تحریک عدم اعتماد کی آڑ میں اس وقت پاکستان کی سیاسی منڈی عروج پر ہے ریٹ اوپر نیچے جارہے ہیں کروڑوں روپے الیکشن میں جھونک کر آنے والے للچائی ہوئی نظروں اپوزیشن کی طرف دیکھ رہے ہیں ایک بات تو طے ہے کہ یہ تحریک عدم اعتماد بھی بری طرح ناکام ہو گی جیسا کہ ہمارا پچھلا ریکارڈ بتا رہا ہے پاکستان میں قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے خلاف 2 بار تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی سب سے پہلے 1989 میں بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی اورتحریک عدم اعتماد صرف 12 ووٹوں سے ناکام رہی 5 ارکان ایوان سے غیر حاضر رہے اور بے نظیر بھٹو کو 125 ووٹ ملے تھے تحریک عدم اعتماد کے حق میں 107 آئے تھے کامیابی کے لیے اپوزیشن کو 119 ووٹ چاہیے تھے۔
اگست 2006 میں سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام رہی اس موقع پر تحریک عدم اعتماد پر حزب اختلاف کے حصے میں 342 میں سے 136 ووٹ ہی آسکے تھے جبکہ تحریک کی کامیابی کے لیے 172 ووٹ درکار تھے۔اسی طرح قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر چوہدری امیر حسین کے خلاف 2 بار تحریک عدم اعتماد جمع کرائی گئی ایک بار جون 2003 اور دوسری بار اکتوبر 2004 میں وہ دونوں بار بچنے میں کامیاب رہے۔ جون 2003 میں تحریک عدم اعتماد اس لیے ناکام رہی کیونکہ حزب اختلاف نے بحث کے بعد رائے شماری کا بائیکاٹ کیا تھا جبکہ 17 سال قبل اس وقت کے کے اسپیکر سید فخر امام کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا گیا تھا جس کی حمایت اس وقت کے صدر جنرل ضیا الحق نے کی تھی۔
یہ تو تھی ہماری تاریخ اب کیا ہوگا اور تحریک عدم اعتمادکیسے پیش ہوگی اور نمبر آف گیم کیا ہوگی؟ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں خواتین کے عالمی دن پر8 مارچ کو تحریک عدم اعتماد جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد کو ملکی سیاست میں کئی ماہ کی غیریقینی صورتحال کے بعد جمع کرایا گیا جس کا اعلان پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے 11 فروری کو کیا تھا اب آگے کیا ہوگا؟ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے حزب اختلاف کو سادہ اکثریت کی ضرورت ہوگی یعنی قومی اسمبلی کے 342 میں سے 172 اراکین کی حمایت کی ضرورت ہوگی حزب اختلاف کا دعویٰ ہے کہ اسے مطلوبہ اکثریت حاصل ہے۔
جبکہ مولانا فضل الرحمٰن کا تو کہنا ہے کہ وہ یہ تعداد 180 تک پہنچانا چاہتے ہیں قومی اسمبلی کی ویب سائٹ کے مطابق پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے 155 ارکان، ایم کیو ایم کے 7، بلوچستان عوامی پارٹی کے 5، مسلم لیگ (ق) کے 5 ارکان، گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے 3 اور عوامی مسلم لیگ کا ایک رکن شامل ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے 84، پاکستان پیپلز پارٹی کے 56، متحدہ مجلس عمل کے 15، بلوچستان نیشنل پارٹی کے 4، عوامی نیشنل پارٹی کا ایک، جمہوری وطن پارٹی کا ایک اور اس کے علاوہ 4 آزاد اراکین شامل ہیں اس وقت حزب اختلاف بظاہر پنجاب اور بلوچستان کے کمزور اراکین قومی اسمبلی کی خریدوفروخت پر توجہ مرکوز کر رہی ہے۔
تحریک عدم اعتماد حزب اختلاف کاآخری پتا ہے اس کے بعد واحد آپشن عام انتخابات میں جانے کا ہوگا اب ہم تحریک عدم اعتماد کا طریقہ کارکے متعلق بات کرلیتے ہیں کہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر رائے شمای کے لیے قومی اسمبلی کے 20 فیصد یا 68 اراکین کے دستخطوں سے ایوان کا اجلاس بلانے کی درخواست جمع کرائی جاتی ہے جس کے دوران تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری ہوتی ہے آئین کے آرٹیکل 54 کے مطابق ‘اسپیکر قومی اسمبلی کے پاس ریکوزیشن آنے کے بعد ایوان کا اجلاس بلانے کے لیے زیادہ سے زیادہ 14 دن ہوتے ہیں اجلاس طلب کرنے کے بعد سیکریٹری قومی اسمبلی اس نوٹس کو اراکین کو بھیجیں گے اور عدم اعتماد کی قرارداد اگلے دن (ورکنگ ڈے پر) پیش کی جائے گی جس دن قرارداد پیش کی جاتی ہے قواعد کے مطابق اس پر 3 دن سے پہلے یا 7 دن کے بعد ووٹ نہیں دیا جائے گاوزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری اوپن ووٹ کے ذریعے ہوتی ہے۔
جب قومی اسمبلی کا اجلاس ہوگا تو پہلے گھنٹی بجائی جاتی ہے تاکہ اگر کوئی رکن باہر ہو تو وہ اسمبلی ہال میں پہنچ جائے اور اس کے بعد دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اس کے جو اراکین تحریک عدم اعتماد کے حق میں ہوتے ہیں وہ ایک دروازے سے باہر نکلتے ہیں جبکہ ‘اس کے مخالف دوسرے دروازے سے باہر جاتے ہیں جب وہ باہر نکل رہے ہوتے ہیں تو گنتی کا آغاز ہوجاتا ہے اور جب ہال مکمل خالی ہوجاتا ہے اور رائے شماری مکمل ہوجاتی ہے تو پھر سب دوبارہ ہال میں داخل ہوتے ہیں اس کے بعد اسپیکر کی جانب سے نتیجے کا اعلان ہوتا ہے اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو تو اسپیکر کی جانب سے نتیجے کو تحریری طور پر صدر مملکت کے پاس جمع کرایا جائے گا اور سیکریٹری کی جانب سے گزٹڈ نوٹیفکیشن جاری کیا جائے گا۔
اگر اسپیکر یا ڈپٹی اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی گئی ہو تو اس پر رائے شماری خفیہ بیلٹ کے ذریعے ہوتی ہے اوراس رائے شماری کے دوران اسپیکر یا ڈپٹی اسپیکر اسمبلی سیشن کی صدارت نہیں کرسکتے قومی اسمبلی کے اس اجلاس میں تحریک عدم اعتماد سے ہٹ کر کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ آئین کے مطابق اگر وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں اکثریت سے کامیاب ہوجائے تو وزیراعظم مزید عہدہ نہیں سنبھال سکتے وزیراعظم تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹا دیئے جاتے ہیں تو ان کی کابینہ بھی تحلیل ہوجاتی ہے ایک کابینہ وزرا، مشیران پر مشتمل ہوتی ہے ایسا تب ہوتا ہے جب تحریک کامیاب ہو یہاں صورتحال مختلف ہے بقول وزیراعظم عمران خان اس وقت سب چور انکے خلاف اکھٹے ہیں اور آپ تو جانتے ہیں کہ چوروں کا ٹولہ جتنا مرضی مضبوط ہو لیکن ایک سپاہی کے سامنے کھڑا نہیں ہوسکتا عمران خان بھی پاکستان کا سپاہی ہے جو میدان میں کھڑا ہے اسی طرح پنجاب میں سردار عثمان بزدار کی تبدیلی کی باتیں کرنے والوں کو بھی منہ کی کھانی پڑے گی موجودہ حکومت اپنے اسی سیٹ اپ کے ساتھ 5سال پورے کریگی باقی سیاسی دوکانداریاں چلتی رہیں گی۔