تحریر : قادر خان یوسف زئی پاکستان میں ایوان بالا کے انتخابات پُر امن میں منعقد ہوگئے لیکن ہر بار کی طرح ہارس ٹریڈنگ کی سودوں نے جمہوریت کے نظام کی بنیادوں کو اُڑا کر رکھ دیا ۔علامہ اقبال علیہ رحمہ تو بہت پہلے کہہ چکے تھے کہ جمہوریت ایک طرز حکومت ہے۔۔۔بندوں کو گِنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے ۔ پاکستان میں جب بھی سینیٹ الیکشن کا موسم آتا ہے تو خرید و فروخت کے موسلا دھار الزامات سے سیاسی فضا مکدر ہوجاتی ہے۔ لعن طن اپنی عروج پر ہوتی ہے۔ نئی قانون سازی کے مطالبات و ان گنت تجاویز صفحہ قرطاس پر بکھیر دیئے جاتے ہیں ۔ لیکن پھر ایک نئی صبح انگڑائی لیتے ہوئے سار ے عمل کو ایک بھیانک خواب سمجھ کر بھلا دیا جاتا ہے ۔ قوم بھی اگلے انتخاب تک کے لئے لالی پاپ لیکر چپ سادھ لیتی ہے۔حالیہ سینیٹ انتخابات کئی جماعتوں کے سربراہوں کے ووٹ نہیں ڈالنے کی بناء پر عوام میں یہ تاثر راسخ ہوا کہ جب پارٹیوں کے سربراہ خود تو الیکشن میں حصہ نہ لیں ، ممبران ووٹ لیں اور دیںاور نظام پر تنقید کرتے رہیں تو ان کا یہ دوہرا معیار کب تک چلے گا؟۔ سینٹ انتخابات میں عدم اعتماد کا ایک افسوس ناک واقعہ دیکھنے کو ملا جب صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پر ویز خٹک کی تلاشی اس طرح لی گئی کہ انہوں نے اپنے جوتے اتارنے کی بھی پیش کش کی۔ چند اراکین نے تلاشیاں بھی دیں جس پر احتجاج بھی کیا گیا۔فاٹا میں ایک بار پھر ماضی کی روایات دوہرائی گئیں۔ تمام اسمبلیوں کے برعکس انتخابی طریق کار کی وجہ سے فاٹا کی نشستوں پر انتخابی عمل پر کبھی اعتماد نہیں کیا جاتا۔ سینیٹ کے انتخابی عمل میں وہ سب کچھ ہوا جس کا اظہار بار بار کیا جاتا رہا ہے۔کہا جارہا ہے کہ موجودہ سینٹ انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ نواز کی کامیابی نے اپوزیشن بیانیہ کو شکست دے دی ہے۔ اگر ایسا ہے تو اپوزیشن کو اپنی شکست پر ضرور سوچنا ہوگا کہ انہیں عام انتخابات میں اگر کامیابی حاصل کرنی ہے تو ساڑھے چار برسوں سے جس قسم کی سیاست کی جا رہی ہے اس سے قوم میں شعور و تبدیلی نہیں لاجاسکتی ۔ کہا جاتا ہے کہ باتوں کا اثر اُس وقت ہی ہوتا ہے جب کہنے والا سب سے پہلے خود اُس پر عمل کرے ۔ اسٹیٹس کو ختم کرنا اتنا آسان نہیں ہے ۔ جب کھربوں روپے انتخابی مہم میں لگائے جائیں تو اہل اور متوسط طبقہ کے نمائندے کس طرح قانون ساز ادارے میں جگہ حاصل کرسکتا ہے۔پل میں تولہ ، پل میں ماشہ پاکستانی سیاست میں جز لانیفک بن چکا ہے۔
سینیٹ انتخابات پر جس قسم کی سودے بازیوں کے الزامات سیاسی جماعتوں کی جانب سے عائد کئے جاتے ہیں بد قسمتی اس عمل سے فائدہ اٹھانے والے ایسے جمہوری عمل کا ایک حصہ قرار دیتے ہیں۔پاکستان کی عوام اس جمہوری نظام کے اس حصے کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ سینیٹ کے انتخابات کا طریق کار اس قدر گنجلگ کیوں ہے ۔ سیاسی جماعتوں سے وفاداریاں یکد م ضمیر کے عدالت سے با عزت کیسے بَری ہوجاتے ہیں۔قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ جب دو برس لگا کر الیکشن ایکٹ بنایا جارہا تھا ۔ اس میں سینیٹ کے مروجہ طریق کار پر کسی بھی سیاسی جماعت نے تبدیلی کی کوشش کیوں نہیں کی۔ صاف ظاہر ہے کہ سینیٹ میں انتخابات کے مروّجہ طریق سے ہر سیاسی جماعت کو اپنا فائدہ نظر آتا ہے ۔ سینیٹ کے انتہائی متنازعہ و ہارس ٹریڈنگ سے آلودہ انتخابات کے بعداب سب سے اہم مرحلہ سینٹ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کی نشستوں کے انتخاب کے لئے ہوگا ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان جو اپنے اندرونی تنازعات میں حسب توقع بڑے نقصان کا شکار ہوئی اور دونوں گروپ کے سربراہ اپنے اراکین کو متفقہ فارمولے کے مطابق ووٹ دینے پر قائل نہیں کرسکی ۔ اب بھی سینیٹ میں اپنی5 نشستوں کے ساتھ اہمیت کی حامل ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کے دونوں گروپوں کو اپنے ووٹرز کی جانب سے سخت تنقید اور مایوسی کا سامناہے ۔ انہوں نے دونوں گروپوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے تمام ذمے داران پر عدم اعتماد کیا ہے کہ عام انتخابات میں ان کی غیر سنجید ہ سیاست پر یقین نہیں کیا جاسکتا ۔ ایم کیو ایم پاکستان تنظیمی طور پر ایک بڑے امتحان سے گذر رہی ہے ۔ اب حالات چاہے جیسے بھی ہوں۔
عمومی رائے میں ایم کیو ایم پاکستان کے سپورٹرز اور ووٹرز دونوں گروپ کے سربراہوں اور رابطہ کمیٹی کے کردار کو شکوک کی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ تاہم ایم کیو ایم پاکستان اگر سینیٹ کی چیئرمین شپ کے چنائو کے موقع پر اپنے ووٹرز کے لئے کچھ فائدہ اٹھالیتی ہے تو ممکن ہے کہ عام انتخابات میں اپنے ووٹرز کے سامنے سرخرو ہوسکیں ۔ پاک سرزمین پارٹی نے ایم کیو ایم پاکستان کے منحرف اراکین کے ووٹ مسلم لیگ فنکشنل کی گود میں ڈال دیئے ۔ جس پر پاک سرزمین پارٹی کا امیج عوام کے سامنے دھندلا سا گیا ہے کہ ایک تو منحرف اراکین کو انہوں نے اپنے مفاد میں استعمال کیا اور جو ووٹ بھی مسلم لیگ فنکشنل کو دیئے اس کا کوئی فائدہ عوام کو نہیں پہنچے گا کیونکہ مسلم لیگ فکنشنل کی وفاق اور سندھ میں ایسی کوئی پوزیشن نہیں ہے کہ وہ احساس محرومی کا شکار شہری علاقوں کے لئے کوئی کارنامہ انجام دے سکے۔ ایک رائے کے مطابق پاک سرزمین پارٹی نے سینیٹ کے انتخابات میں جس طرح حصہ لیا اس سے ہارس ٹریڈنگ کو فروغ ملا ہے۔ پاک سرزمین پارٹی اپنے سپورٹرز کو مطمئن نہیں کرسکتی کہ ان کے منحرف اراکین کا ووٹ کس اخلاقی جواز کے تحت دیئے گئے تھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنی حکمت عملی کے تحت ایم کیو ایم کے سیاسی انتشار سے براہ راست فائدہ اٹھایا اور اپنے حصے سے زیادہ سینیٹ کی نشستیں حاصل کرلیں ۔ ایم کیو ایم پاکستان کے دونوں گروپ لاکھ پی پی پی پر ہارس ٹریڈنگ کے الزامات عائئد کریں لیکن ایک عام کارکن جب اپنے ذمے داروں سے متنفر ہوچکا تھا تو اراکین اسمبلی کو کس طرح مطمئن کیا جاسکتا تھا ۔جتنے اراکین ثابت قدم نکلے ہیں ان کا دونوں گروپوں کو علم تھا اور جو اراکین اُن سے مطمئن نہیں تھے اِن کا بھی ایم کیو ایم کو مکمل علم تھا ۔ برسوں کا اعتماد چند دنوں میں ختم ہوگیا ۔ عام رائے یہ سامنے آئی ہے کہ ایم کیو ایم کے ووٹرز کو دوبارہ اپنے حق میں ہموار کرنے کے لئے واحد طریقہ یہی رہ گیا ہے کہ دونوں گروپ اپنی ذمے داریاں چھوڑ دیں اور اپنے نظریئے کے مطابق اہل افراد کے لئے جگہ فراہم کردیں ۔ تاہم یہ بھی مشکل نظر آتا ہے ۔ شہری علاقوں میں ایم کیو ایم کے سپورٹرز کا رجحان پی پی پی کی جانب بڑھ رہا ہے اور پی پی پی کے لئے شہری علاقوں میں اپنا رسوخ بڑھانے کا سنہرا موقع بھی ہے۔
راقم نے پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات مولا بخش چانڈیو سے شہری نمائندگی کے حوالے سے خصوصی گفتگو کی تھی تو انہوں نے اس بات کا عزم ظاہر کیا تھا کہ اگر پی پی پی کو شہری علاقے ووٹ دیتے ہیں تو ان کی جماعت ماضی کی غلطیوںکا بھرپور ازالہ کرے گی ۔ پی پی پی کی دلی خواہش پوری ہوچکی ہے۔ اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے انہوں نے جو بھی کچھ کیا اس بات سے قطع نظر اب پی پی پی کے پاس سندھ کے شہری علاقوں کا بھی مینڈیٹ آچکا ہے ۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ پی پی پی اپنے روایتی علاقوں کے علاوہ دیگر مخصوص علاقوں پر کتنی توجہ دیتی ہے۔ عام انتخابات کے لئے انہیں اپنے ورکرز کے ذریعے عوامی رائے عامہ تبدیل کرنے میں زیادہ دشواری کا سامنا نظر نہیں آتا ۔ پی پی پی نے سندھ کے حوالے سے جن سینیٹرز کو ٹکٹ جاری کئے انہیں قابل تحسین قرار دیا جارہا ہے۔ گو کہ پی پی پی سینیٹ انتخابات کے حوالے سے کافی الزامات کا سامنا کیا ہے لیکن ایسے الزامات حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن پر بھی لگے ہیں ۔ بلکہ تقریباََ ہر سیاسی جماعت ہارس ٹریڈنگ کے الزامات سے نہیں بچ سکی ہے۔ اہم مرحلہ پاکستان مسلم لیگ ن کے لئے شروع ہوچکا ہے۔
پی پی پی ایک نئی حکمت عملی کے تحت توقع رکھ سکتی ہے کہ وہ ایک مرتبہ پھر سینیٹ کی چیئرمین شپ یا ڈپٹی چیئرمین شپ لینے میں مفاہمتی جادو کی چھڑی گھوما دیں۔چند دنوں میں سینیٹ کی چیئرمین شپ کے لئے فضا بالکل واضح ہوجائے گی لیکن ایوان بالا کے لئے انتخابی طریقہ کار پر سوالیہ نشان قائم رہے گا کہ کیا ہر بار سینیٹ کی نشستوں کے لئے ہارس ٹریڈنگ کا میدان بنایا جا تا رہے گا۔ سیاسی جماعتوں کو عوام میں اپنی ساکھ برقرار رکھنے کے لئے بڑے فیصلے کرنا ہونگے ۔ اگر جمہوریت کے نام پر یہ بیٹا جمہورا کا یہ کھیل چلتا رہا تو عوام کے صبر کا پیمانہ بھی بالاآخر ایک روز لبریز ہوجانا ہی ہے ۔ جو یقینی طور پر قوم و ملک کے لئے اچھا شگون ثابت نہیں ہوگا ۔ عام انتخابات کس کروٹ بیٹھتے ہیں اس میں بھی ابہام پایا جاتا ہے لیکن سیاسی جماعتوں کو عام انتخابات کے لئے امیدواروں کے انتخاب میں احتیاط کا دامن بھی تھامنا ہوگا۔ گوکہ سیاسی جماعتیں اپنے امیدواروں کا تعین کرچکی ہیں لیکن سوچیںکہ ضمیر بکتے دیر نہیں لگتی یہ سبق ہمیں سینیٹ کے موجودہ انتخابات سے ملتا ہے۔