ملکی معیشت اس وقت اپنے تباہ کن حال کو چھو رہی ہے ، قریب ہے کہ اگر سہارا نہ دیا گیا تو ملک دیوالیہ ہو جائے۔ عالمی مالیاتی ادارے کسی بھی طور اب پاکستان کو مزید قرض دینے کے حق میں نہیں ہیں۔ پاکستان کے عسکری اور سیاسی ونگ ایک سٹیج پر متحد ہو گئے ہیں جو ملک کے امن و امان اور استحکام کیلئے خوش آئند بات ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ پہلے تین ماہ کسی بھی ملک کا دورہ نہیں کریں گے لیکن انہوں نے معاشی چیلنجز کے پیش نظر سب سے پہلا دورہ سعودی عرب کا کیاہے جہاں انہوں دس ارب ڈالر کی خطیر رقم کے معاہدے کئے ہیں۔یو اے ای سے پانی کا معاہدہ کیا گیا ہے۔ شاید یہ کراچی کیلئے صرف یا پھر ملک بھر کیلئے کچھ دنوں تک سامنے آ جائے گا۔ اس کے علاوہ دبئی میں امید ہے کہ شاہ محمود قریشی نے کرپٹ لوگوں کو پکڑنے والا معاہدہ کر لیا ہے مگر ابھی منظر عام پر نہیں آیا۔سابق چیف جسٹس کے بیٹے کی وہاں سے گرفتاری اسی کی ایک کڑی لگتی ہے۔سعودی عرب گوادر آئل سٹی بنانے کا خواہاں بھی ہے جس کا مطلب دو ارب ڈالر کے ذخائر دینے کیلئے تیار ہے۔عنقریب سعودی شاہ فرمان پاکستان کا دورہ کریں گے جس میں بہت اہم معاہدے اور فیصلے ہونے متوقع ہیں۔ اسی طرح کی امید عمران خان چین سے بھی رکھتے ہیں کیونکہ وہ اس بار سودی قرضہ جات اور عالمی مالیاتی اداروں کی زد سے باہر نکلنا چاہتے ہیں ، اس وقت انہیں کے بیان کے مطابق پاکستان روزانہ چھ ارب روپے کل قرضوں پر سود ادا کر رہا ہے ۔ سود ایک لعنت ہے اور اللہ اور اس کے رسولۖ کے خلاف کھلا اعلانِ جنگ۔ جو لوگ اللہ کا خوف دل میں رکھتے ہیں ان کی مدد اللہ تعالیٰ خود غیب سے فرماتے ہیں۔
جو لوگ پاکستان کی معاشی حالت کو دیکھتے ہوئے معیشت کا علم رکھتے ہیں وہ تو سمجھنے کی کوشش کریں گے لیکن عام آدمی یہی سمجھے گا کہ حالیہ منی بجٹ مہنگائی کے سوا کچھ نہیں لایا ۔ تبدیلی یہ ہے کہ پہلے سے زیادہ مہنگائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لیکن ذرا رکئے ! ترکی اور ایران اس وقت پاکستان کو قرضہ دینے کی حالت میں نہیں ہیں ہاں البتہ سعودی عرب نے دس ارب ڈالر کے معاہدے کئے ہیں جس سے پاکستان کا حالیہ مالی سال میں معاشی پہیہ چلنے میں کچھ مدد ملے گی۔اس فیصلے سے کہیں کہیں اقدامات اپوزیشن کے مؤقف کو مضبوط کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ سب جانتے ہیں کہ لندن اور دبئی میں کن لوگوں نے سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور منی لانڈرنگ کے کیس کن کے خلاف چل رہے ہیں ، پھر واشنگٹن اور لندن بھی پاکستان کا ساتھ نہیں دے رہا ۔ حال ہی میں لندن نے اسحٰق ڈار کو ڈی پورٹ کرنے کی پاکستانی پٹیشن مسترد کر دی تھی اور برطانیہ میں چھپے ملک دشمن بھی پاکستان کو نہیں سونپے جا رہے ۔ وہ یقین دہانی تو کرواتے ہیں مگر ساتھ پاکستان مخالف لابی کو ہر حد تک تعاون بھی مہیا کرتے ہیں ۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عمران خان کی کابینہ میں دودھ کے دھلے لوگ نہیں ہیں ، عمران خان سب سے پہلے احتساب اپنے گھر سے شروع کرے تاکہ مستقبل میں اسے اپنی سیاسی ساکھ بچانے کیلئے دلائل مل سکیں ۔
ملک سے باہر جو لوگ پیسہ کما کر پاکستان بھیجتے ہیں ان کیلئے آسانیاں پیدا کریں تاکہ زرمبادلہ میں اضافہ ہو سکے ۔ کیونکہ جو پیسہ باہر سے لوگ کما کر پاکستان بھیجتے ہیں اسی پرہماری معیشت کا دار و مدار ہے۔اس کے بعد عمران خان نے پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا دعویٰ کیا تھا تو انہیں اسی پر کام کرنا چاہئے۔ معاملات حکومت کو چلانے کیلئے مکمل حل اگر کہیں مل سکتا ہے تو وہ قرآن و حدیث کی روشنی میں ہے۔ عمران خان ملک میں جزیہ ، عشر اور زکوٰة کے پاکستانی آئین کو ہر ممکن لاگو کروائیں میں یقین دہانی کرواتا ہوں کہ پاکستان کو کسی بھی معاشی یا اقتصادی مسئلے کیلئے کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلانے پڑیں گے۔ عمران خان خود کہتے ہیں کہ اللہ کہتا ہے جو آپ کی ضرورت کا ہے وہ رکھو باقی سب بانٹ دو، تو خان صاحب آپ سے گزار ش ہے کہ اپنے پارٹی کے تمام ایم این ایز اور ایم پی ایز سمیت دیگر صاحب استطاعت سے کہیں کہ وہ اپنی آمدنی میں سے صرف اپنی ضرورت کا رکھیں اور باقی ملک کیلئے وقف کریں ملک کو اس وقت معاشی استحکام کی اشد ضرورت ہے۔
جب احتساب سب کیلئے ہے تو پاک فوج بھی اپنا ایک احتسابی ادارہ بنائے اور احتساب سے ملک و ملت کو پیغام پہنچائے کیونکہ پاکستانی قوم اپنی افواج سے بہت زیادہ محبت کرتی ہے جب یہ کام وہاں ہو گا تو نچلی سطح تک خود ہی چلتا آئے گا۔ جن چھوٹے اضلاع کے وسط میں سرکاری عمارتیں مسئلاََ کچہری ، ڈی سی آفس ، ججز کالونیاں ، ضلع کونسل ہال وغیرہ ہیں ان کو کمرشل بنا کر وہاں سے ریوینیو اکٹھا کیا جائے اور ان چھوٹے شہروں کو پھیلا کر ان کے وسائل میں اضافہ کیا جائے۔ زرعی زمینوں کے ٹینڈر کوڑیوں کے بھائو بکتے ہیں ، ان کی نیلامی مقامی قیمتوں پر کی جائے ۔ عمران خان سے التماس ہے کہ احتساب اور وقف کرنے کا کام سب سے پہلے آپ خود سے اور صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی سے شروع کریں۔
جب ایک شخص پانچ مرلے کے مکان میں رہ سکتا ہے تو اسے سینکڑوں کینالوں کے محلات کی کیا ضرورت ہے؟ قبر میں تو کچھ نہیں جانا ساتھ !! ریکوڈک منصوبے کو جلد از جلد اختتام پذیر کیا جائے اور اس سے حاصل ہونے والی معدنیات سے فائدہ اٹھایا جائے۔ ادارے جو ایک دوسرے کے مقروض ہیں اور کرپشن کی وجہ سے گھاٹے میں چلے گئے ان کی نادہندگی کی ادائیگی یقینی بنائیں ، عوام کو ریلیف دیں گے تو آپ سکون سے حکومت کر سکتے ہیں ۔سیاحت کو ہر ممکن فروغ دیں اور میڈیا کو خبروں میں سنسنی پھیلانے اور قبروں کے سائزوں سے لے کر باتھ ٹب بتانے کی بجائے پاکستان میں موجود سیاحی مقامات کی ڈاکومینٹریاں چلانے کیلئے کہا جائے، اور تمام نجی ٹی وی چینلز سے ماہانہ جو اربوں کے اشتہار چلتے ہیں پر ٹیکس وصول کیا جائے۔ زکوٰة عشر اور جزیہ کو نافذ کرنے سے ہی بہت حد تک مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔