پاکستان کی معاشی ترقی میں بھارتی مداخلت

Pak-China Friendship

Pak-China Friendship

تحریر: آصف خورشید رانا
جغرافیائی حیثیت سے جہاں پاکستان کو بہت منفرد مقام حاصل ہے وہاں بہت سے مسائل کا سامنا بھی ہے ظاہر ہے کہ اس جغرافیائی حیثیت کو تبدیل بھی نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کو ایک طرف جہاں چین جیسا ہمسایہ ملا جس کے ساتھ دوستی کا رشتہ غیر مشروط اور لازوال ہے وہاں بھارت جیسا کینہ پرور ملک بھی ہے جس کے ساتھ تعلقات اور دوستی کا ہر باب شروع ہونے سے پہلے ہی اس کی عیاری و مکاری اور کینہ پروری کا شکار ہو جاتا ہے۔

ابھی پاک چائنہ تعلقات کا ایک نیا باب شروع ہی ہوا تھا جس میں پاک چین اقتصادی راہداری کے ایسے منصوبے پر کام کا آغاز کیا گیا جس کے ذریعے نہ صرف چین کو وسط ایشیا تک رسائی حاصل ہو جاتی وہاں پاکستان کی معیشت بھی ترقی کی نئی منازل طے کرتی لیکن اس کے اعلان کے ساتھ ہی بھارت نے اپنے روائتی انداز سے اس منصوبے کو ناکام کرنے کے لیے مختلف جہتوں سے حملے شروع کر دیئے ۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ گوادر چین کے حوالے کرنے سے نہ صرف بھارت پریشان ہے بلکہ امریکہ بھی اپنے تحفظات کا اظہار کر چکا ہے تاہم اس بات کا امکان بہت کم تھا کہ بھارت اس معاملے پر اپنی خفیہ ایجنسیوں کو اتنا متحرک کر دے گا ۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک نہایت اہم اخبار اور ایک کہنہ مشق صحافی صالح ظافر کی خبرسے اندازہ ہو تا ہے کہ بھارت کسی طرح بھی پاکستان کی اقتصادی ترقی کی راہ پر نہیں دیکھنا چاہتا ۔معروف اخبار کی خبر میں کہا گیا ہے کہ”بھارتی انٹیلی جنس ادارے ”را”نے پاک چین اقتصادی راہداری کو ناکام بنانے کے لیے الگ سے ڈیسک بنا دیا ہے بھارت ادارے کے چیف لودھی کھنہ براہ راست اس ڈیسک کی نگرانی کر رہے ہیں اور اس کی رپورٹ بھی براہ راست وزیر اعظم کو دیں گے۔” انہوں نے دعوٰ ی کیا ہے کہ بنگلہ دیش کی تخلیق کے بعد یہ سب سے برا آپریشن ہے جو ”را”کو سونپا گیا ہے۔

 Pakistan and India

Pakistan and India

پاکستان کے سب سے بڑے خفیہ ادارے کے مطابق اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے ابتدائی طور پر 30کروڑ ڈالر کی رقم مختص کی گئی ہے ۔یہ کوئی پہلا منصوبہ نہیں جو پاکستان کے خلاف ترتیب دیا گیا ہے تاہم یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ اس طرح کے مںصوبے ایسے وقت میں منظر عام پر سامنے آ رہے ہیں جب پاکستان کی حکومت یکطرفہ طور پر بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہے ۔اس سے قبل پاکستان میں تخریبی اور دہشت گردی کی کاروائیوں میں بھی بھارتی خفیہ ایجنسیاں کے ملوث ہونے کی اطلاعات موجود ہیں جبکہ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کے ساتھ تعلقات بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں جس پر پاکستان کے وزیراعظم او ر وزیر خارجہ دونوں کہہ چکے ہیں کہ اس کے ناقابل تردید ثبوت ہیں جو امریکہ اوربھارت دونوں کو فراہم کیے گئے ہیں ۔ البتہ پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ پاکستان کی عسکری قیادت نے بھی کھل کر بھارتی ایجنسی را کے ملوث ہونے کا اعتراف کیا۔

اس میں تو کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریک اور پاکستان کے شمالی علاقوں میں دہشت گردوں کو افغانستان کی سرزمین سے بھارت مکمل طور پر تعاون فراہم کر رہا ہے جس کے ثبوت بھی دئے جا چکے ہیں تاہم اس کے ساتھ ساتھ بھارت پاکستان کو معاشی طور پر بھی کھوکھلا کرنے کے لیے اپنی خفیہ ایجنسی ”را” کے کروڑوں ڈالرز خرچ کر رہا ۔ کالا باغ ڈیم پاکستان کی معیشت میں نہایت اہم کردار ادا کر سکتا ہے ملک میں پانی کے ذخائر کا مسلسل کم ہونا اور توانائی کے بڑھتے بحران میں اس کی کمی شدت سے محسوس ہو رہی تاہم بدقسمتی سے اسے تنازعات کا شکار کر دیا گیااور مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس کی شدید مخالفت کی جا رہی ہے حالانکہ اس کی تعمیرسے پاکستان نہ صرف پانی کی کمی کو پورا کر سکتا ہے بلکہ توانائی کے بحران پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے اور عوام کو سستی بجلی فراہم کی جا سکتی ہے کالا باغ ڈیم کی فزیبلیٹی رپورٹ پر لاکھوں روپے خرچ ہو چکے ہیں اور تکنیکی طور پر بھی اس ڈیم کو پاکستان کے لیے ناگزیر قرار دیا جا چکا ہے تاہم کچھ لوگوں نے اس پر واویلا شروع کر دیا اور آج یہ ڈیم صرف سیاستدانوں کی انا کا شکار ہو چکا ہے ۔کچھ سیاستدانوں نے دعوٰ ی کیا کہ اس کی تعمیر سے نوشہرہ ڈوب جائے گا تاہم دنیا نے دیکھا کہ اس کی تعمیر کے بغیر ہی سیلاب آیا تو نوشہرہ ڈوب گیا اور اگر یہ ڈیم تعمیر ہو چکا ہوتا تو نوشہرہ بچ سکتا تھا ۔اس مسئلہ کو سیاسی رنگ دینا تو اپنی جگہ لیکن بھارت بھی اس ڈیم کی تعمیر پر خوش نہیں ہے کیونکہ اس کی تعمیر سے پاکستان نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ دنیا میں معاشی طور پر ایک مضبوط ملک کی حیثیت سے کھڑا ہو سکتا ہے بھارت جو پہلے ہی جنوبی ایشاء میں بالا دستی کی خواب دیکھ رہا ہے اور پاکستان کو اپنا حریف سمجھتا ہے وہ یہ برداشت نہیں کر سکتا چنانچہ ”را ”کو یہ مشن دیا گیا کہ وہ پاکستان میں کالا باغ ڈیم کی مخالفت کے لیے راہ ہموار کرے چنانچہ ”را” نے اس پر کام کا آغاز کیا اور اسمبلی کے فلور پر یہ بات کہی جا چکی ہے کہ بھارت کالا باغ ڈیم کی مخالفت میں سالانہ 12ارب ڈالر خرچ کر رہا ہے۔یہی نہیں بلکہ جنوبی پنجاب میں بھی ”را” کی جانب سے سرمایہ کاری کا انکشاف ہو چکا ہے۔

RAW

RAW

کالا باغ ڈیم کے بعد اب پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے ”را” نے اقدامات کرنے شروع کر دئے ہیں۔ایک طرف اس کی مخالفت کے لیے صوبوں کومیں مخصوص افراد کو کھڑا کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف گوادر کو ناکام بنانے کے لیے ایران کی بندر گاہ چاہ بہار پرکو بھی آپریشنل کرنے کے لیے منصوبہ بندی کی جا رہی ہے ۔رواں ماہ کے آغاز میں بھارت اور ایران کے درمیان مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہو چکے ہیں جس کے تحت بھارت چاہ بہار کو کارگو ٹرمینل کے طور پر استعمال کرسکے گا ۔ اس بندرگاہ کے ذریعے بھارت کو افغانستان اور وہاں سے وسط ایشیاء کی ریاستوں تک رسائی حاصل ہو جائے گی ۔2009میں زرناج۔ دلارام سڑک کے ذریعے اس بندرگاہ کو افغانستان سے جوڑ دیا گیا تھا ۔ابتدائی طور پر یہ منصوبہ 2003میں ایرانی صدر خاتمی اور بھارت وزیر اعظم واجپائی کے درمیان طے پایا تھا لیکن ایران پر اقوام متحدہ کی پابندیوں کی وجہ سے اس پر عملدرآمد نہ ہو سکا تاہم پاک چین اقتصادی راہداری کی خبروں کے منظر عام پر آتے ہی بھارت نے اس منصوبے پر بلا تاخیر کام کا آغاذ کر دیا اور گزشتہ سال اکتوبر میں اس کے لیے 85ملین ڈالر بجٹ بھی مختص کر دیا ۔یہی نہیں بلکہ بھارت کے لیے پریشانی کی ایک اور وجہ بھی ہے کہ ایران اپنی گیس اور آئل کے لیے چین کی طرف دیکھ رہا ہے اورگزشتہ ماہ ایرانی وزیر پٹرولیم چین کا دورہ کر چکے ہیں جہاں چین کے ساتھ ایرانی آئل اور گیس کی برآمد ات کے منصوبوں پر تفصیلی تبادلہ خیالات ہو ا ۔اگر چین ایران کا آپس میں کوئی معاہدہ ہو جائے تو یقینا ایران پاکستان پائپ لائن منصوبہ جو التواء کا شکار ہے اس کے ذریعے چین تک اپنی پائپ لائن پہنچائے گا کیونکہ یہی راستہ اس کے لیے مختصر اور یکم خرچ ہو گا ۔یہی وجہ ہے کہ بھارت اس ایران پاکستان انڈیا پائپ لائن کے منصوبے میں تاخری حربے استعما ل کر رہا اگرچہ یہ بھی واضح ہو رہا ہے کہ بھارت اس منصوبے میں شامل نہیں ہو گا تاہم اس کی کوشش ہے کہ اس منصوبے کو التواء میں رکھا جائے۔

بھارت پاکستان کی جانب سے پسندیدہ ملک کا درجہ حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے حالانکہ اس پر بھی وہ اچھی خاصی رقم کرچ کرچکا ہے تاکہ وہ مختلف جماعتوںاور بالخصوص بعض لبرل طبقوں کی حمایت حاصل کر چکے کیونکہ پاکستان میں لبرل طبقہ خاصا فعال کردار ادا کر رہا ہے ۔تاہم اس معاملہ میں شنید ہے کہ پاکستان نے بھارت کو پسندیدہ ملک کا درجہ نہ دینے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے کیونکہ اس میں تجارت کا پلڑا بھارت کی طرف چلا جائے گا اور معاشی طور پر پاکستان کی مصنوعات کو نقصان پہنچے گا ۔ حکومت پاکستان کی جانب سے یہ فیصلہ قابل تحسین ہے کیونکہ بھارت اس کے ذریعے پاکستان کو معاشی طور پر ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا تھا اور پاکستان کی زرعی انڈسٹری ، فارماسیوٹیکلز اور دیگر شعبہ جات تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتے ۔حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ پاک چین اقتصادی راہداری میں کسی قسم کی کوتاہی نہ برتے اور جتنی جلدی ممکن ہو تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر اس کا آغاز کر دے تاہم قوموں کی تاریخ میںکچھ فیصلے یقینا مشکل ہوتے ہیں اس لیے اگر کچھ رکاوٹیں موجود بھی ہوں تو بھی منصوبے پر عملدرآمد کرنا پاکستان کی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔
لکھاری نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں ایم فل (عالمی تعلقات) کے طالب علم ہیں۔

Asif Khurshid

Asif Khurshid

تحریر: آصف خورشید رانا : اسلام آباد