لاہور (پ ر) دنیا بھر میں سول سروس کا امتحان کسی دوسری زبان نہیں بلکہ قومی زبان میں لیا جاتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار معروف دانشور ،سکالر اور یا مقبول جان نے پاکستان قومی زبان تحریک کی خصوصی نسشت سے خطاب کے دوران کیا۔انہوں نے کہا کہ انگریزی کے استعمال سے قوم احساس کمتری کا شکار ہو گئی ہے جبکہ انگریزی ذریعہ تعلیم کی وجہ سے تین بڑے ممالک واپسی کی طرف جا رہے ہیں۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان قومی زبان تحریک کے رہنما عزیز ظفر آزاد نے کہا کہ اس حقیقت سے انکار نہیں ہے کہ پاکستان مسلم قومیت کی بنیاد پر بنا ہے۔کسی پنجابی، بنگالی، پٹھان یا سندھی نہیں بلکہ مسلم قوم نے اس کی بنیا د رکھی ہے اور ہمیں بنیاد کی طرف لوٹنا ہے، انہوں نے کہا قومی زبان کا نفاذ آئین کا تقاضا ہے اگر اس عمل میں حکومت کو کسی دشواری کا سامنا ہے تو پاکستان قومی زبان اپنی تمام سفارشات پر کام مکمل کر چکی ہے اور حکومت وقت کے ساتھ تعاون کیلئے تیار ہے۔ انہوں نیکہا کہ ماہر لسانیات، ماہر تعلیم اور ممتاز صحافیوں پر مشتمل کمیٹیاں قائم کی جائے جو نفاذ اردو کے عمل کا جائزہ لیں اور اس امر میں حائل رکاوٹوں کو دور کر سکیں۔ معروف قانون دان اور عدالت عظمی میں اردو نفاذ کا مقدمہ لڑنے والے نامور ایڈووکیٹ کوکب اقبال نے کہا کہ قومی زبان کا مسئلہ صرف لسانی مسئلہ نہیں، یہ سراسر ہماری تہذیب و اقدار کا مسئلہ ہے۔ اردو کے نفاذ کیلئے قوم کو سڑکوں پر آنا ہو گا۔
سیاسی جماعتوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔نفاذ اردو،عملدرآمد میں تاخیر سے ہونے والی جائزہ نشست سے جنرل(ر) راحت لطیف نے اپنے خطاب میں کیا کہ نفاذ اردو کٹھن مرحلہ ہے اس تاثر کو ٹھوس منصوبہ بندی سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ قومی زبان ترقی کی شاہراہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین کی مثال پوری دنیا کے سامنے ہے۔حکومت کو اس عمل کو آگے بڑھانا ہو گا اور عملی کردار ادا کرنا ہو گا۔معروف صحافی ایثار رانا نے کہا کہ اردو میرے آبا? اجداد کی زبان ہے اور مجھے جتنا اپنے آبائو اجداد سے پیار ہے اتنا ہی اپنی زابن سے بھی پیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے زبان کے حوالے سے ہماری قوم احساس کمتری کا شکار ہے۔ان حالات میں پاکستان قومی زبان نے جو بیڑہ اٹھایا ہے وہ قابل تحسین ہے۔حجاز ہسپتال کی وائس چیئرمیں اور کالم نگار مسرت قیوم نے کہا کہ نفاذ اردو بھی اگر اورنج ٹرین منصوبہ کی طرح شروع کیا جائے تو عملدرآمد میں تاخیرکا جواز باقی نہیں رہے گا۔ تقریب سے پرفیسر سلیم ہاشمی، فاطمہ قمر، مجید غنی،خالد اعجاز مفتی،انجینئر منصور احمد،رانا امیر حسین، کاشف منظور،ڈاکٹر افتخار بخاری،جنرل(ر)لیفٹینینٹ افضل نجیب، ڈاکٹر محی الدین اور عالیہ زیب ظفر نے بھی خطاب کیا۔ تقریب کے اختتام میں قرارداد پیش کی گئی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ حکومت گزشتہ ماہ وزرات قانون کی جانب سے جاری ہونے والے نفاذ اردو کے مراسلے پر سست روی کا نوٹس لے۔ اجلاس کے شرکائ نے ہاتھ کھڑے کر کے متفقہ طور پر قرارداد منظور کی۔