تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا پاکستان کا قیام کوئی اتفاق نہیں بلکہ اللہ پاک کا ایک عظیم تحفہ ہے یہ وہ تحفہ ہے جو عظیم و مقدس ماہ رمضان ِ کریم میں ملا، اس مقدس ماہ کو ملا جس میں اللہ پاک نے اپنی لاریب اور الہامی کتاب قرآن مجید نازل فرمائی اور اس عظیم الشان ماہ کی عظیم رات!ایسا کہاں سے لاؤں جیسی لیلة القدر ہے۔ اللہ رب العزت کا مسلمان مومنوں پر بہت بڑا احسان ہے جو ہم کو ” پیارے نبی ۖ کی پیاری امت میں پیدا کیا۔ کتنا بڑا احسان کیا جو غفور ، رحیم و کریم آقا سردار الانبیاء جناب ِ حضرت محمد ۖ کا امتی بنایا۔ اس امت محمدیہ ۖ پر اللہ تعالی کی ذات ِ عالیہ کا خصوصی کرم و فضل کا اندازہ لگانا کسی کے بس کی بات نہیں ، یہ پیارے نبی ۖ کی پیاری امت سے پیار کا منہ بولتا ثبوت ہے جو ” رمضان کریم عطا فرمایا۔ یہ سب محبوب خدا کی محبوب امت کو بخشنے کی ایک سبیل ہے جو رمضان جیسا مقدس ماہ عطا فرمایا۔
اسلامی جموریہ پاکستان دنیا کے نقشہ پر 27 رمضان 1366 ہجری کی مبارک رات دنیا کے نقشہ پر ابھرا ، اور دن مبارک جمة المبارک نہیں بلکہ رمضان کا آخری جمہ ۔ سبحان اللہ ! جیسا کہ پوری دنیا جانتی ہے کہ14 اگست 1947 کو اسلامی جموریہ پاکستان کا جنم دن ہے ۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان ستاویں شب یعنی لیلیة القدر والی رات نہیں بلکہ 26رمضان 1366 ھ بروز جمعرات معرض وجود میں آیا تھا ۔پاکستان کا قیام شب قدر، جمعہ الوداع ماہ رمضان المبارک 1366ھ بمطابق 14 اگست 1947ء عمل میں آیا۔ ظہور پاکستان کا یہ عظیم دن جمعہ الوداع ماہ رمضان المبارک اور شب قدر جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، محض اتفاق نہیں ہے بلکہ خالق و مالک کائنات کی اس عظیم حکمت عملی کا حصہ ہے جس سے رمضان، قرآن اور پاکستان کی نسبت و تعلق کا پتہ چلتا ہے۔ یہ شب عبادت، پاکستان کی سعادت پر اور یوم جمعہ الوداع اس مملکت خداداد کی عظمت پر دلالت کرتی ہے۔پاکستان کے لفظی معنی پاک لوگوں کی سر زمین ہے، پاک کے اردو اور فارسی میں معنی خالص اور صاف کے ہیں اور ستان کا مطلب زمین یا وطن کا ہےـ
1933ء میں چودھری رحمت علی نے دوسری گول میز کانفرنس کے موقع پر اپنا مشہور کتابچہ (Now or Never) اب یا کبھی نہیں شائع کیا جس میں پہلی مرتبہ لفظ پاکستان استعمال کیا گیا۔لفظ پاکستان اس وقت پانچ مسلم علاقوں کے ناموں کا سرنامیہ ہے۔ پ پنجاب، ا خیبر پختونخوا (افغانیہ)، ک کشمیر، س سندھ، تان بلوچستان۔ہیں بات ہو رہی تھی پاکستان کے معرض وجود میں آنے والی مبارک رات کی فضیلت کے بارے میں امام مالک رضی اللہعنہ فرماتے ہیں کہ حضورۖ نے جب پہلی امتوں کے لوگوں کی عمروں پر توجہ فرمائی تو آپ کو اپنی اُمّت کے لوگوں کی عمریں کم معلوم ہوئیں۔ آپۖ نے یہ خیال فرمایا کہ جب گزشتہ لوگوں کے مقابلے میں ان کی عمریں کم ہیں تو ان کی نیکیاں بھی کم رہیں گی۔ اس پر ا? تعالیٰ نے آپ کو شب قدر عطا فرمائی جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے (موطا امام مالک ص 260) حضرت مجاہد رضی ا? عنہ فرماتے ہیں کہ حضور کریمۖ نے بنی اسرائیل کے ایک نیک شخص کا ذکر فرمایا جس نے ایک ہزار ماہ تک راہ خدا کے لئے ہتھیار اٹھائے رکھے۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان کو اس پر تعجب ہوا تو ا? تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی اور ایک رات یعنی شب قدر کی عبادت کو اس مجاہد کی ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر قرار دیا (سنن الکبریٰ، بیہقی جلد 4، ص 306، تفسیر ابن جریر) شب قدر کی فضیلت احادیث کی روشنی میںحدیث شریف: حضرت انس بن مالک رضی ا? عنہ سے روایت ہے کہ حضورۖ نے ارشاد فرمایا۔ جب شب قدر ہوتی ہے، جبرئیل امین علیہ السلام ملائکہ کی جماعت میں اترتے ہیں اور ہر قیام و قعود کرنے والے بندے پر جو خدا تعالیٰ کے ذکر و عبادت میں مشغول ہو (اس کے لئے) دعا کرتے ہیں (بیہقی)شب قدر، قدر و منزلت والی رات ہے۔ اس رات کی بے شمار برکات ہیں۔ قرآن و حدیث میں اس رات کے بے شمار فضائل و برکات موجود ہیں۔ شب قدر کی ایک بہت بڑی فضیلت یہ ہے کہ اس کے متعلق قرآن کریم میں مکمل سورت نازل ہوئی ہے۔ رب تبارک و تعالیٰ اپنے کلام پاک میں فرماتا ہے۔ترجمہ: بے شک ہم نے اسے (قرآن کو) شب قدر میں اتارا اور تم نے کیا جانا کیا ہے شب قدر، شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر (ہے) اس میں فرشتے اور جبرئیل اترتے ہیں اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لئے۔ وہ سلامتی ہے صبح چمکنے تک (سورہ? قدر، پارہ 30) حدیث شریف: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور سیدعالمۖ نے فرمایا: جس نے لیلة القدر میں ایمان واحتساب کے ساتھ قیام فرمایا، اس کے گزشتہ گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں (بخاری شریف)ہم مسلمانوں پر اللہ پاک کا بہت فضل و کرم جس کا کوئی حساب و کتاب نہیں امت مسلمہ کو رمضان دے کر نفل کو فرض کے برابر اور پھر ایک فرض کو ستر فرضون کے برابر کر دیا۔ہزاروں کے حساب سے افطاری کے وقت جہنم سے آزادی کے پروانے مل جاتے ہیں ، برصغیر کے مسلم پر اللہ پاک کا خصوصی کرم و فضل ہوا کہ ہم کو آزادی ملی اور دنیا کے نقشہ پر نیا ملک ابھرا جس کو دنیا ” اسلامی جموریہ پاکستان ” کے نام سے جانتی ہے بلکل پاکستان کی مانند دنیا نے دیکھا چودہ سو سال قبل عرب کی سرزمین پر ایک نئی ریاست جس کو ہم مدینہ کہتے ہیں ابھری۔ چودہ سوسال قبل دنیا کے نقشہ پر ” مدینہ ” نام کی کوئی ریاست نہیں تھی جس طرح 14 اگست 1947 سے پہلے پاکستان نام کا کوئی ملک نہیں تھا۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ14 اگست 1947 کو 26رمضان 1366 ھ بروز جمعرات تھی۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان اور انڈیا اکٹھے آزاد ہوئے تھے 14 اور15 اگست1947 کو ہم چودہ کو اور انڈیا پندرہ اگست کو آزادی مناتا ہے ، کچھ دانشوروں نے لکھا ہے کہ پہلی جشن آزادی پاکستان نے 15 اگست 1947 کو بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے منائی تھی!گزارش ہے جو لوگ کہتے ہیں کہ پہلی جشن آزادی پاکستان نے 15 اگست 1947 کو منائی تھی وہ درست فرماتے ہیں 15 اگست 1947 کو کلینڈر دیکھیں دن بھی جمہ المبارک اور رمضان کی بھی ستائیسواں دن تھا جو لوگ جمہ اور جمعرات کی بحث میں تھے وہ درستگی کرلیں ، جو لوگ بابائے قوم کا فرماتے ہیں کہ پہلی جشن آزادی پاکستان نے 15 اگست 1947 کو آزادی منائی تھیان کے گوشہ گزار ہے کہ 14 اور15 اگست1947کی رات آزادی ملنے سے جشن 14 اور15 اگست کس دن ہو سکتا تھا کیا ، کیا 14 اور15 اگست1947کی رات کے بعد چودہ اگست کا دن آتا؟ کیا وہ بھول گئے ہیں ؟ قائد اعظم محمد علی جناح نے 1948 اگست کی چودہ تاریخ کو یوم پاکستان منایا تھا۔
جو لوگ کہتے ہیں کہ 14 اگست 1947 کو 26رمضان 1366 ھ بروز جمعرات تھی۔ سن لیں وہ ! ہم نے کب انکار کیا ہے؟ ویسے 26رمضان بروز جمعرات بمطابق 14 اگست 1947 شام کو 27 ویں رمضان کا چاند نکل آیاتھا۔ اور پھر پہلی برسی ثابت کرتی ہے کہ 27ویں رمضان بروز جمةالمبارک یعنی پاکستان کا قیام لیلة القدر کو ہوا تھا لہذا لیلة القد کی رات ہی لیلة الپاکستان ہے۔