25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت جو کہ نیا پاکستان کا انتخابی نعرہ لگانے والی جماعت تحریک انصاف کی ہے اور جس کے قائد جناب عمران خان صاحب ہیں جو کہ اپنی پختہ عزمی، سخت محنت، ایمانداری اور کچھ کر گزرنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ یہ انتخابات اس لئے بھی خوش آئند ہیں کہ پرامن طور پر تیسری دفعہ جمہوری انتقال اقتدار ہوا۔ عمران خان کی 22 سالہ جدوجہد کام آئی اور انکی جماعت برسر اقتدار آئی لیکن اب یہ سب ماضی ہو چکا ہے لوگوں نے عمران کی کرپشن و اقربا پروری کے خلاف کی گئی باتوں پر اعتماد کرتے ہوئے اسے اقتدار کے ایوانوں میں پہنچا دیا ہے۔
عمران خان کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے ۔ ہچکولے کھاتی معیشت، تباہ حال حکومتی اور ریاستی ادارے، بین الاقوامی طور پر تنہائی کا شکار ملک ، پڑوسی ملکوں کے ساتھ بہتر تعلقات ،بے روزگاری کا جن،شرمناک حدوں کو چھوتی ہوئی شرح خواندگی، بڑھتی ہوئی انتہا پسندی،پانی کی کمی اور اسکا تحفظ، ماحولیاتی تحفظ، سستی بجلی جو کہ گھریلو اور صنعتی صارفین کی ضرورت، کسانوں کی داد رسی ، ٹیکس اصلاحات، اسکی اپنی جماعت کے اندر کی کشمکش اور احتساب کو انتقام کا رنگ دینے والی حزب اختلاف۔ عمران خان نے قوم سے اپنے پہلے باضابطہ خطاب میں بہت اچھے طریقے سے مسائل کی نشاندہی کی اور قوم کو ایک استاد کی طرح مسائل سے آگاہ بھی کیا اور مسائل سے نکلنے کا پختہ عزم بھی کیا اور عوام کو اپنے ساتھ کھڑا ہونے کی تلقین کے ساتھ ساتھ انکو بہتر مستقبل کی نوید بھی سنائی ۔ ہر کوئی عمران خان کے پہلے خطاب پر داد تحسین دیتا نظر آیا ۔ ہر جگہ یہ بات ڈسکس ہورہی کہ عمران کی نیت اچھی ہے اللہ اسے کامیابی سے نوازے لیکن کیا صرف نیت اچھی ہونے سے عمران خان ان چیلنجز سے نبرد آزما ہوسکیں گے یا اسکے لئے ایک بہترین حکمت عملی اور میرٹ پر کیے گئے فیصلے عمران کو ان چیلنجز سے نبردآزما ہونے میں طاقت دیں گے ؟
یہاں سوال یہ ہے کہ عمران خان ایسا کیا کرے کہ وہ تاریخ میں بطور حکمران بھی یاد رکھا جائے ۔ عمران خان کو سب سے پہلے تو ہنگامی بنیادوں پر ٹیکس ریفارمز کرنا ہونگی اور ہر شخص کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہوگا اور اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ عوام کے ٹیکس کے پیسوں کا ضیاع نہ ہو اس نظام کو اتنا سادہ اور سہل بنانا ہوگا کہ عام لوگوں کو کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے اور عوام کے ٹیکس کا پیسہ عوام پرہی لگایا جائے اور ایک ایک پائی کا حساب رکھا جائے جو بھی بدعنوانی کرتے ہوئے پکڑا جائے اسے کیفر کردار تک پہنچایا جائے چاہے اسکا تعلق حزب اقتدار سے ہو یا حزب اختلاف سے۔
دوسرا اہم ترین کام عمران خان دنیا میں اپنا سوفٹ امیج پیش کرنا ہوگا اور مربوط اور مضبوط خارجہ پالیسی تشکیل دینی ہوگی کیونکہ اب 21ویں صدی میں تمام ممالک ایک دوسرے سے تعلقات میں اپنا مفادات کو دیکھتے ہیں دنیامیں ایک ذمہ دار اور خوددار ملک کا تصور ہی بیرونی سرمایہ کاری کا راستہ ہموار کرے گا اور وہ ممالک جن سے ہمارے اختلافات شدید ترین ہیں ان کو نیوٹرل کرنے کی کوشش کرے خاص طور پر بھارت، ایران اور روس سے بہترین تعلقات وقت کی اہم ضرورت ہیں جبکہ امریکہ سے بھی تعلقات کو جس نہج پر اب ہیں اس سے بہتر کرنا ہوں گے کیونکہ ہماری برآمدات کا ایک بہت بڑا حصہ امریکہ میں جاتا ہے جب تک متبادل ذرائع نہیں ” DEVELOP” ہو جاتے تب تک ہم کسی بھی قسم کے رومانس میں یا ایڈونچر میں مبتلا نہیں ہو سکتے اپنے زیادہ سے زیادہ دوست بنائے جائیں اور دشمنوں کے ساتھ دشمنی کو کم سے کم کیا جائے یہ آسان تو نہیں اور مجھے پتہ ہے کہ اس میں کس قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن اگر ابھی نہ ہوا تو کبھی نہیں ہوگااس لئے پورا زور لگانا ہوگا کیونکہ پچھلے 15 سالوں میں دنیا میں ہم اپنا موقف صحیح پیش نہیں کر سکے بلکہ یوں کہیے کہ ہم اپنا مقدمہ ہار رہے ہیں اس لئے ہنگامی طور پر یہ سب کرنا ہو گا۔
پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں تعلیمی اور صحت ایمرجنسی کا نفاذ کرنے والی ٹیم کو مکمل اختیار دے اور ماہانہ بنیادوں پر انکی کارکردگی کو مانیٹر کرے اور کسی بھی قسم کی کوتاہی اب عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز کرے گی کیونکہ پہلے ہمارا معاشرہ برادریوں پر مشتمل تھا لوگ سادہ زندگی گزارتے تھے اس لئے انکی ضروریات بھی مختلف تھی پچھلے کچھ عرصے میں شہروں کی بڑھتی ہوئی آبادی اس بات کی متقاضی ہے کہ اب بھرپور مہم شروع کی جائے اور تعلیم اور صحت عوام کو انکی دہلیز پر پہنچانے کے اقدامات کئے جائیں اور شہروں پر دباؤ کو کم سے کم کیا جائے۔
دیا میر بھاشا اور مہمند ڈیم کے لئے عمران خان کو خود اوورسیز پاکستانیوں سے فنڈز کی اپیل کرنی چاہئے کیونکہ جتنے وسائل ضرورت ہیں اسکے لئے ہمارے اوورسیز پاکستانی ہی ہماری امیدوں کا محور ہونے چاہئییں اور ہمارے سمندر پار پاکستانی وطن کی محبت سے کتنے سرشار ہیں یہ عمران خان بخوبی جانتے ہیں ضرورت صرف انکو امید اور حوصلہ دینے کی ہے اور ساتھ ہی ساتھ انکے مسائل پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
سرکاری اداروں میں عوام دوست رویہ اپنانے پر زور نہ صرف عمران خان کو مضبوط کرے گا بلکہ اس سے عوام کو بھی نئے پاکستان کا نعرہ شرمندہ تعبیر ہوتا نظر آئے گا اور وہ دلجمعی کے ساتھ ریاستی معاملات میں اپنا کردار ادا کریں گے جو کہ آج کے دور کا سب سے بڑا تقاضا ہے عوام اگر ریاستی معاملات سے بے زار ہوجائیں تو ملک ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں اور عمران نے عوام کو ایک امید دلائی ہے اور یہ امید بہت عرصے کے بعد قوم کو ملی ہے لہذا سرکاری اداروں میں بہتری کے لئے کسی قسم کی مصلحت سے کام نہ لیا جائے اور بلا تفریق تمام اداروں کو قانون کا پابند بنایا جائے۔
زراعت پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے لیکن اس ہڈی پر بہت عرصے سے کاری ضربیں لگائی جا رہی ہیں کسانوں کو جس حد تک ریلیف دیا جا سکے دیا جانا چاہئے اسکے ساتھ ساتھ دیہاتوں میں لوگوں کو ڈیری فارمنگ کی طرف راغب کیا جانا چاہئے اور ملک کولیکشن پوائنٹ بنائے جائیں خواتین کو بااختیار اور معاشی طور پر خود مختار ی بھی اس عمل سے دی جا سکتی ہے اور عوام کو غذائیت سے بھرپور دودھ حکومتی اداروں کی نگرانی میں پہنچایا جائے دودھ گھر وں میں سپلائی کرنے والوں کا پورا بائیو ڈیٹا اکٹھا کیا جائے اور ملاوٹ کرنے والوں کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے کیونکہ یہ ہماری اور ہمارے بچوں کی زندگیوں اور صحت سے کھلواڑ کر رہے ہیں لہٰذا اس حوالے سے کسی بھی قسم کی کوئی رعایت نہیں کی جانی چاہئے۔
جعلی ادویات اور جعلی کھانے پینے کا سامان روکنے کا اس سے آسان فارمولا ہو ہی نہیں سکتا کہ پرنٹنگ پریس مارکیٹ کو رجسٹر کرنے کے بعد اسی مارکیٹ میں ہی متعلقہ ادارے کے 3 افراد پر مشتمل ایک دفتر بنا دیا جائے اور اسکے سر بمہر لیٹر ہیڈ کے بغیر اس تمام میٹیریل پر پابندی لگادی جائے ۔ اسکی ڈیزائننگ، پلیٹنگ، پرنٹنگ، اور ڈائی و بائنڈنگ کا سارا کا چونکہ مارکیٹ کے بغیر ممکن نہیں اس لئے عوام کو ایسے بدعنوان اور بدکردار لوگوں سے بچانا اتنا مشکل نہیں ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سارے معاملے میں کسی قسم کی سفارش اور عذر کو قابل قبول نہ سمجھا جائے۔
یہ چند کام ایسے ہیں جو فوری طور پر توجہ کے متقاضی ہیں اگر آپ ان میں کامیاب ہو گئے تو یاد رکھیں تاریخ آپکو واقعی نئے پاکستان کے معمار کے طور پر یاد رکھے گی اور ایک مثالی حکومت کے لئے یہ کام بہت ضروری ہیں ۔ اگلے مرحلے میں آپ انتخابی نظام، بیوہ خواتین کی دادرسی، اور سستے گھروں پر کام کرسکیں گے اور اسکے لئے آپکو جو سرمایہ اور طاقت چاہئے ہوگی وہ آپکو مل چکی ہو گی۔