پاکستان دشمن اور اسلام دشمن

Qadiani

Qadiani

تحریر : ساجد حبیب میمن
سوچا تھا اس موضوع پر کچھ نہ لکھوں کیوں کہ موضوع حساس نوعیت کا ہے لیکن اس موم بتی مافیا نے مجھے مجبور کر دیا ہے کہ میں قلم اٹھائوں۔ انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردار، دیسی لبرلز، قادیانی اور قادیانی نواز ٹولے، ملحدین ، پاکستان دشمن اور اسلام دشمنوں کو کافی عرصہ بعد اپنی گھٹیا ذہنیت دکھانے کا موقع ملا ہے اور وہ کھلم کھلم دینِ اسلام اور نظریہ پاکستان کے خلاف صف آراء ہیں۔ ملعون سلمان حیدر اور ان کے ساتھی کئی سال سے سوشل میڈیا پر طوفانِ بدتمیزی برپا کئے ہوئے تھے اور کروڑوں مسلمانوں کی دل آزاری کر رہے تھے تب یہ موم بتی مافیہ سو رہا تھا۔ تب ان کو انسانی حقوق یاد نہیں آئے۔

جب کوئی لبرل فرد یا طاقت کسی مذہب پسند کو اپنی بربریت کا نشانہ بناتی ہے تب اس موم مافیہ کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ یہ موم بتی مافیا صرف لبرلز اور ملحدین کے تحفظ کا ٹھیکیدار بنا ہوا ہے۔ اب یہ بات بھی عیاں ہے کہ ملعون سلمان حیدر کے گروپ کو بیرونی ایجنسیوں اور اسلام دشمن طاقتوں کی پشت پناہی حاصل تھی۔ ان لوگوں کا نیٹ ورک صرف لاپتہ ہونے والے چار افراد پر ہی محیط نہ تھا بلکہ یہ لوگ سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں ہیں اور اسلام اور پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ کرنے کے لئے ان کا نیٹ ورک مختلف ممالک میں پھیلا ہوا ہے۔ استغراللہ!۔ یہ لوگ سوشل میڈیا پر بکواس کرتے تھے اور اب بھی کر رہے ہیں کہ ہمیں پکڑ کر دکھائو۔ اپنے خدا سے کہو کہ وہ ہمیں پکڑ کر دکھائے۔ یہ لوگ نعرے لگا رہے ہیں کہ تم کتنے بھینسے مارو گے، ہر گھر سے بھینسا نکلے گا۔ ان حرام کے بھینسوں کو شاید اس بات کا یقین ہو چکا ہے کہ یہ مسلمان قوم بے حس اور بے دین ہو چکی ہے۔

بھینسا، موچی، روشنی، فریڈم آف سپیچ، موم بتی اور اسی طرح کے ناموں سے سوشل میڈیا پر ہزاروں صفحات ہیں جو کھلم کھلم توہینِ اسلام اور توہینِ رسالت کے لئے ہی بنائے گئے ہیں۔ جب سے یہ ملعون لاپتہ ہوئے ہیں تب سے بے شمار نئے صفحات بنائے گئے ہیں۔ صرف بھینسا کے نام سے سینکڑوں اکائونٹ بنائے گئے ہیں۔ یہ سب لوگ سلمان حیدر نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔ یہ لوگ جس آزادی کی بات کرتے ہیں وہ آزادی انہیں دنیا کا کوئی قانون بھی نہیں دیتا۔

Pakistan

Pakistan

میں ان گستاخوں کے لاپتہ ہونے کی بالکل حمایت نہیں کر رہا ہے اور نہ میں یہ جانتا ہوں کہ ان کو کس نے لاپتہ کیا۔جس طرح یہ لوگ کروڑوں لوگوں کے مذہبی جذبات مجروح کرتے ہیں کوئی بھی مشتعل ہو کر ان سے انتقام لے سکتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ان گستاخوں کو سرعام قانون کے مطابق سزادی جائے۔ یہ لوگ سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستان کے اندر ملحدین اور کافروں کی ایک نسل تیار کر رہے ہیں۔ ان کے سارے نیٹ ورک کو پکڑا جانا چاہیے۔ دنیا کا کوئی مذہب، دنیا کا کوئی ملک، دنیا کا کوئی قانون اس طرح کی گستاخیوں کی اجازت نہیں دیتا۔ میں ان ملعونوں کے حمایتی موم بتی مافیہ اور جھوٹے دانشوروں سے سوال کرتا ہوں کہ تم لوگ کسی اور ملک میں جا کر اس ملک کے مذہب یا قومیت کے بارے میں اس طرح کی بکواس کر کے دکھائوتو تمھاری بہادری کا پول کھلے۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے اندر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ہی اکثر بدترین پاکستان اور اسلام دشمنی کا ثبوت دیتا ہے۔ میڈیا کے اندر بیرونی ایجنسیوں کی فنڈنگ ہو رہی ہے اور ہمارا میڈیا ملک دشمن طاقتوں کے اشاروں پر ناچ رہا ہے۔ ہمارا میڈیا دنیا کو یہ باور کرواتا نظر آتا ہے کہ ہم دنیا کی گھٹیا ترین قوم ہیں۔ ساری برائیاں اور عیب ہم میں ہیں اور باقی دنیا دودھ کی دھلی ہے۔ جو میڈیا خود بیرونی دنیا کو باور کروائے کہ آئیں ہم پر حملہ کریں وہ میڈیا کس طرح ملک و ملت کے لئے فائدہ مند ہو سکتا ہے؟ پاکستان میں ہزاروں ایک سے بڑھ کر ایک مسائل ہیں لیکن ذرا ملاحظہ کریں کہ ہمارے ملک کے سب سے بڑے میڈیا گروپ یعنی جنگ نے اپنے فرنٹ پیج پر 14 جنوری کو لیڈ سٹوری کیا چھاپی ہے۔ ” لاپتہ افراد، امریکہ اور برطانیہ کی تشویش، اوبامہ انتظامیہ صورتِ حال پر نظر رکھے ہوئے ہے، لاپتہ افراد کو بازیاب کر کے ان کے اہلِ خانہ کو تحفظ دیا جائے”جبکہ دوسرے اخبارات نے یہی خبر دوسرے یا تیسرے صفحے پر ایک چھوٹی خبر کے طور پر چھاپی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جنگ گروپ کے مفادات اور پاکستان کے مفادات مختلف ہیں۔

اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ کس طرح سوشل میڈیا پر ملحدین کو کروڑوں مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے سے روکا جا سکتا ہے؟ سب سے پہلی بات یہ کہ ہمیں بحثیت ایک ریاست اور قوم مضبوط اور خود مختیار ہونا پڑے گا۔ ہمیں اپنے ملک کے اندر توہینِ مذہب اور سائبر کرائمز کے قوانین کو مربوط کرنا ہو گا۔ توہینِ مذہب کے مرتکب افراد کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی کرنا ہو گی اور اس معاملے میں بیرونی دبائو کو یکسر رد کرنا ہو گا۔ اپنے ہی میڈیا کو نکیل ڈالنے کی بھی ضرورت ہے۔ جو میڈیا گروپ ملک اور مذہب کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والوں کا ساتھ دیتے ہیں حکومتِ پاکستان کو چاہیے کہ ان کے لائسنس معطل کر دیے جائیں۔ اگر ان لوگوں کے خلاف عام لوگوں کی طرح عدالتوں میں کاروائی ہو اور میڈیا اس معاملے کو ایشو نہ بنائے تو یقینا معاملات کافی حد بہتر ہو سکیں گے۔ سوشل میڈیا کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پیجز کو بند کرنے کا اختیار حکومت کے پاس نہیں ہوتا۔ لیکن اس معاملے پر موثر قانون سازی کر کے حکومتِ پاکستان فیس بک، ٹوئٹر، گوگل اور یوٹیوب انتطامیہ کے ساتھ معاہدات کر سکتی ہے۔ ان پر دبائو ڈال سکتی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے دشمن ہمسایہ ملک بھارت نے معاہدات کر رکھے ہیں۔

پچھلے دنوں ایمازون پر گاندھی کی تصویر والی چپل کی فروخت پر بھارتی حکومت نے دبائو ڈال کر ایمازون کو ویب سائٹ سے پوسٹ ہٹانے اور معذرت کرنے پر مجبور کر دیا۔ اسی طرح سوشل میڈیا پر اگر کوئی پیج ہندو مذہب کی توہین پر مبنی ہو تو بھارتی حکومت انتظامیہ سے رابطہ کر کے اس پیج کو بند کروا دیتی ہے لیکن ہماری حکومتیں اس طرح کے معاملات میں لاتعلق رہتی ہیں۔ حکومتِ پاکستان آئینِ پاکستان اور دینِ اسلام کے تحفظ کی بھی ضامن ہے۔ میں وزیراعظم محمد نواز شریف اور وزیرِ داخلہ چوہدری نثار سے درخواست کرتا ہوں کہ مذہبی توہین پر مبنی سائبر کرائمز کے حوالے سے سوشل میڈیا کمپنیز سے معاہدات کریں تاکہ سلمان حیدر جیسے گستاخوں کو سرِ عام سزائیں دی جا سکیں۔ اگر ان بھینسوں کی حرام نسل کو کنٹرول نہ کیا گیا تو ہماری اگلی نسلیں ملحدین میں سے ہی ہوں گی۔

Sajid Habib Memon

Sajid Habib Memon

تحریر : ساجد حبیب میمن
موبائل: 0321-9292108
ای میل: [email protected]