہم سے ناخوش تھا کہ٨ اکتوبر کو آٹھ بج کر پچاس منٹ پر ملک کے شمالی علاقوں، جس میں کشمیر اور صوبہ خیبر پختون خواہ کے علاقے شامل تھے، ایک ہولناک زلزلے نے آناً فاناً صرف ٣٠ سیکنڈ میںایک لاکھ سے زائد جانوں کو موت کی وادی میں ڈال دیا۔آزاد کشمیر میں مظفرآبادہٹیاں بالا، باغ، راولاکوٹ،عباس پوراورخیبر پختون میں مانسیرہ،بٹ گرام ،بالاکوٹ اورا ہلائی کے علاقے تباہ ہوئے تھے۔زلزلے نے بالاکوٹ کے شہر کو تو مکمل طور پر الٹ پلٹ کر دیا۔مظفر آباد میں بھی کچھ اسی طرح کی کفیت تھی۔سارے علاقے کے گھر ، اسکول، ہوٹلز،بازار،ہسپتالیں،سڑکیں اور کھیت گلیان سب کچھ تباہ ہو گئے۔
ایک اچھی بات کہ غم اور دکھ کی اس گھڑی میں اللہ نے اپنے فضل و کرم سے ساری پاکستانی قوم کے اندر چھپے ہوئے ایک عنصر، یعنی اپنے بھائیوں کی مدد کا جذبہ باہر نکالا۔ خواجہ میر درد نے کیا خوب کہا ہے کہ:۔ درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
ساری قوم یک جا ن ہو کر اپنے دکھی بھائیوں کی مدد کے لیے آگے بڑی۔ ایسی محبت اور روادی رکھنے والی پاکستانی قوم کو، مشکل کی کوئی بھی گھڑی میں شکست نہیں دی جا سکتی۔ ساری قوم یک جان ہو کر اپنے دکھی بھائیوں کی مدد کے لیے کمر بستہ ہو گئی۔ پاکستان کے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا نے زلزلہ زد گان کی مد دکے لیے اپنی ٹرانسمشن وقف کر دیں۔دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کے ہر شہر سے ا مدادی سامان متاثرہ علاقوں میں پہنچنے لگا۔ پاکستان کے ہر شہر سے لوگ جائے وقوع تک پہنچنے لگے۔ زخمیوں کی مرہم پٹی اور مرنے والوں کی تدفین ہونے لگیں۔ملبے کے نیچے دبے ہوئے لوگوں کو باہر نکالنے کے لیے جلد ہی ہیوی مشینری بھی جائے وقوع پر پہنچ گئی۔ ملبے کے نیچے دھبے چیختے ہوئے لوگوں کو نکانے کی کاروائیاں ٹی وی اسکرینوں پر نظر آنے لگیں تو لوگ چیخ چیخ کر رُونے لگے۔ عام شہریوں کے ساتھ ساتھ حکومت نے بھی دل کھول کر مظلوں کی مدد کی۔ مسلمان ملکوں خاص کر ترکی اور سعودی عرب کی طرف سے امدادآنے لگی۔ دنیا کے تمام ملکوں نے بھی اپنی بین الاقوامی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے زلزلہ متاثرین کی بھر پور مدد کی۔ بین الاقوامی این جی اوئز نے بھی کھل کر زلزہ متا ثرین کی مدد کی۔ پورے ملک کی این جی اوئرز کے رضاکار کشمیر اور خیبر پختون خواہ کے علاقوں میں پہنچ گئے ۔ ان میں ڈاکڑوں کی تنظیموں نے بھی ان علاقوں میں ہنگامی ہسپتال قائم کیے جن میں شدید زخمیوں کو بچانے کے لیے کوششیں کیں۔جہاں جہاں گھر تباہ ہوئے وہاں پر این جی اوئز کے رضا کاروں نے ہنگامی طور پر لکڑی کے مکان بنا کر متاثرین کو دیے گئے۔ پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے درختوں کی لکڑی تو پہلے سے موجود تھی۔مگر اس کو کاٹ چھانٹ کر استعمال کرنے کی کوئی چیز نہیں تھی۔ درختوں کی لکڑی کو استعمال کرنے کے لیے این جی اوئز نے ہنگامی طور پر آرا مشینیں لگائیں تاکہ لکڑیاں کاٹ کر لکڑی کے مکانات بنا کر لوگوں کو سر چھپانے کی سہولت میسر آجائے۔گو کہ این جی اوئز اور بین الاقوامی امداد سے لوگوں کی دل جوئی تو ہوئی ۔ مگرمتاثرہ لوگوںکی حکومتوں سے شکایت اب بھی تک سننے کو ملتی رہتی ہیں۔ متاثرین کی مکمل آباد کاری ابھی تک نہیں ہوئی۔ موجودہ حکومت کو اس پر دھیان دینا چاییے۔
الحمد اللہ جماعت اسلامی کی الخدمت فائونڈیش جو پاکستان میں موجود این جی اوئز میں سب سے بڑی این جی او ہے۔اس کا فلاحی کام پورے پاکستان پھیلا ہواہے ۔ الخدمت فائوڈیشن نے تو برما کے مظلوموں کے لیے بنگلہ دیش کی سرحد پر مہاجرین کے کیمپوں میں ترکی اور ملائشیا کی این جی اوئز کے ساتھ مل کر امدادی سرگرمیاں کی تھیں۔ جماعت اسلامی کے سارے ممبران، الخدمت فائوڈیشن کے ہمہ وقتی رضاکار ہوتے ہیں ۔ اس موقعہ پر الخدمت فائوڈیشن کے شعبہ صحت اورجماعت اسلامی کی ڈاکٹروں کی ذیلی تنظیم، پیما ء کے ڈاکڑوںنے ایبٹ آباد اور مظفر آباد میں ہنگامی ہسپتال قائم کیے۔ جس میں ہزاروںمریضوں کی مستقل بنیاد پر علاج معالج کا انتظام کیا۔ کراچی سے جماعت کے سیکڑوں کارکنوں کی درجنوں ٹیمیں زلزلہ متاثرین کی مدد کے لیے علاقہ میں گئے تھے۔راقم نے بھی اُس وقت کراچی سے ایبٹ آباد بیس کیمپ اور اس کے بعد زلزلہ کے متاثرہ علاقوں ،بالا کوٹ،اہلائی اورشنکیاری کے متاثرہ علاقوں کا مشاہدتی دورا کرنے والے ڈلیگیشن ،جس کی سربرائی الخدمت فاونڈیشن کے صدر ،سابق سٹی ناظم کراچی جناب نعمت اللہ خان ایڈوکیٹ نے کی تھی، میں شامل تھا۔
صاحبو! الحمد اللہ ہم مسلمان ہیں۔ قدرتی آفات سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم پاکستانی قوم اجتماہی طور پر اپنے گناہ ئوں کی معافی اپنے اللہ سے مانگیں۔ آئندہ گناہ ہوں سے بچنے کا اللہ سے وعدہ کریں۔ اللہ زندہ جاوید ہستی ہے۔ ہمارے اعمال سے واقف ہے۔ اللہ ہمیشہ اپنے گناہ گار بندوں کو معاف کردیتا ہے۔ اللہ ہمیں بھی معاف کر دے گا اور قدرتی آفات سے محفوظ رکھے گا۔انشاہ اللہ۔ آج اس زلزلہ کو ١٣ سال گزر چکے ہیں۔ اللہ نے ہمیں اُن کا غم یاد رکھنے کی توفیق عطا فرمائی۔ اللہ سے دعاء کہ اللہ ٨ اکتوبر ٢٠٠٥ء کے زلزلے کے متاثرین کی مصیبتیں ختم کر دے۔ آمین۔