کیا بنے گا؟

Accountability

Accountability

تحریر : ایم سرور صدیقی

پاکستان میں لاکھوں قیدی جیلوں میں ہیں ان میں ہزاروں مختلف بیماریوں میں بھی مبتلا ہیں ان کو خوراک اور مناسب طبی سہولتیں بھی میسر نہیں ان کو انتظامیہ سے سینکڑوں شکایات بھی ہوتی ہیں وہ قیدی پھر بھی اس کا اظہار نہیں کرتے کہ جیل میں ان کی زندگی کا ذائقہ مزید تلخ ہونا یقینی ہوجاتاہے اور صبر شکر کرکے اپنی قیدکی مدت پوری کر نے کو ترجیح دیتے ہیں پھر ان قیدیوں کی اہلخانہ سے ملاقاتوں کی داستان ایک الگ کہانی ہے جس میں بے بسی ،۔اکثر ان کے بجٹ کو خوردبرد کرنے کی خبریں بھی اخبارات میں شائغ ہوتی رہتی ہیں یعنی ان کا کوئی پرسان ِ حال نہیں کیونکہ یہ پاکستان کے عام شہری ہیں جن کے حقوق کی آواز کوئی بلندنہیں کرتا کوئی صحافی ان قیدیوں کی حالت ِزارپر کوئی خبرفائل کرتاہے یا کسی ٹی وی چینل کر رپورٹ آتی ہے تو جیلر ناراض ہوجاتے ہیں حکومت کے سرسے پھر بھی کوئی جوںنہیںرینگتی لیکن جمہوریت کو ڈھال بنانے والوں کے سب گناہ اس لئے معاف ہوجاتے ہیں کہ وہ کسی نہ کسی اسمبلی کے” معزز” رکن ہیں خواہ وہ بدترین خائن ہی کیوں نہ ہو۔ ٹیکس چوری، بجلی چوری۔ گیس چوری، منی لانڈرنگ،زمینوںپر قبضے،شراب برآمدگی،ا خلاقی دیوالیہ پن سمیت مختلف نوعیت کے درجنوں مقدمات میں گوڈے گوڈے ملوث ارکان ِ اسمبلی کا کوئی کچھ نہیں بگا ڑ سکتا کیونکہ پاکستان کی مقدس کتاب ۔۔اس ملک کاآئین اس کو ٹیٹرا پیک سے بھی زیادہ تحفظ فراہم کرتا ہے۔

اس حوالے سے دوخبریں بڑی اہم ہیں ایک تو یہ ہے کہ سابق صدر آصف زرداری، فریال تالپور’ سعد رفیق’ حمزہ شہباز’ آغا سراج درانی اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے پروڈکشن آرڈرز کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا آصف نواز نامی شہری کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ احتساب عدالتوں نے ملزموں کو جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کیا، جبکہ متعلقہ اسمبلیوں کے سپیکرز نے ملزمان کے پروڈکشن آرڈر جاری کئے۔ سپیکرز کی جانب سے جاری پروڈکشن آرڈرز کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ پروڈکشن آرڈر انتظامی حکم ہے جو عدالتی احکامات سے بالاتر نہیں ہو سکتا، عدالتی احکامات کے ہوتے ہوئے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں ہو سکتے۔ عدالت سے ملزموں کے جسمانی ریمانڈ کے دوران جاری پروڈکشن آرڈر کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔ دوسری خبر انتہائی دھماکے دار ہے جس میں وفاقی کابینہ نے پروڈکشن آرڈرکے قانون میں ترمیم کی منظوری دے دی۔ منی لانڈرنگ اورکرپشن میں ملوث افراد کو پروڈکشن آرڈر جاری کر دیا جاتا ہے۔

وزارت داخلہ ہ صوبائی حکومتوں سے مل کر سب کے لئے یکساں قانون بنائے۔ طاقتور کیلئے قانون الگ اور غریب شہری کیلئے الگ قانون نہیں ہونا چاہیے جیلوں میں اے کلاس اور پروڈکشن آرڈر لے کر پارلیمنٹ آجانے والے پاکستان میں ایک عام قیدی کے منہ پر طمانچے مار رہے ہیں۔ جو لوگ پروڈکشن آرڈر لیتے ہیں، وہ بجٹ سیشن میں آئے اور زیرو ان پٹ دی جس کیلئے ان کو پروڈکشن آرڈر جاری کئے تھے، جیلیں عبرت کیلئے بنائی جاتی ہیں۔ مجرم کے دل کی دھڑکن کو ٹھیک رکھنے کیلئے 21ڈاکٹرز کی ٹیم ہے جو ان کے دل کی دھڑکن کو دیکھتی ہے، یہاں الٹ کام ہے، ایک بیمار کیلئے سو انار ہیں لیکن وہ مطمئن پھر بھی نہیں ہیں۔ لیکن وہ کونسا مریض ہے؟ جو سری پائے اور ہریسہ کھاتا ہے، یہ غذائیں دل کیلئے کسی صورت بھی مناسب نہیں ہیں اور حکومت کو ان کی صحت کا بڑا خیال ہے۔

اس کا مطلب ہے اب احتساب کا مزا آئے گا ورنہ اب تلک تو صورت ِ حال یہ تھی کہ کرپشن اور منی لانڈرنگ کے ملزمان کیلئے خصوصی کمرے تیارکئے جاتے رہے ہیں جہاں ریفریجریٹر،ائرکنڈیشنڈ،ٹی وی اخبارکی سہولت میسر تھی جیسے وہ سسرال آئے ہوئے ہوں تازہ ترین صورت ِ حال میں اپنے فضل الرحمن بھی کہہ اٹھے ہیں کہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کو قومی احتساب بیورو (نیب) کو ختم کرنے کا کہا تھا لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اور آج دونوں جماعتیں بھگت رہی ہیں۔ جبکہ نیب ڈمی ادارہ ہے جو مشرف کے وقت سے استعمال ہو رہا ہے، گرفتاریوں سے تحریکیں ختم نہیں ہوتیں بلکہ انہیں جلا ملتی ہے الزامات سے کوئی ڈاکو چور نہیں بنتا بلکہ چور ڈاکو عدالت سے ثابت ہوتا ہے۔

بہرحال نیب کے نرغے میں آئے ملزمان کو بھی حالات کا اندازہ ہورہاہوگا کہ نیا پاکستان انہی کیلئے بناہے اگر حکومت سے مکا مکا نہ ہو یا این آراو نہ ملاتو کہیں انجام عبرتناک ہی نہ ہو سیاست میں تو کہاجاتاہے کہ پہلے مخالف کو خوب ڈرایا جاتاہے وہ نہ ڈرے تو ڈرانے والا خودڈرجاتاہے اب تلک کی پاکستانی سیاست تو یہی ہے سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان میںلاکھوں قیدی جیلوں میں ہیں ان میں ہزاروں مختلف بیماریوںمیں بھی مبتلاہیں ان کو خوراک اور مناسب طبی سہولتیں بھی میسر نہیں ان کو انتظامیہ سے سینکڑوں شکایات بھی ہوتی ہیں وہ قیدی پھر بھی اس کااظہار نہیں کرتے کہ جیل میں ان کی زندگی کا ذائقہ مزید تلخ ہونا یقینی ہوجاتاہے اور صبر شکر کرکے اپنی قیدکی مدت پوری کر نے کو ترجیح دیتے ہیں لگتاہے اب ان قیدیوںکی سنی گئی ہے اب حالات بدل رہے ہیں پاکستان عمران خان کی کوششوںسے کتنا بدلا ہے اس کا فیصلہ وقت کرے گا۔ ویسے نیب کے درجنوں ملزمان یہ سوچ سوچ کرہلکان ہوئے جارہے ہیں اب کیا بنے گا اور جن کے گھروںسے آنے والے کھابے بندکردئیے گئے ہیں وہ چنددنوںتک پلی بارگین پرمجبورہوجائیں گے خدا اتنا بھی کسی کو مجبورنہ کرے۔

M Sarwar Siddiqui

M Sarwar Siddiqui

تحریر : ایم سرور صدیقی