تحریر: سید انور محمود عام طور پر کہا جاتا ہے کہ پاکستان توڑنے کےلیے ذوالفقار علی بھٹو نے “اودہرتم، ادہر ہم” کا نعرہ لگایا تھا۔ ہاں یہ سچ ہے کہ بھٹو نے ایسا ہی کہا تھا، لیکن بھٹو مخالف اس بات کو جسطرح بتاتے ہیں ، اُسے آپ سیاسی منافقت بھی کہہ سکتے ہیں۔ “اودھر تم، ادھر ہم” بغیر سیاق وسباق کےایک پروپگنڈا تو ہوسکتا ہے مگر حقیقت نہیں، حقیقت یہ ہے کہ دسمبر 1970ء میں جب پاکستان کے عام انتخابات ہوئے تو شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے 162 امیدوار کھڑے کیے، جن میں سے 160 کامیاب ہوئے، یہ ایک ناقابل یقین نتیجہ تھا۔ عوامی لیگ نے مغربی پاکستان سے ایک بھی سیٹ نہیں جیتی تھی جبکہ بھٹو کی پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان میں 81 سیٹیں جیت کر مغربی پاکستان میں اکثریت حاصل کی تھی مگر مشرقی پاکستان سے اُنکی بھی کوئی نمائیدگی نہیں تھی۔ اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے نے فروری 1971ء کو لاہور کہ ایک جلسہ عام میں بھٹو نے شیخ مجیب الرحمن کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ مغربی پاکستان سے تمارا کوئی نمایندہ نہیں اور مشرقی پاکستان سے ہمارا کوئی نمایندہ نہیں لہذا “اودہرتم، ادہر ہم” نمایندہ ہیں۔
ویسے ایک بات عرض کرتا چلوں کہ سقوطِ ڈھاکہ محض بھٹو یا یحیی خان کی وجہ سے نہیں ہوا یہ توبیچ میں آگےورنہ اس کے پیچھے چوبیس سالہ بھارتی سازش تھی، جسکا ذکر بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے کچھ عرصے قبل بنگلہ دیش کے دورے کے دوران کیا تھا اور اپنی دہشتگردی کا برملااظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ “بنگلہ دیش کا قیام ہر بھارتی کی خواہش تھی اوربھارتی فوج مکتی باہنی کے ساتھ مل کرلڑی تب ہی بنگلہ دیش کو آزادی نصیب ہوئی”۔ سابقہ مشرقی پاکستان اور حالیہ بنگلہ دیش میں آج بھی پچیس فیصد سے زیادہ آبادی ہندوں کی ہے ان ہندوں میں سے اکثریت آج بھی ہندوستان کی وفادار ہے، پاکستان بننے کے بعد مشرقی پاکستان میں یہ پروپگنڈا عام تھاکہ مغربی پاکستان اُن کو لوٹ رہا ہے، اتفاق سے تھوڑے عرصے بعد ہی پاکستان کے سیاسی حالات بھی اچھے نہ رہے اور ہندوستان کو اپنا کھیل کھیلنے کا پورا موقعہ ملتا رہا۔
Ayub Khan
ایوب خان نے 1960ء میں اعظم خان کو مشرقی پاکستان کا گورنر بنایا، جنرل اعظم خان نے وہاں حالات کو اسقدر اچھا کردیا کہ عام لوگ اعظم خان کو پسند کرنے لگے۔ خوشامدیوں نے اعظم خان کے خلاف ایوب خان کے کان بھرے، ایوب خان اعظم خان کی شہرت کو اپنے لیے خطرہ سمجھنے لگا، اس لیے مئی 1962ء میں اعظم خان کو واپس مغربی پاکستان بُلا لیا۔ ایوب خان نے غلام فاروق کو تھوڑے عرصے گورنر بنانے کے بعد عبدالمنعم خان کو اکتوبر 1962ء میں مشرقی پاکستان کا گورنر بنایا۔عبدالمنعم خان 23 مارچ 1969ء تک مشرقی پاکستان کا گورنر رہا۔گورنرعبدالمنعم خان جو خود بنگالی تھا مگر اُسکے ظلم کی داستان آج بھی بنگالیوں کو یاد ہے۔ ایوب خان کو نہ مشرقی پاکستان میں ہونے والی بھارتی سازشوں کا احساس تھا اور نہ ہی بدلتے ہوئے سیاسی حالات کا اور یہ ہی وجہ ہے کہ مشرقی پاکستان میں 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد بھارت نے مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کے زریعے مشرقی پاکستان کو علیدہ کرنے کی سازشیں تیز کردیں۔
شیخ مجیب الرحمٰن 1947ء میں پاکستان بننے کے فوراً بعد مسلم لیگ سے مستعفی ہو کر پاکستان مسلم اسٹوڈنٹس لیگ قائم کر کے اردو کی مخالفت کرنا شروع کردی جس سے صاف ظاہر تھا کہ شیخ مجیب شروع ہی سے مسلم قومیت کے بجائے بنگالی قومیت کا علمبردار تھا اور اس نے مسلم لیگ کے بہت سے دوسرے رہنماؤں کی طرح مسلم لیگ کا ساتھ محض اس لیے دیا کہ وہ اس زمانے میں مقبول تحریک تھی۔ اور اس میں شامل ہو کر اقتدار حاصل کیا جا سکتا تھا۔ 1952ء میں جب حسین شہید سہروردی نے عوامی لیگ قائم کی تو شیخ مجیب الرحمن نے اُس کی تشکیل میں حصہ لیا۔ 1956ء میں آئین کی تیاری میں بھی اُس نے حصہ لیا لیکن اس آئین میں صوبائی خود مختاری کی جو حدود مقرر کی گئی تھیں شیخ مجیب الرحمن اس سے متفق نہیں تھے۔ شیخ مجیب الرحمن نے 1966ء میں پہلی مرتبہ نیشنل کانفرنس لاہور کے اجلاس میں چھ نکات پیش کیے۔ شیخ مجیب کے چھ نکات یہ تھے ۔
Lahore Resolution
۔1۔ قرار داد لاہور کی روح کے مطابق آئین سازی کی جائے۔
۔2۔ وفاق کے پاس صرف دفاع اور خارجہ امورکے محکمے ہوں باقی معاملات وفاقی اکائیوں کے سپرد کئے جائیں۔
۔3۔ جداگانہ مالی پالیسی اختیار کی جائے اور مشرقی پاکستان کی کرنسی الگ ہو
۔4۔ وفاق کو ٹیکس لگانے اور آمدن جمع کرنیکااختیار نہیں ہوناچاہیے۔
۔5۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کے تجارتی حسابات علیحدہ علیحدہ ہوں۔
۔6۔ مشرقی پاکستان کو اپنے نیم فوجی دستے رکھنے کا مکمل اختیار ہوناچاہیے۔
شیخ مجیب الرحمن نے 1970ء کے عام انتخابات کے بعد پاکستان کا نیا آئین چھ نکات کی بنیاد پر بنانے کا اعلان کیا، چھ نکات کا مطلب پاکستان کے چھ ٹکڑے کرنا تھا اور جب یحییٰ خان نے دستور ساز اسمبلی کا اجلاس طلب نہیں کیا جو یحیی ٰ کی بہت بڑی غلطی تھی تو مارچ 1971ء میں شیخ مجیب الرحمن نے عدم تعاون کی تحریک شروع کر دی۔ جس کی وجہ سے 25 مارچ 1971ء کو فوج نے شیخ مجیب الرحمن کو گرفتار کر لیا اور مشرقی پاکستان میں 26 مارچ 1971ء سے فوجی کارروائی شروع کر دی۔ اس موقعہ پر بھارت نے اپنی سرحد کھول دیں اور ہزاروں بنگالیوں کو اپنے ہاں پناہ دیکر مکتی باہنی کے نام سے اپنے تربیت یافتہ گوریلا گروہ اور تربیت یافتہ فوجیوں کے زریعے عسکری کاروائیاں شروع کیں اور افواج اور وفاق پاکستان کے وفادار عناصر کا قتل عام کیا۔ مارچ 1970ء سے لے کے سقوط ڈھاکہ تک تمام عرصے میں بھارت بھرپور انداز میں مکتی باہنی اور دیگر گروہوں کو عسکری، مالی اور سفارتی مدد فراہم کرتا رہا۔
Dhaka-Fall
چودہ ستمبر 1971ء کو بھارت کھل کر سامنے آیا اور اس نے پاکستان پر حملہ کر دیا۔ بالآخر دسمبر میں مشرقی پاکستان کی حدود میں گھس کر اس نے 16 دسمبر 1971ء کو ڈھاکہ میں افواج پاکستان کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا۔سانحہ مشرقی پاکستان کے ایک کردارسابق بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے کہا تھا آج دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈوب گیا۔ دہلی میں ہندوں نے ایک ایک مسلمان کو پکٹر پکڑ ان کے منہ میں مٹھائی دی، اس مٹھای کو کھانے والے یہ ہی کہہ رہے تھے گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔ یہ ایک بین القوامی سازش تھی مگر یہ سازش اس وجہ سے کامیاب ہوئی کہ بدقسمتی سے ہمار ئے حکمران اقتدار کی سازشوں میں مصروف رہے۔ یہ ایسا دردناک واقعہ ہے کہ جس قدر اسکے بارے میں سوچو اتنی ہی تکلیف ہوتی ہے۔ مگرافسوس اس بات کا ہے کہ ہمار ئے حکمرانوں نے مادر وطن کے دو ٹکڑے ہوجانے والے اس سانحے سے آج بھی کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔
بنگلہ دیش بننے سے پہلے ہی بھارت بنگلہ دیش کو تسلیم کرچکا تھا جس کی وجہ سے پاکستان نے بھارت سے سفارتی تعلقات توڑ لیے تھے۔ پاکستان نے بنگلہ دیش کو فروری 1974ء کی اسلامی سربراہ کانفرنس سے صرف دو یا تین دن پہلے تسلیم کیا تھا اور اس وقت تک کافی ممالک بنگلہ دیش کو تسلیم کرچکے تھے جن میں ایک خاصی تعداد اسلامی ممالک کی بھی تھی۔ آج پاکستان کے حوالے سے انتہا درجے کا منفی پروپگنڈا پورے بنگلا دیش کے وجود میں خون کی طرح گردش کررہا ہے۔ اگر یہ سمجھ کر چپ سادھ لی جائے کہ الزام فلاں پہ لگ رہا ہے تو وہی بھگتے’ ایسا بے رخی پر مبنی رویہ اختیار کرنا کم ازکم تحقیقی اداروں کے شایان شان نہیں ہوسکتا۔ پاکستان کے تحقیقی اداروں اور یونیورسٹیوں کو پاکستان توڑنے، پاکستانیوں کو مارنے اور پاکستان کو بدترین الزامات کا نشانہ بنانے والے اقدامات کا معروضی اور تحقیقی انداز سے جائزہ لینا چاہیے۔
آخر میں عرض ہے کہ پاکستان نے مشرقی پاکستان کو علیدہ نہیں کیا وہ خود علیدہ ہوئے تھے اور یقین کریں وہ آج بھی پاکستان سے زیادہ ہندوستان کے قریب ہیں، اس بات کا واضع ثبوت شیخ مجیب الرحمان کی بیٹی حسینہ واجد ہے جواس وقت بنگلہ دیش کی وزیراعظم ہے اور اپنے باپ سے زیادہ بھارت کی وفادار ہے، حسینہ واجد پاکستان سے اپنی نفرت کا کھلے عام اظہار کرتی ہے۔ پندرہ اگست جو بھارت کی آزادی کا دن ہے، پندرہ اگست 1975ءکوشیخ مجیب الرحمان اپنی دو بیٹیوں ریحانہ اورحسینہ کے علاوہ اپنےپورے خاندان کے ساتھ اپنے ہی فوجیوں کے ہاتھوں مارےگے تھے۔