تحریر : محمد قاسم حمدان جب امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن اپنا ڈومور ایجنڈا لئے اسلام آباد میں لینڈ کر رہے تھے تو امریکہ میں پاکستان کی تقدیر کے حوالے سے تھینک ٹینکس کے گرما گرم مباحثے جاری تھے ۔ایسا ہی ایک مباحثہ پاکستان سے کیسے نمٹا جائے کے عنوان سے یو ایس انسی ٹیوٹ فار پیس کے زیر اہتمام منعقد ہوا جس میں نائب وزیر خارجہ رابن رافیل سمیت کئی سابق امریکی عہدیداروں نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔ تقریبا سبھی اس بات پر متفق تھے کہ دونوں ملکوں کو سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔ امریکہ کے لئے سنجیدہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ پاکستان سے کہے کہ آپ وہ کریں جو ہم چاہتے ہیں ۔دوسری طرف پاکستان کا یہ ردعمل درست نہیں کہ ہمیں امریکیوں کی ضرورت نہیں اور یہ کہ ہم روس اور چین سے دوستی بڑھائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کے تحفظات کو سنے اور ساتھ ہی پاکستان کو حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کے لئے آمادہ کرے کیونکہ حقانی نیٹ ورک کو ختم کئے بغیر افغانستان میں قیام امن کی کوششیں بے سود ہیں۔ امریکہ کی بدحواسی سے صاف ظاہر ہے کہ امریکہ افغانستان میں آئے روز بری طرح ایک دلدل میں دھنستا جا رہا ہے۔ طالبان پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہو چکے ہیں اب تو ان کی یلغاروں سے کابل بھی محفوظ نہیں رہا ۔ریکس ٹیلرسن سے قبل امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس جب امریکی میرینز کے حصار میں جکڑے بگرام ائیرپورٹ پر اتر رہے تھے تو ہر طرف میزائیل برس رہے تھے ۔جیمز میٹس بمشکل دو گھنٹے وہاں رہ پائے اور پھر الٹے پاوں بھاگے کہ جان بچی سو لاکھوں پائے ۔ریکس ٹیلرسن نے بھی اپنے دورہ کابل کو بہت خفیہ رکھا لیکن پھر بھی انہیں پندرہ کیڈٹس کی موت کے ساتھ طالبان نے سلامی پیش کی۔
ٹیلرسن امریکی اڈے سے باہر نکل کر اپنی مفتوحہ راجدھانی کابل کے خوشگوار موسم سے لطف اندوز ہونے کی جسارت بھی نہکرسکے حالانکہ سولہ ممالک کی تربیت یافتہ افواج موجود تھیں ،یہ فرق ہے ہماری افواج اور ان کی افواج میں ۔شہادتوںسے ہمار یجوانوں کے حوصلے بلند ہوتے ہیں۔امریکیو ں کی شجاعت کا عالم یہ ہے مگر وایسرائے بن کر وہ پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانا چاہتے ہیں۔ طرفہ تماشہ یہ کہ اس بکرے کی گردن پر چھری بھی بھارت سے پھروانا چاہتے ہیں ۔اچھا ہوا جنرل قمر جاوید باجوہ نے مطلع آبر آلود ہونے سے پہلے ہی سب کی آنکھیں کھول دیں کہ اب ڈو مور کرنے کی باری پاکستان کی نہیں بلکہ دنیا کی ہے امریکہ کا ماضی وحال اس بات کاشاہد ہے کہ اس نے ہمیشہ اپنے مفادات کی خاطر اپنے دوستوں کوٹشو پیپر سے زیادہ اہمیت نہیں دی ۔62کی جنگ میں جب چین نے بھارت کو اس کی نانی یاد کروا دی تو پھر چین کا بہانہ بنا کر امریکہ نے بھارت کو گلے تک اسلحہ سے بھر دیا ۔پاکستان جو ہندو کی فطرت سے بخوبی آگاہ ہے اس نے بار بار اہنے خدشات کا بر ملا اظہار کیا لیکن اس کی شنوائی نہ ہوئی۔
بالاخر 65میں بھارت نے اسی اسلحہ سے پاکستان کے خلاف بد ترین جارحیت کا ارتکاب کیا اس نازک گھڑی میں جب امریکہ کو ہمارے ساتھ کھڑا ہو کر دوستی کا حق ادا کرنا تھا اس نے پاکستان کو اسلحہ دینے پر ہی پابندی لگا دی۔71میں ہم اس کے ساتویں بحری بیڑے کو دیکھنے کے لئے ترستے رہے ،بڈھ بیر کے واقعہ پر ہماری سلامتی پر روس نے سرخ دائرہ لگا دیا تھا یہ الگ بات ہے کہ روس سرخ دائرے پر سرخ نظام کے لئے افغانستان کے پہاڑوں میں ہی سر پٹختا رہ گیا اور پاکستان نے اس سرخ ہاتھی کی سونٹھ کاٹی تو دو درجن سے زیادہ ملکوں کو آزادی کی صبح دیکھنا نصیب ہوئی۔ یہی موقع تھا جب امریکہ دوست کے روپ میں اپنے سارے مقاصد حاصل کرسکتا تھا لیکن اس نے اپنی دوستی کا صلہ ہم پر اقتصادی پابندیوں کی صورت میں دیا ۔9/11کے بعد پاکستان نے کیا کچھ نہیں کیا لیکن آج اسی پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرنے کی بجائے اسے دھمکیاں دی جارہی ہیں اور بھارت کو ہم پرمسلط کرنے کی وعیدیں سنائی جا رہی ہیں۔
امریکہ افغانستان میں 783ارب ڈالر کے اخراجات اور ایک لاکھ سے زاہد امریکی فوجیوں کے 14سالہ قیام اور آپریشنز کے بارے میں کوئی بات کرنے اور امریکی ناکامی کو زیر بحث لانے کو تیار نہیں۔ حقانی نیٹ ورک ان کے اعصاب پر بھیانک خواب کی طرح سوار ہے مگر حقائق یہ ہیں کہ حقانی نیٹ ورک کا پاکستان میں تصور بھی محال ہے۔ دنیا امریکہ سے پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ اگر افغانستان کے45%علاقے پر امریکہ اور افغان حکومت کا کنڑول ہی نہیں تو کیا اس کا ذمہ دار بھی پاکستان ہے ۔اس 45فیصدپرایک متوازی حکومت ہے اسی کا حصہ حقانی نیٹ ورک بھی ہو سکتا ہے ۔ایسا مسئلہجو پاکستان کی سرحدوں سے کوسوں دور ہے،اس جنگ میں پاکستان کو کیوں ڈومور کے نام سے جھونکا جا رہا ہے۔ اگر امریکہ پاکستان پر دباو ڈالنے اور اس کی راہ میں کانٹے بھارت کے افغان کردارکی صورت میں بچھانا چاہتا ہے تو پھر بھارت کو اس بات پر آمادہ کرے کہ وہ افغانستان کے اس 45فیصد علاقے کو واگذار کرانے ،حقانیوں کو ملیا میٹ کرنے کے لئے اپنی فوج افغانستان میں اتارے ۔پاکستان سے تعلقات کو مشروط کی آہنی زنجیر پہنانے کی بات تو ہوتی ہے، ڈو مور نہ کرنے کی صورت میں اس کی سول وفوجی امداد ختم کرنے اور نان نیٹو اتحادی کا سٹیٹس واپس لینے کی بات ہوتی ہے ،بھارت سے یہ تقاضا کیوں نہیں کیا جاتا کہ افغانستان میں دشمن کو شکست دینے کے لئے وہ اپنی سینا کو لے آئے تاکہ امریکہ بہادر کی پیشانی پر لگا ذلت آمیز شکست کا داغ دھل جائے۔
افغانستان میں بھارت تعمیر وترقی کے نام پر آکاس بیل کی طرح ا پنی جڑیں پھیلا رہا ہے ۔پاکستان کے بارڈر کے ساتھ اس کے نام نہاد قونصل خانے ہیں جہاں دہشت گرد تیار کر کے بلوچستان میں قتل وغار ت ہوتی ہے ۔بھارت اس وقت افغانستان میں سب سے بڑا منشیات مافیا اور ڈان بھی ہے اس کالے دھن سے وہ ایک طرف بلوچستان اور دوسری طرف کشمیر میں تحریک آزادی کو کچلنے کے درپے ہے ۔بھارت انٹیلی جنس اور دیگر طریقوں سے افغانستان میں تعمیر وترقی کی آڑ میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ بھارت امریکی چولی کے پیچھے چھپ کراپنی کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن لڑنا چاہتا ہے۔ انڈیا کو بخوبی علم ہے کہ جس دن اس نے افغانستان میں اپنی فوجیں اتار دیں پورا افغانستان اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہو گا اور اس کا حشرروس اور امریکہ سے بھی بدتر ہو گا اس کے ملک میں آزادی کی ٹھریکیں اسی طرح کامیاب ہوں گی جیسے روس کی شکست کے بعد جرمنی تک کئی ممالک کو آزادی ملی تھی ۔بھارتی امریکیوں کی طرح بے وقوف نہیں جنھیں ملک ملک یلغار کا شوق تو ہے مگر لڑنے کاجذبہ اور حوصلہ نہیں ۔ٹیلرسن کا لہجہ تحکمانہ تھا لیکن اس شر میں سے خیر یہ ملی کہ اس کی آمد پر پاک فوج اور سول حکو مت نے ایک پیج پر اجماع کر لیا اور بڑے واضح انداز میں امریکہ کا پیغام دیا کہ بھارت کی بالادستی کسی بھی صورت میں قبول نہیں ہو گی ،امریکہ افغانستان میں اپنی شکست کو تسلیم کرے تو امریکہ کی مدد کرنے کے لئے تیار ہیں ۔ضرب عضب اور ردالفسادکا مقصد یہی تھا کہ خطے کو دہشت گردوں سے پاک کیا جائے۔ پاکستان اب بھی بیشمار قربانیوں کے باوجود پر عزم ہے اگر امریکہ اس کے ساتھ انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ کرے گا تو وہ اپنی حدود میں دہشت گردوں کو ختم کرے گا ۔ ابھی تازہ مثال کینیڈین جوڑے کی رہائی ہے جس کی تعریف ٹرمپ بھی کئے بنا نہ رہ سکا اس واقعہ سے ثابت ہوا کہ پاکستان مخلص ہے مگر وہ افغانستان جا کر لڑ نہیں سکتا اور نہ ہی افغان جنگ کو پاکستان لانا چاہتا ہے نہ جانے کیوں امریکہ بھارت کو گود لیکر پاکستان کے تحفظات دور کرنے کی بجائے دباو ڈالنے کی پالیسی اختیار کر رہا ہے۔
کشمیر میںحزب المجاہدین کو دہشت گرد قرار دینا امریکہ کا تحریک آزادی پر شب خوں مارنے کے مترادف ہے۔ وہاں بھارت جو مظالم ڈھا رہا ہے اس پر امریکی خاموشی درحقیقت دہشت گردی کی حمایت ہے ۔سی پیک نے بھی دونوں ممالک کا ہاضمہ خراب کر رکھاہے۔ امریکہ اور بھارت کو پاک چین تعلقات ہضم نہیں ہو رہے ۔امریکہ بھارت کو بہلا کر چین کے مقابل کھڑا کرنے کی کوشش تو کر رہا ہے مگر دونوں اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ چین پاکستان نہیں، چین کے سامنے بند باندھنا بہت مشکل ہے ۔چین کی ریگولر ریڈ آرمی کی تعداد پچیس لاکھ اور نیم فوجی پچاس لاکھ ہیں اس کا دفاعی بجٹ ایک سو چالیس ارب ڈالر ہے۔ دنیا کے بہترین جدید فضائی ،بحری ہتھیار اس کے پاس ہیں اور ایک سو سے زاہد ہتھیار سازی کار خانے ہیں ۔چین کا محفوظ سرمایہ گیارہ ٹریلین ہے۔بھارت کو امریکہ اسلحہ تو دے سکتا ہے لیکن لڑنا اسے خود ہی ہو گا اور بدقسمتی سے بھارت بھی امریکہ کی طرح کم ہی کسی جنگ میں فاتح بن سکا ہے۔پاکستان سے نمٹنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اس کیساتھ تعلقا ت کوبرابری کی سطح پر لایا جائے اور بھارت کی تھانیداری سمیت کوئی ایسا اقدام نہ کیا جائے جس سے پاکستان مزید مشکلات کا شکار ہو ۔امریکہ کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ کہ افغانستان کی سلامتی اور امن کا راستہ پاکستان سے ہو کر گذرتا ہے۔