تحریر: عرفانہ ملک ویسے تو پاکستان کو جس طرح لٹیروں نے مالی لحاظ سے قلاش کردیا ہے اس طرح قوم کو دین سے دور کرکے مذہبی اور اخلاقی طور پر بھی قلاش کردیا ہے۔ اخلاق اور کردار کے ماخذ تو قرآن و سنت ہیں جن کی تعلیمات سے قوم کے علمی اثاثوں کو بھی لوٹ لیا گیا ہے۔ سرور عالمین ۖ کا فرمانِ عالیشان کہ طلب العلم فریض علی کل مسلم اور یہ فرمان کہ اطلبوا العلم من المھد الی الحد کہ علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان (مردوزن سبھی شامل) پر فرض ہے اور علم حاصل کروماں کی گود سے قبر کی گود تک۔ قوم کو اس کے نظریات اور امنگوں کے مطابق سلیبس ہی نہیں دیا گیا۔ پھر تعلیمی ادارے تو اب فحاشی کے ادارے بن گئے جہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ثقافت مسلم کو تار تار کرتے ہیں۔ یہ اخلاق اور نظریات باختہ کرتوت نجی تعلیمی اداروں میں زیادہ منظرعام پر آرہے ہیں۔ اس کی مخالفت پر ایک طالب علم کو ایک یونیورسٹی سے نکالدیا گیا۔ کہ وہ انکی عیاشی کا مزہ کرکرہ کر رہاتھا۔ یہ سبھی کچھ حکمران جماعت کے چہتے کررہے ہیں۔ حکمران تو چاہتے ہیں کہ قوم بدکاری میں لگ جائے انکا کام لوٹ ماراور آسان ہوجائے۔240بچوں کو جنسی تشدد کے نشانے بنانے والے حکومتی رکن اسمبلی کو کیا سزا ملی؟ یہ موضوع بہت وسیع ہے۔
عورت کا تعارف، عورت کی عظمت، عورت کے حقوق، عورت کے فرائض، عورت کے قرآن وسنت میں موجود حدود قیود، مسلم خواتین کا تشخص وغیرہ وغیرہ جو اس محدود سے صفحہ پر ضبط تحریر میں لانا میرے بس میں نہیں۔ لیکن آئے دن بد سے بدترین حادثات کا ظہوردل کو بے چین کردیتا ہے کہ کچھ تو کیا جائے ۔ اگرچہ میرے پاس ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہیں لیکن آخری سے پہلا درجہ زبان یا تحریر سے روکنے کا اختیار تو مجھے ہے۔ جس کا اظہار برملا کروں گا۔ کہ غلاظت اس قدر پھیل چکی ہے کہ گھر گھر اسکے تعفن سے محفوظ نہیں۔ فحاشی اور بدکاری کو مسلم معاشرے میں پھیلادیا گیا ہے۔ تقوی نام کی چیز نظر نہیں آتی۔ عورت اور مال یہ دو فتنے ہیں جنہوں نے ہمارے معاشرے کے خدوخال تک تبدیل کردیئے ہیں۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میرے جیسے اور مجھ سے زیادہ درد رکھنے والے لوگ بھی موجود ہیں۔ ابھی اس خاکستر میں چنگاریاں موجود ہیں اگرچہ کہ حکمرانوں اور سیاستدانو، بیوروکریٹس نے صلیبیوں اور یہودیوں کی فحاشی پھیلا ئومہم بڑی کامیابی سے چلا رکھی ہے لیکن اہل ایمان و تقوی کے سامنے انشا اللہ وہ تنکوں کی مانند بہہ جائیں گے۔اور بہت جلد مسلم معاشرہ قائم ہوجائے گا۔ اب میں چند ان خباثتو ں کا ذکر کردوں کہ جن کی بنا پر جوانی میں قدم رکھتے ہی دوشیزائیں اپنے انجام ِ بد کو پہنچ گئیں۔ ۔الیکٹرانک میڈیاکا منفی کردارخباثتوں کی تشہیر کا علمبردار ہے۔ مصنوعات کے اشتہارات کے بہانے انتہائی فحش حرکات دکھائی جاتی ہیں۔ کہ ذرا سی غیرت رکھنے والے باپ اور بھائی اپنے محرم رشتو ں کے ساتھ خبریں بھی نہیں سن سکتے۔
Murder
دیگر ڈرامے اور عبرت ناک قسم کے شو کہ جن میں فحاشی سرعام دکھائی جاتی ہے۔ حکومتی ادارے مثلا پیمرا بھی کوئی غیرت باختہ ادارہ ہے جو ان خباثتوں کا نوٹس نہیں۔ لیتا۔۔ تعلیمی ادارے اور نصاب تعلیمی مذہب اور اخلاقیات سے یکسر خالی ہیں۔سرکاری سکولوں کی حد تک طلبا و طالبات کا اختلاط نہیں ہوتا۔ لیکن نجی تعلیمی اداروں میں مذہب یا اخلاقیات کا داخلہ ممنوع ہے۔ جہاں بلوغت میں قدم رکھنے سے پہلے ہی لڑکے اور لڑکیاں عشق میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ کئی ایسے ادارے ہیں کہ جہاں باقاعدہ سیکس کی تعلیم دی جاتی ہے اورلڑکے لڑکیا ں عملی طور پر بدکاری شروع کرتے ہیں اور پھر ایسے بھی سننے میں آیا کہ لڑکیا ں حاملہ ہوگئیں۔ جب کالج میں لڑکیا ں گئیں تو تقلید مغرب میں مزید ترقی ہوگئی۔ کئی لوگوں کو کہتے سنا کہ ہمیں اپنی لڑکی پر بھروسہ ہے۔ ہم کالج میں چھوڑ کرآتے ہیں اور لے کر آتے ہیں۔ شائد ہی کوئی لڑکی ہو کہ اس کے پاس موبائل نہ ہو۔ ڈاکٹر کو چیک اپ کرانے کے بہانے شارٹ لیو لیکر لڑکی نکلی کسی کے ساتھ موٹر سائیکل یا گاڑی میں چلی گئی۔چھٹی سے قبل کالج میں لوٹ آئی۔ جب گھر سے کوئی لینے آیا تو لڑکی برآمد ہوئی اور گھر والے خوش کہ لڑکی کالج میں ان کے سامنے داخل ہوئی اور برآمد ہوئی۔ لیکن اگر کالج پرنسپل انکے گھر والوں کو اس کی شارٹ لیو کے بارے تصدیق کرلے تو گھر والوں کو بھی معاملات سمجھ آجائیں۔ والدین لڑکیوں کو موبائل نہ دیں۔ خرابی تو پھر بھی ہوگی مگر کم۔
اس پر طرہ یہ کہ لڑکیاں ہوسٹل میں بھی رہتی ہیں۔ یہاں تو کوئی پوچھنے والا نہیں ناظمہ یا چوکیدار کو نوٹ دیدوپھر مزے اڑا۔ مزید یہ کہ والدین اپنی لڑکیوں کی طرف سے اس قدر لاپرواہ یا لالچ کا شکار ہوگئے ہیں کہ لڑکیوں کو تنہا ایک شہر سے دوسرے شہر میں جانے کی اجازت ہوتی ہے۔ پھر کیاہوتا ہے۔ وہی ہوتا ہے کہ ایک دوست فلیٹ میں لے جاتا ہے ۔ شادی کا چکمہ دیتا ہے۔ وہاں کئی دوست مل کر بدکاری کرتے ہیں۔ لڑکیا اپنی عصمت لٹا بیٹھتی ہیں۔ احساس ہونے پر خود کشی کرتی ہیں یا ان کے یار انہیں ٹھکانے لگادیتے ہیں۔ جب ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ عورت پر ظلم ہوگیا۔ جب وہ آوارہ پھر رہی تھی ، دوستوں کے ساتھ دوستی اور ہوٹلوں،پارکوں میں جاتی تھی تووالدین یا تحفظ خواتین کے اداروں کو خیال نہ آیا کہ اس آوارگی کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ جب آگ اور پٹرول کو قریب کردیں گے تو آگ کے شعلے بھڑک اٹھیں گے۔ قرآن و سنت کو پس پشت ڈالنے والوں کا یہی حال ہوتا ہے۔ ایسے خاندانوں کی غیرت اور عزت خاک میں مل جاتی ہے۔ امریکہ اور یورپ سیکس کے معاملا ت میں ترقی یافتہ ہیں۔ وہاں کتنی بن بیاہی مائیں ہیں اور کتنے بچے ہیں کہ جو نہیں جانتے کہ ان کا باپ کون ہے۔ برطانیہ کے ایک سابق وزیر اعظم صاحب کے دادا جان اپنے والد سے بے خبر تھے۔ امریکی فوج میں خواتین بھی شامل ہیں۔ روزی کا مسئلہ ہے۔
America
خیر اب تو پاکستان میں بھی ہماری فورسز میں عورتیں بھرتی ہورہی ہیں۔ اور سینہ تانے پاسنگ آٹ پریڈکے نظارے تو پاکستان کے سبھی لوگ دیکھتے ہونگے۔ جب عراق پر امریکہ خبیث نے قبضہ کیا تو خبر آئی کہ امریکی فوجی خواتین کی بیرکیں مردانہ بیرکوں سے علیحدہ ہیں لیکن لیٹرینیں/ واش روم خواتین کی بیرکوں سے فاصلے پر ہیں۔ جب وہ رات کو رفع حاجت کے لیئے جاتیں تو امریکی فوجی نفسانی اشتہا پوری کرلیتے ۔ مرد مرد ہے عورت فوجی سہی مگر جب مرد کے شکنجے میں آئی تو مرد ہی غالب ہے۔ اب وہ عورتیں رات کو پانی نہ پیتی تھیں ، پیاس برداشت کرتیں ۔ اس خوف سے کہ پیشاب کے لیئے گئیں تو بھیڑیئے انہیں دبوچ لیں گے۔ کیا یہ واقعات ہمارے بڑوں کے لیئے کافی نہیں۔ امریکہ تو آزاد معاشرہ رکھتا ہے۔ جہاں نفسانی تسکین کے یہ کام عام ہیں مگر برائی تو برائی ہے آخر کبھی تو عورت کو اس کا احساس ہوہی جاتا ہے۔ کیا ہماری فورسز میں فرشتے ہیں یا تیسری مخلوق ہے کہ نوجوان عورتیں مردوں کی ہوس سے بچ جائیں گی۔
موردِ الزام تو مرد کو ٹھہرایا جاتا ہے کہ اس نے فلاں لڑکی یا خاتون کی عزت لوٹ لی۔ لیکن یہ بھی جائزہ لیں کہ قرآن و سنت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آرائش و زیبائش کرکے یہ عورت کیوں بے پردہ اپنا حسن و جمال دکھاکر مردوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ پھر خود کسی کے ساتھ جاتی ہے۔ بعض دفعہ تو گھر والوں کو معلوم ہوتا ہے کہ فلاں کے ساتھ جارہی ہے۔ اب کچھ ناگوار حادثہ ہوجائے تو سارا قصور مرد پر کیوں ڈالا جاتاہے۔ میرے لکھنے کا مدعا یہ ہے کہ اپنی عزتیں سنبھال کررکھو۔ آوارگی کے نتائج تو دیکھ لیئے ۔ نوزائیدہ بچے گندگی کے ڈھیروں پر ملتے ہیں، چند روز پہلے خبر آئی کہ فیشن ایبل لڑکی بچی کو پیارکرکے خانیوالے ریلوے سٹیشن پر چھوڑ گئی۔ میں تو سب کو دعوت ِ فکر دیتا ہوں کہ یہ سارا بگاڑ مردوں کا پیدا کردہ ہے۔ جب بے پردہ عورتیں اکبر الہ آبادی کو نظر آئیں تو اس نے ان سے کہا کہ تمہارا پردہ کہاں ہے تو انہوں نے خوب جواب دیا کہ پردہ مردوں کی عقل پرپڑگیا ہے۔ اپنی عورتوں کو قرآن پڑھا۔شرم و حیا اور تقوی کی راہ اختیار کرواور توبہ کرو۔