پاکستان بالخصوص اسلام آباد اور راولپنڈی کو ”یرغمال” بنے ہوئے تقریباََ ایک ماہ سے زائد کا عرصہ ہو گیا۔ اخبارات، ٹی وی چینلز اور دیگر میڈیا پر کچھ لوگ کھلم کھلا کسی مخصوص سیاسی جماعت کی حمایت کرتے ہیں، کچھ لوگ چھپے رستم بن کر دوسری سیاسی جماعتوں پر تنقید کی آڑ میں کسی خاص سیاسی جماعت کی حوصلہ افزائی کرہے ہیں اور کچھ لوگ بشمول ناچیز، بالکل نیوٹرل ہوکر صرف پاکستان کے مفاد میں بات کرتے ہیں۔ موجودہ سیاسی موسم تقریباََ ہر پاکستانی پر اثر انداز ہوا۔
بہت سوں نے اپنے سیاسی مئوقف کی اصلاح کی اور بہت سوں نے سیاسی و مالی مفادات کی خاطر دوغلے پن کا اظہارکرتے ہوئے اپنا ایمان تک بیچ ڈالا۔ کچھ سیاسی موسمی پرندوں نے اڈاریاں ماریں۔ کچھ اناڑی سیاسی گروئوں نے حکومت مخالف اقدامات میں اس امر کو قطعی نظر انداز کردیا کہ ان کے جاہلانہ اور فرسودہ اقدامات سے حکومت گرے یا نہ گرے لیکن ہمارے وطن عزیز ”پاکستان” کی جگ ہنسائی ضرور ہو رہی ہے۔ پاکستان میں اناڑی سیاسی اقدامات سے وطن عزیز خدانخواستہ روز بروز ” تنزلی” کی جانب جا رہا ہے۔ گذشتہ کچھ عرصے سے سیاسی صورتحال یہ ہے کہ ایک کپتان صاحب روزانہ رات کو کنٹینر کے اوپر سوار ہوکر اپنی تقریر کچھ اس طرح سے کرتے ہیں: اوئے نواز شریف, اوئے مولانا ڈیزل، اوئے خورشید شاہ، اوئے چادر والے اچکزئی، اوئے چیف جسٹس، اوئے آء جی، اوئے سیکرٹری، اوئے ایس ایچ او۔
اوئے کانسٹیبل،اوئے سپاہییوں، اوئے لفافہ صحافیو۔ اوئے الف دین، اوئے بوٹا خان، اوئے جمعہ خان، (ایک ایک کا نام لے کر، کوئی پانچ سو بندہ تو ہوگا) سب سن لو۔۔۔ میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا، میں تمیہں نکال کے رہوں گا، میں تم سب کا پیچھا کروں گا، میں تمہارا شکار کروں گا، تمہاری شلوارین گیلی کروں گا، تمہیں چھٹی کا دودھ یاد کروادوں گا، میں تمیں گھونسے ماروں گا، تمہاری وکٹیں گرا دوں گا، بائونسر ماروں گا، میں کبھی پرائم منسٹر ہاؤس میں نہیں رہوں گا۔گورنر ہاوس پر بلڈوزر چلا دوں گا، ایوان صدر سے صدر کو نکالوں گا، او میں میں میں میں میں میں ٹائیگر ہوں۔ میرے ساتھ ٹائیگروں کا پورا ریوڑ موجود ہے۔ میں میں میں بڑی بلا ہوں۔ کوء مجھ سے پنگا نہ لے، تم نے میری طاقت دیکھی نہیں، میرے مسلز دیکھے نہیں ، پورے تین گھنٹے ””جم”” لیتا ہوں، سب ہٹ جائو آگے سے، مجھے کوئی نظر نہ آئے۔
اس طرح کے بیانات سے عام پاکستانی کی طرح راقم کے جذبات بھی بہت مجروح ہوئے۔ کپتان صاحب اس وقت ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت کے چیئرمین ہیں۔ انہیں اپنے مرتبے کا احساس کرتے ہوئے ”خود پسندی” یا ”میں نامہ” کے نظریے کو بدل کر عوامی اصلاحی نظریے کو اپنانا چاہیئے۔ اکثر اوقات انکی تقریر سن کر لگتا ہے جیسے موصوف کو صرف اپنی فکر ہے اور اگر انہیں اقتدار مل گیا تو سارے ملک کو وہ اکیلے ہی کنٹرول کریں گے، ملک کے چیف جسٹس بھی وہ خود ہونگے اور ملک تمام صوبوں کی پولیس کی سربراہی بھی خود ہی کریں گے۔
دوسری طرف کینیڈوی سرکار مولانا صاحب اپنے جانثاروں کے ساتھ کنٹینر افروز ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹائون کی نسبت سے پنجاب حکومت کے اقدامات کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے۔ ماڈل ٹائون میں پنجاب پولیس نے جس بربریت اور ظلم کا مظاہرہ کیا، قانون کے رکھوالوں سے اسکی توقع بھی نہیں کی جاسکتی۔ لیکن مولانا صاحب کو بھی مریدین کے جذبات سے خوب کھیلنا آتا ہے۔ مریدین کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ کر انہیں مشتعل کردیتے ہیں اور پھر انقلاب کا نعرہ لگاکر ریاستی عمارتوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ گو کہ سانحہ ماڈل ٹائون کے ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج ہوچکی، مگر مولانا اپنی کروٹ بدلنے پر راضی ہی نہیں ہورہے۔
ایف آئی آر کے اندراج کے بعد اصولی طور پر مولانا کو اپنے معصوم مریدین کے ساتھ باعزت طور پر دھرنا ختم کردینا چاہیئے تھا، لیکن انقلاب کی ضد نے شدت پکڑلی۔ اگر مولانا کے انقلاب کے شوق نے پاکستان کو بہت بڑے نقصانات دیدیے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ کیا مولانا اپنی کینیڈوی شہریت کو رد کرکے پاکستان میں رہنے کا عزم کریں گے؟ اگر مولانا کو پاکستان سے اتنی ہی محبت ہے تو انہیں پاکستانی ہونے اور کہلوانے پر فخر ہونا چاہیئے۔ پاکستانی پاسپورٹ رکھنا چاہیئے۔ لیکن مولانا بضد ہیں کینیڈوی پاسپورٹ رکھنے پہ اور محب وطن پاکستانی کہلوانے پہ۔ یہ کھیل مجھ جیسے عام پاکستانیوں کے سمجھ سے باہر ہے۔
Imran khan
بظاہرتو یہی نظر آرہا ہے کہ کپتان اور مولانا کا دھرنہ ناکام ہوا۔ بظاہر کچھ حاصل نہیں ہوا لیکن سابقہ ایک ماہ کے عرصے میں ان دھرنوں نے عام پاکستانی میں سوچنے اور سمجھنے کا شعور بھی اجاگر کیا ہے۔ موجودہ سیاسی موسم کے اثرات نے جتنی فکری و علمی تربیت کی ہے وہ اب عام پاکستانیوں کے ذہنوں سے کھرچی نہیں جاسکتی۔ جمہوریت کے نام پر لا جمہوریت، اور جمہوریت کے خوشنما لبادے کے اندر چھپی خود غرضی، لا قانونیت، لوٹ گھسوٹ، انسان دشمنی کو جس طرح ننگا کیا گیا ہے اْسے اب کسی صورت چھپانا ممکن نہیں رہا۔ اسکے ساتھ ساتھ لوگوں کو انکے حقوق سے بھی اچھی طرح آشنا کروادیا گیا۔
آئین کی حقیقت لوگوں پر ظاہر کردی گئی۔ لوگوں میں اپنے حق کی طلب کے ساتھ ہی یہ اْمنگ و یقین بھی پیدا کیا گیا کہ وہ بہت بڑی اکثریت میں ہیں اور اپنے غصب شدہ حقوق بڑی آسانی سے واپس لے سکتے ہیں۔ یہ ان دھرنوں کی بڑی کامیابی ہے۔ اسکے علاوہ آپ نے یہ بھی دیکھا کہ اسلام اباد کی پولیس نے کس طرح مْلکی تاریخ کی جابر ترین حکومتِ وقت کے غیر قانونی احکامات مانے سے صاف صاف انکار کردیا۔ پولیس کے اعلٰی حکام نے پْرامن عوام پر جو اپنا حق مانگنے نکلے ہیں ظلم کرنے سے بہتر استعفٰی دینا یا رْخصت پر چلے جانا مناسب سمجھا۔ کیا یہ اصل جمھوریت کی طرف پیش قدمی نہیں ؟ جن سنگین ابتر حالات سے ہم گزر رہے ہیں کیا کبھی ماضی میں ایسا ہوا کہ فوج نے زرا سا بہانہ ملتے ہی شب خون نہ مارا ہو، اب یہ بات بذاتِ خود کتنی حوصلہ افزائاور ذہنی بالیدگی کی نشانی ہے
فوج ابھی تک سول سوسائٹی کی طرف دیکھ رہی ہے کہ اس گرداب سے نکلنے کا کوئی راستہ نکالیں۔ برائے مہربانی اس سارے معاملے کو کپتان یا مولانا کی حمایت و مخالفت کی عینک سے دیکھنے کی بجائے قومی تشخص کی عینک سے دیکھیں۔
ادھر وفاق میں دونوں بھائیوں اور حکومتی ارکان کو بھی اپنی ضد چھوڑ کر سیاسی اصلاحات پر عمل پیرا ہونے کی اشد ضرورت ہے۔ حکومتی ایجنڈے میں بہت سی اصلاحات کی گنجائش موجود ہے۔ وطن عزیز میں کرپشن ایک ناسور کی شکل اختیا کرچکا ہے۔ کرپٹ لوگوں کے کرتوت ہمارے پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کررہے ہیں۔ لیکن شاید کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ روپے پیسے کا کوئی وطن نہیں ہوتا، کوئی زبان ،کوئی رنگ، کوئی مذہب ،کوئی مسلک نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ سابقہ حکمرانوں سمیت موجودہ حکمران بھی اپنی رقمیں، اپنا سرمایہ، اس بارودی ماحول سے نکال کر محفوظ مقام پر لے گئے ہیں۔ ایک صرف سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں ہمارے سیاسی رہنمائوں کی دو سو ارب ڈالرز کی خطیر رقم پڑی ہے اور ہم ورلڈ بینک، آئی ایم ایف سے اسی پیسے کو بھاری سود ادا کرکے قرضے پر حاصل کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہرنیا پیدا ہونے والا پاکستانی بچہ پیدا ہوتے ہی کم از کم ایک لاکھ روپے کا مقروض ہوتا ہے۔ اگر عوام اپنی طاقت کو پہچان کر اپنے حق رائے دہی کو استعمال کریں تو شاید ہمارے حالات بہتر ہوجائیںاللہ ہمارے پاکستان کو سلامت رکھے۔ آمین۔