تحریر: سید انور محمود سترہ ستمبر 2016 کی رات اڑی سیکٹر میں بھارتی فوج کے سیکورٹی کے اعتبار سے انتہائی مضبوط بریگیڈ ہیڈکوارٹر پر حملہ بھارت کا اپنا رچایا ہوا ٹوپی ڈرامہ تھا۔ اڑی میں صرف چار حملہ آوروں نے پورے بھارتی بریگیڈ کوپانچ گھنٹے تک یرغمال بنائے رکھا۔اڑی حملہ کے فوراً بعد بھارت نے کوئی تحقیق کئے بغیر پاکستان پر الزام لگانے میں جو تیزی دکھائی اس سے تجزیہ کاروں کی اس رائے میں بڑا وزن ہے کہ یہ خود بھارت کی سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے حملہ آوروں کے مارے جانے سے پہلے بھارت کو یہ تفصیلات کس نے مہیاکیں کہ‘‘حملہ آور آزاد کشمیر سے کنٹرول لائن کی آہنی باڑ توڑ کر ایک ندی پار کرکے ہتھیاروں سمیت بریگیڈ ہیڈ کوارٹر میں داخل ہوئے تھے۔ بھارت نے پٹھانکوٹ ایئر بیس پر حملے کے دوران ہی واویلا شروع کردیا تھا کہ اس میں پاکستان کا ہاتھ ہے، بعد میں بھارت کی اپنی انٹیلی جنس ایجنسی نے تحقیق کی تو تصدیق کردی کہ اس واقعہ میں پاکستان یا اس کی کسی ایجنسی کے ملوث ہونے کے کوئی شواہد نہیں ملے۔اڑی حملہ کا الزام لگانے کا مقصد پاکستان کو دہشت گردی کے لئے بدنام کرنا تھا اور جنرل اسمبلی میں وزیراعظم نواز شریف کے خطاب کی اہمیت کو کم کرنا تھا۔
وزیراعظم نواز شریف کی اقوام متحدہ میں تقریر کے بعد بھارت نےاپنے ساتھ بنگلہ دیش، بھوٹان اور افغانستان کو ملاکرسارک کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا، ظاہر ہے اس کےبعد سارک کانفرنس کا ہونا ممکن نہ تھا۔ سارک کو قائم ہوئے اکتیس سال سے زیادہ ہوگئے لیکن یہ تنظیم عملی اعتبار سے وہیں ہے جہاں اپنے قیام کے وقت تھی۔ سارک تنظیم کو سب سے زیادہ نقصان بھارت کی وجہ سے ہورہا ہے، سارک تنظیم کے ممبران میں بھارت زمینی اور آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک ہے، اس وجہ سے وہ اپنے آپ کو علاقے کا تھانیدار سمجھتا ہے۔ پاکستان میں سارک کانفرنس نہ ہونے وجہ یہ ہے کہ ہندوستان کے سیاسی رہنما بہت ہی تنگ نظر ہیں، ان سے وسیع القلبی اوردور اندیشی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔بھارت نے اس کانفرنس کو ملتوی کرواکر پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کی 22 ستمبر کواقوام متحدہ میں کی ہوئی تقریر کابدلہ لیا تھا،جس میں پاکستانی وزیر اعظم نے اس سال 8 جولائی 2016کے بعدسے اب تک جو بھارتی مظالم مقبوضہ کشمیر میں ہوئے ہیں، اس کا پردہ چاک کردیا تھا، خارجہ پالیسی کے حساب سے وزیراعظم کی تقریر بہت اچھی تھی، لیکن سارک کانفرنس منسوخ ہونا بھارت کی سیاسی محاز پرایک بڑی کامیابی تھی۔اس کے بعد ہماری وزارت خارجہ کوبھارت کے خلاف سفارتی پنجہ لڑاتے ہوئے نہیں دیکھا گیا، ہاں ہمارئےمشیر خارجہ سرتاج عزیز نے اپنی ناکامی یہ کہہ کر قبول کرلی کہ اگر ‘‘ڈونلڈٹرمپ مسئلہ کشمیر حل کرادیں تو انہیں نوبل انعام مل سکتاہے’’، اب یہ پتہ نہیں چل سکا کہ سرتاج عزیزنوبل انعام کمیٹی کے چیرمین کب بنے۔
مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے جمعرات 9 جون 2016 کی پریس کانفرنس میں کہا تھاکہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا مرکز و محور ملک کی معاشی ترقی، پڑوسیوں کے ساتھ پرامن تعلقات، اور اسلامی دنیا سے اٹوٹ اور مضبوط تعلقات ہیں۔ جبکہ وسطی ایشیائی ریاستوں، روس اور امریکہ سے اچھے تعلقات پر مبنی معاشی مفادات ہماری خارجہ پالیسی کے خاص رہنما اصول ہیں۔ اس پریس کانفرنس سے پاکستان کے عوام کو یہ بھی پتہ چلا کہ بقول مشیر خارجہ ‘‘پاکستان کو باقاعدہ کل وقتی وزیر خارجہ کی قطعی ضرورت نہیں ہے’’۔ سرتاج عزیز نےشاید یہ بات اس وجہ سے بھی کہی ہوگی کیونکہ وہ خود عوام سے منتخب شدہ نمائندئے نہیں ہیں۔دوسرئے ان کا کہنا تھا کہ ’’بھارت کے ساتھ پاکستان کے جو تحفظات ہیں اس کےلیے پائیدار امن اورمسئلہ کشمیر کا حل ہونا ضروری ہے‘‘، مشیر خارجہ تو کچھ نہیں کرپائے انتظار کریں اگرڈونلڈ ٹرپ ان کی نوبل پرائز کی پیشکش قبول کرلیں تو مظلوم کشمیری عوام انہیں دعاضرور دینگے۔ تیسری بات جو انہوں کہی کہ’’امریکہ موقعہ پرست دوست ہے، اسکی سٹرٹیجک پارٹنرشپ پاکستان کے ساتھ، نوازشات انڈیا کے ساتھ ہیں‘‘۔یہ بھی مشیر خارجہ کا اپنی ناکام خارجہ پالیسی کا کھلا اقرار ہے۔ کمال ہے انہیں 88 سال کی عمر میں پتہ چلا، جبکہ عام پاکستانی کو بہت چھوٹی عمر میں یہ پتہ ہوجاتا کہ ’’امریکہ موقعہ پرست دوست ہے‘‘ ہر بچے کو اس کے ابا بتاتے ہیں کہ بیٹا امریکہ سے تعلقات کی وجہ سےآج تم سمیت پوری قوم فی فرد 1 لاکھ 20 ہزار روپےکی مقروض ہے اور بیٹا جب میں بھی پیدا نہیں ہوا تھا تب 1971 میں امریکہ کے وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے پاکستانی صدر یحییٰ خان کو پیغام بھیجاتھا کہ مشرقی پاکستان میں کچھ دیر اور ڈٹے رہیں، ہم ساتواں بحری بیڑہ بھیج رہے ہیں لیکن اس کی آمد میں 36 گھنٹے لگ سکتے ہیں، لیکن ساتواں بحری بیڑہ 36 سال بعد بھی نہ آیا۔
Sartaj Aziz
چلیں بھارت کے شہر امرتسرچلتے ہیں جو پاکستانی پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے صرف 28 کلو میٹر(17.4میل) دور واقع ہے۔ امرتسرمیں موجودگولڈن ٹیمپل سکھ مذہب کی ایک مقدس عبادت گاہ ہے۔اسی شہر میں چاردسمبر 2016 کو ہارٹ آف ایشیا کانفرنس منقعد ہوئی جس میں پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے شرکت کی تھی۔ اس کانفرنس میں سرتاج عزیز کو جانا چاہئے تھا یا نہیں یا اس کانفرنس میں پاکستان کو کیوں شرکت کرنا پڑی، یا پاکستان کو کیا فائدہ یا کیا نقصان ہوا اس کے لیےایک علیدہ مضمون کی ضرورت ہےجوجلدہی لکھونگا۔اس کانفرنس سے پہلے بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے 9 اور10 نومبر کو پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں ہونے والی سارک کانفرنس ملتوی ہوچکی تھی۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیز کانفرنس سے ایک دن پہلے بھارت پہنچ کر بھارتی وزیراعظم کے ساتھ لنچ میں شامل ہوئے، لنچ میں دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کے ذاتی تعلقات کو میڈیا میں زیادہ نشر کیا گیا۔ بھارت نے ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز اور ان کے ساتھ جانے والے 12 پاکستانی صحافیوں کے ساتھ ہر طرح کے سفارتی آداب اور اخلاق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جو سلوک کیا وہ بہت زیادہ قابل مذمت ہے۔ سیکورٹی کے نام پر پاکستانی وفد کی قیادت کرنے والے سرتاج عزیز کو پریس کانفرنس سے روکنے کے ساتھ ساتھ گولڈن ٹیمپل کا دورہ کرنے سے بھی روک دیا ۔ کانفرنس سے ایک دن پہلے جانے والے سرتاج عزیز اس بدسلوکی پر پروگرام ختم ہونے سے ایک دن پہلے ہی پاکستان لوٹ آئے۔
پاکستان کی 31 جماعتوں نے اسلام آباد میں اکٹھے ہو کر کہا تھا کہ اس کانفرنس میں شرکت نہیں کرنا چاہیے اور صاف طور پراس کا اعلان بھی کیا جانا چاہیے۔ ان جماعتوں میں حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے اہم رہنما ، کشمیری تنظیموں کے علاوہ سندھ اور بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کی نمائندگی بھی شامل تھی۔حکومت نے ان جماعتوں کی رائے کو کوئی اہمیت نہ دی۔ افغانستان نے بھی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے موقع پر اپنی بھارت میں موجودگی کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور پاکستان کو بھارتی زبان میں جواب دیا۔ افغان صدر نے کہا ہے کہ پاکستان نے افغانستان کی تعمیر نو کے لیے پانچ سو ملین ڈالر کی امداد کا وعدہ کر رکھا ہے لیکن بہتر ہو گا کہ یہ رقم پاکستان میں دہشت گرد گروہوں کے خلاف استعمال ہو۔ پاکستانی مشیر خارجہ کو براہ راست مخاطب کرکے افغان صدر نے کہا کہ ’’مسٹر عزیز، یہ رقم انتہاپسندی کی روک تھام کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے‘‘۔پاکستان کی مخالف میں بولتے ہوئے افغانستان کے صدر اشرف غنی کے بارئے میں کانفرنس کے کچھ شرکا کہنا تھا کہ افغان صدرمکمل طور پر بھارت کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ اشرف غنی کہنا تھا کہ پاکستان ساتھ یہ سلوک کرنا ضروری تھا لیکن سرتاج عزیز بھارت میں اپنی بےعزتی ہونے کے باوجود بھی اس کانفرنس سے مطمین ہیں۔ (جاری ہے)