تحریر : صادق مصطفوی پاکستان میں الیکشن 2018 سے پہلے نگران حکومت کیلئے حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے متفقہ طور پرنگران وزراعظم کیلئے سابقہ چیف جسٹس ریٹائر ناصر الملک کے نام پر اتفاق کیا گیا۔ خیبر پختون خواہ کے علاقے سوات سے تعلق رکھنے والے جسٹس ناصر الملک کی اس وقت عمر 68 سال ہے۔ پاکستان کے چاروں صوبوں کے وزارائے اعلی کا انتخاب بھی اسی طرح 65سال سے زائد عمر کے افراد سے ہی کیا جائے گا۔ خیبر پختون خواہ سے ہی تعلق رکھنے واے ایبٹ آباد سے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ریٹائر) سرداررضاخان ہیں ،ان کی عمر بھی 73 سال ہے۔ یہ سب لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ الیکشن کی انتہائی اہم ذمہ داری پاکستان کے ان عمر رسیدہ افراد کے کندھوں پر ڈالی جا رہی ہے ۔ کیا پاکستان کے آئندہ 5سال کی حکومت منتخب کرنے کیلئے شفاف الیکشن ان ریٹائر بزرگوں سے ممکن ہو سکے گا؟
جسٹس ناصر الملک کے بطور چیف جسٹس نعرہ تھا کہ “انصاف ہونا چاہیے ، چاہے آسمان ہی کیوں نہ گرپڑہے “جبکہ ان کے فیصلے ان کے نعرہ کے یکسر مختلف نظر آتے ہیں۔چیف جسٹس پاکستان ہوتے ہوئے الیکشن 2013میں دھاندلی کے کیس میں سپریم کورٹ کے بنچ کے سربراہ کے طور جسٹس ناصر الملک نے کئی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی اور اس بات کا اعتراف کیا کہ الیکشن 2013میں الیکشن کمیشن ناکام رہا ، الیکشن شفاف نہیں ہوئے لیکن کیوں کہ “منظم دھاندلی ” نہیں ہوئی اس لیے الیکشن 2013 کے کیس کو خارج کر دیا۔ ان کے منظم دھاندلی کی اصطلاح کو سوشل میڈیا پر بہت تنقید کا بھی نشانہ بنایا گیا۔ اسی طرح جسٹس ناصر الملک نے نواز شریف کو نااہل قرار دینے کیلئے دائر کی گئی درخواستوں کو بھی ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کر دیا۔
لاپتہ افراد کیس کو بھی عدالتی تاریخوں اور فائلوں کی نظر کر دیا گیا۔26اپریل 2012کویوسف رضا گیلانی کو سوئس حکام کو خط نہ لکھنے کی وجہ سے وزیر اعظم کے عہدے سے فارغ کیا گیا ۔ وہ اصول ان کے بعد آنے والے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کیلئے نرم کر دیا گیا۔ انصاف کا نعرہ لگانے والے جسٹس ناصر الملک نے بطور چیف جسٹس کوئی سوموٹو ایکشن نہیں لیا حالانکہ ان کے دور میں سانحہ ماڈل جیسا حکومتی دہشت گردی کا واقعہ بھی پیش آیا۔ اگر ناصر الملک اپنی ذمہ داری ادا کرتے تو 2014میں ڈاکٹر طاہرالقادری کو طویل دھرنا نہ دینا پڑہتا۔ ٍ موجودہ چیف جسٹس ثاقب نثارجن سے اس وقت پاکستانی عوام بہت سے امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہے۔ عوام کے بنیادی حقوق پرکئی ایکشن لے چکے ہیں۔ نواز شریف کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ بھی ان کے دور میں کیا گیا۔
کسی بھی طرح کے مارشل لاء کا انکار کرتے ہوئے شفاف الیکشن کا وعدہ بھی عوام سے چیف جسٹس ثاقب نثار کر چکے ہیں ۔ سابق اور موجودہ چیف جسٹس کے فیصلہ میں بہت واضح فرق نظر آتا ہے۔ ایک طرف ثاقب نثار بطور چیف جسٹس اور جسٹس جاوید اقبال بطور چیئرمینNAB کرپشن کے خلاف متحرک ہیں اور دوسری طرف جسٹس (ریٹائر) ناصر الملک جن کے نزدیک دھاندلی صرف منظم ہو تو اس کو دھاندلی کہیں گے ، جنہوں نے نوازشریف کے خلاف درخواست سننے سے ہی انکار کیا اور ان کو ناقابل سماعت کہہ کر مسترد کرتے رہے۔
ایسی صورت حال میں نگران وزیر اعظم کے طور پر ناصر الملک اور ثاقب نثار کے درمیان ٹکراؤ کے بغیر الیکشن ممکن ہوں گے ؟ کیا ثاقب نثار کا شفاف الیکشن کا وعدہ ناصر الملک پورا کرنے میں معاون ثابت ہوں گے ؟ ۔ پاکستان اس وقت عالمی سطح پر جن مشکلات کا شکار ہے ایسے میں شفاف الیکشن پاکستان کیلئے بہت ضروری ہیں ۔ آزاد ، منصفانہ الیکشن 2018 سے ہی مستحکم پاکستان کی بنیاد رکھی جائے گی۔