پی ٹی آئی کے جلسے میں 7 پاکستانی ناکامی کی زندگی گزار کر نظام تبدیل کرنے کی جدوجہد میں کامیاب شہادت پاگئے۔افسوس کہ کتوں کو شہید کہنے والے انسانوں کو ہلاک پکار رہے ہیں۔شہید ہونے وزیراعلیٰ ،وزیراعظم یا صدر کے اُمیدوار نہیں بلکہ عام پاکستانی تھے اس لئے راقم اُن کو شہید کہہ رہا ہے ۔وہ بے حسی کا نظام بدلنا چاہتے تھے۔ اُن کولگا کہ عمران خان کی قیادت میں پاکستان بہتری کی طرف جاسکتا ہے تویہ کوئی جرم بھی نہیں جمہوریت اسی کو کہتے ہیں کہ جس کا ضمیر جہاں چاہئے وہ وہاں ووٹ اور سپورٹ کرے۔مخالفین کچھ بھی کہیں ہم بات کرتے ہیں بلا امتیاز اور آج کی بات یہی ہے کہ عمران خان کے دھرنے اور جلسوں میں شامل ہونے والے عوام تبدیلی چاہتے ہیں جن کو بڑی تعداد میں خاموش اکثریت کی حمایت بھی حاصل ہے۔
سابق گورنر پنجاب لطیف کھوسہ نے ایک اہم بیان میںاُس تبدیلی کانقشہ بھی واضع کردیا ہے۔اُن کا کہنا ہے کہ آئندہ سال انتخابی اصلاحات کے بعد قبل از وقت انتخابات ہونگے ۔یوں توبہت سے نجومی بہت سے انکشافات کرتے رہتے پر میں سمجھتا ہوں کہ لطیف کھوسہ سنجیدہ سیاست دان ہیں۔ قبل از وقت انتخابات ہوتے ہیں یاپھر لمبے عرصے کیلئے انتخابات کا باب بند ہوجائے گا اس بات کا فیصلہ آنے والا وقت ہی کرے گا۔آج اس بات کا رونا ہے کہ ہم سب کامیاب اور ہمارا وطن ناکام ریاست بنتا جارہا ہے۔آپ جانتے ہیں کہ انتہائی مشکل حالات اورناسازگار ماحول کے باوجود حکمران کامیابی کے ساتھ حکومت چلارہے ہیں
جبکہ تحریک انصاف دھرنوں کے ساتھ کامیاب جلسوں کا سلسلہ بھی شروع کرچکی ہے،کراچی ،لاہور ، میانوالی اور ملتان جہاں شہیدوں کا لہو بھی شامل ہوگیا بڑے بڑے رکارڈٹور جلسے بہر صورت اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ لوگ حکومت سے نالاں ہیں ۔علامہ طاہرالقادری انقلابی منشور کو انتخابی شکل دے چکے ہیں ۔چاروں طرف یہی بحث جاری ہے کہ قبل از وقت عام انتخابات ہونے والے ہیں۔تحریک انصاف کی دھرنا پالیسی میں جلسہ ترمیم نوٹیفکیشن اور پھر اُس پر فوری عمل درآمد بھی اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ بقول جاوید ہاشمی بہت سے دیگر اشاروں کی طرح عمران خان کو کسی نے قبل از وقت الیکشن کا اشارہ دے دیا ہے۔تحریک انصاف کے پیپلزپارٹی اورخاص طورپرن لیگ کی جانب سے شروع ہونے والا جلسہ سسٹم بھی قبل وقت الیکشن کی طرف توجہ دلاتا ہے۔
نجانے کیوں راقم کویہ تمام کامیاب سیاست دان بشمول حکمران جیل کی سلاخوں کے پیچھے نظر آرہے ۔اللہ تعالیٰ میرے وطن کی خیر اور میرے عزیز سیاست دانوں پر بھی رحمت فرما۔ماضی کی طرح آج بھی حکمران نام نہادجمہوریت کے حق میں صرف بیانات سے کام چلا کر اپنے آپ کو بری ذمہ کررہے ۔بندہ پوچھے اخبار میں چھپے بیان سے کسی بے روز گار کو روزگار میسر آسکتا ہے؟؟کسی بھوکے کو پیٹ پھر کھانا مل سکتا ہے؟؟کسی بیمار کو میڈیکل کی سہولت میسر آسکتی ہے؟؟کسی ماں کو اس کا بیٹا جسے ٹار گٹ کلنگ کھا گئی ہوواپس مل سکتا ہے؟ عام آدمی اس لیے زیادہ پریشان ہے کہ آٹا بہت مہنگا ہوگیا جبکہ حکمران بغیر جمہور ،جمہووریت بچانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔14 اگست 2014ء سے آج تک کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو حکومت نے بڑی سمجھداری کے ساتھ دھرنے والوں کو اُن کے تمام مقاصد سے دوررکھاہے۔
حکومت کی ایک بڑی کامیابی یہ رہی کہ باغی لوٹ آیا ۔جاوید ہاشمی بڑے قابل احترام ہیں اس لئے راقم اُن کو لوٹا نہیں کہہ سکتا اور پھر اس بار تو انہوں نے جمہوریت کی کامیابی کیلئے تحریک انصاف جو حکومت حاصل کرنے کیلئے دھرنوں اور جلسوں میں اُلجھی ہوئی ہے کی صدارت ٹھکرا کرحکومت وقت اوراپنے پرانے قائد میاں نوازشریف کا ساتھ دیا ہے۔مسلم لیگ ن یقینا باغی کا پرانا گھر ہے اور وہ اس گھر کی درودیوار سے اچھی طرح واقف بھی ہیں۔
Allama Tahir ul Qadri
حکمران بھی کامیاب ،عمران خان اور علامہ طاہرالقادری کے دھرنے اور جلسے بھی کامیاب ،باغی کی بغاوت بھی کامیاب رہی اور ماضی کی طرح اس سال بھی سیلاب انتہائی تیزی کے ساتھ اضافی تباہی مچاتا ہوا کامیابی کے جھنڈے گاڑ گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا کہ سب کامیاب رہے تو پھر ناکام کون ہوا؟میرا جواب ہے ملک اورعوام تیزی کے ساتھ ناکامی کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ناکام ہوئے مہنگائی،بے روزگاری ،بدامنی،ناانصافی ،لوڈشیڈنگ کی چکی میں پسے اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث کھلے آسمان تلے بے یارومددگار پڑے عوام۔یہ وہی عوام ہیںجو انتخابات میں کامیابی کے ساتھ اپنے نمائندے منتخب کرتے وقت یہ نہیں سوچتے کہ جن کوووٹ ڈال رہے ہیں وہ اُن کے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں یا نہیں۔
حقیقت یہی ہے کہ ہمارے حکمران ملک و قوم کو درپیش مسائل حل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے ورنہ 67سال سے مسائل میں اضافہ نہ ہوتا ۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہم پھر بھی کامیاب ہیں۔ویسے یہ حیرت کی بات نہیں کہ حکومت اور مخالفین دونوں ایک ہی وقت میں کامیاب رہے۔یہاں تو قصہ کچھ یوں ہے کہ ہر فرد اپنی کامیابی کے گیت گنگناتا ہوا سوجاتا ہے ۔وطن عزیز میں کوئی ایسا فرد نہیں جس نے اپنے پیچھے کامیابی کی ہزاروں ،لاکھوں داستانیں نہ چھوڑی ہوں ۔حیرت تو اس بات پر ہے کہ جب ہر فرد کامیاب ہے تو ملک وقوم کیوں ناکامی کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں؟باغی بتائیں کہ وہ جس حکومت اور جماعت کے خلاف 2013ء کا الیکشن لڑے اور پھر احتجاجی دھرنوں اور جلسوں میں شامل رہے
آج وہ قائدین اور جماعت دودھ دھلے کیسے ہوگئے ؟مسلم لیگ ن سے بغاوت کرکے تحریک انصاف کے صدر بنے اور تحریک سے انصاف سے بغاوت کرکے پھر سے مسلم لیگ ن کی چھتری تلے پناہ لے لی،باغی جی یہ کیا گورکھ دھندہ ہے؟ جماعتوں اور قائدین سے بغاوت کرنے والا کبھی ظلم کی حکمرانی، مہنگائی، ناانصافی، بدامنی، سودی نظام، جاگیردارانہ نظام، کرپشن،چور بازاری، اقرباء پروری، رشوت، سفارش اور دیگر بد اعمالیوں سے بھی بغاوت کرتا تو تیری بغاوت سمجھ آتی ۔جس نوازشریف کو بدعنوان کہہ کر 2013ء کا الیکشن لڑا 2014ء اُسی نواز شریف کی تصویر دیکھا کر ووٹ مانگ رہے ہو۔
یہ دو رخی بغاوت ہمیں بس یہی بتا رہی ہے کہ یہ باغی نہیں مفاد پرست ہے جہاں سے مفاد حاصل ہوتا نظرآتاہے وہاں کا ہولیتاہے۔تمام تر صوتحال کے باوجود میں اپنے محترم جاوید ہاشمی کو لوٹا نہیں کہہ سکتا پر لوٹ آیا ضرور کہ سکتا۔لوٹا اور لوٹا ایک ہی پڑھے جاتے ہیں اس لئے مجبوراً لوٹ آیا کا لفظ استعمال کررہا ہوں۔خیر جی ہمیں اس بات پر فخر ہونا چاہئے کہ ہمارے حکمران بھی کامیاب،ہمارے دھرنے اور جلسے بھی کامیاب اور ہمارا باغی بھی کامیاب لوٹ آیا ہے:
Imtiaz Ali Shakir
تحریر:امتیاز علی شاکر:لاہور imtiazali470@gmail.com.03154174470