پاکستان کے ایک ممتاز اور بین الاقوامی شہرت کے حامل صحافی پر قاتلانہ حملے پر بھی ملک کے اہم ترین شعبہ سے وابستہ لوگ متفق نہیں ہو سکے ہیں۔ کسی زمانے میں یہ تقسیم نظریاتی تھی اسی لئے صحافیوں کی تنظیمیں اسی بنیاد پر تقسیم ہوئیں اور ملک کے صحافیوں کے درمیان جو اتحاد اور یکجہتی 50ء اور 60ء کی دہائی میں نظر آتی تھی وہ عنقا ہو گئی۔ تاہم گزشتہ دہائی میں الیکٹرانک میڈیا کی مقبولیت اور اس طرح میڈیا ہاوسز کے وسائل اور آمدنی میں بے پناہ اضافے کے سبب نظریاتی تقسیم کا مسئلہ اب پس منظر میں جا چکا ہے۔ اب صحافیوں اور میڈیا ہاوسز میں چپقلش کا اصل سبب تجارتی مفادات ہیں۔ ہر ٹیلی ویڑن چینل زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچنے کے لئے ہر ہتھکنڈہ اختیار کرنے کے لئے آمادہ و تیار ہے۔
حامد میر حملہ پر احتجاج کرتے ہوئے ملک کی صحافی تنظیموں نے سرکاری تقریبات کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ متعدد صحافی جلوس نکال کر اور کالے جھنڈے لہرا کر اپنے غم و غصہ کا اظہار کر تے رہے۔ لیکن صحافیوں کی حفاظت اورآزادء اظہار کے اہم ترین مسائل پر پاکستان کے صحافیوں میں تقسیم اور اختلافات واضح نظر آ رہے ہیں۔ عملی طور پر پاکستان میں صحافی اس وقت دو طبقوں میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ ایک طبقہ بوجوہ آمدنی ، شہرت اور رتبے کے اعتبار سے بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ جبکہ اس شعبہ سے منسلک ہزاروں ایسے صحافی اور ورکر جو اس ٹریڈ کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ، ناداری اور لاچاری کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ گویا میڈیا معاشرے میں جس طبقاتی تقسیم کے خلاف آواز بلند کرتا ہے اور اسے مسترد کرنے کو اعزاز سمجھتا ہے خود اس کے اندر یہ تقسیم خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ صحافت اور خاص طور سے الیکٹرانک میڈیا کا کمرشل ہو جانا ہے۔ یہ بیماری بنیادی طور پر امریکہ کے شو بزنس کی دین ہے لیکن پاکستان کا میڈیا اب اس عارضے میں اس حد تک مبتلا ہے کہ اسے اب ایک مسئلہ کے طور پر دیکھنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی جاتی۔
اب صورتحال یہ ہے کہ اگر کسی چینل کا اینکر لاکھوں روپے معاوضہ اور شاہانہ سہولتیں حاصل کر رہا ہے تو اس کے پروگرام کو ترتیب دینے ، ریسرچ کرنے اور پروڈیوس کرنے والے کارکن اور صحافی ، اس آمدنی کا تصور بھی کر سکتے۔ بہت سی صورتوں میں اس عملہ کو اس قدر کم تنخواہ اور مراعات دی جاتی ہیں کہ وہ تقریباً مفلسی کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ صحافی تنظیموں اور ٹریڈ یونینز کے نعروں اور مطالبوں کے باوجود ان کارکنوں کے حالات کار میں بہتری کے اقدام نہیں ہوتے اور جو صحافی ٹیلی ویڑن اسکرین پر ناانصافی اور معاشی عدم مساوات کے خلاف نعرہ زن ہوتے ہیں خود ان کو ٹیلی کاسٹ کرنے والے کیمرہ کے پیچھے کھڑا ورکر اسی قسم کی سماجی اور پیشہ وارانہ زیادتی اور ظلم کا شکار ہوتا ہے۔
پاکستان کے صحافیوں کو آزادء اظہار اور زندگی کے تحفظ کی اصولی لڑائی لڑنے کے ساتھ اپنے دست و پا مضبوط کرنے کے لئے اپنی ہی صفوں میں موجود اس ناانصافی کے خلاف بھی آواز بلند کرنا ہو گی۔ ہمارے ملک کے ہر امیر اور باوسیلہ اینکر کو یہ باور کرنا ہو گا کہ اس کی شہرت میں درجنوں ایسے ورکروں کا خون پسینہ بھی شامل ہے جنہیں نہ دو وقت کی روٹی میسر ہے اور نہ ہی وہ اپنے اہل خاندان کا مناسب علاج کروانے کی سکت رکھتے ہیں۔ ان کے لئے آزادی اور زندگی کے تحفظ کی باتیں بے معنی ہو جاتی ہیں۔ وہ اور ان کے اہل خاندان ہر پل مرتے اور ہر اگلا لمحہ بسر کرنے کے لئے زندہ ہو جاتے ہیں۔
Electronic Media
پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کی مقبولیت سے کاروباری مقابلہ بازی اور ناظرین کی تعداد بڑھانے یا ریٹنگ میں اضافہ کے لئے مقابلہ کا رجحان بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ ماس کمیونیکیشن کے اکثر استاد ٹاک شوز کی شعبدہ بازی ، خبروں میں بنیادی اصولوں کو نظر انداز کرنے اور صحافتی اقدار کی دھجیاں اڑا دینے کی شکایت کرتے رہے ہیں۔ دولت کی ریل پیل اور اینکرز کی مقبولیت کی چکا چوند میں یہ معتبر اور متوازن آوازیں نقار خانے میں طوطی کی آواز بن کر رہ گئی ہیں۔ اس مقابلہ بازی کا آغاز ایک چینل کے مقبول اینکر کو زیادہ معاوضہ اور مراعات دے کر اپنے ساتھ ملانے کے رجحان سے ہؤا لیکن اب اس نے گالم گلوچ ، الزام تراشی اور ذاتی کردار کشی کی شکل اختیار کر لی ہے۔ اس کمرشل لڑائی میں اعلیٰ طبقہ سے تعلق رکھنے والے صحافی مالکان کا ساتھ دیتے ہیں۔ اس طرح ان کی وفا داریاں صحافی برادری اور ان کے اصولوں سے زیادہ خاص ادارے اور اس کے مفادات سے وابستہ ہو جاتی ہیں۔ حامد میر پر حملہ کے بعد سامنے آنے والی صورتحال میں یہ تصویر زیادہ نکھر کر سامنے آ گئی ہے۔
صحافی خبر حاصل کرنے کے لئے ہر قسم کے لوگوں سے رابطہ میں رہتے ہیں اور تعلقات استوار کرتے ہیں۔ تاہم یہ تعلقات پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی کے لئے ہونے چاہئیں۔ پاکستان میں صحافیوں کے صاحب اقتدار اور طاقتور لوگوں سے ذاتی تعلقات کی کہانیاں زبان زد عام ہیں۔ یہ تعلقات عام طور پر ذاتی دوستیوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ اکثر و بیشتر صحافی سیاست دانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے دیگر اہم ارکان سے اتنا قریب ہو جاتے ہیں کہ فرد اور پروفیشنل میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ایسے میں یہ خبریں بھی آئے روز سامنے آتی رہتی ہیں کہ خفیہ ایجنسیوں کے علاوہ سرکاری ادارے ، سیاسی پارٹیاں ، انتہا پسند یا علیحدگی پسند گروہ اور غیر ملکی طاقتیں بھی پاکستان کے اعلیٰ صحافیوں میں اثر و رسوخ حاصل کر رہی ہیں۔ بسا اوقات مفادات یا وفاداری کا ٹکراو تکلیف دہ حد تک افسوسناک ہو جاتا ہے۔ بنیادی اصول اور حقوق کے تحفظ کے لئے صحافی تنظیموں پر لازم ہے کہ اس رجحان پر کنٹرول کرنے کے لئے اقدام کریں اور اپنے شعبہ میں شامل ہونے والی کالی بھیڑوں کی نشاندہی کا طریقہ کار متعین کیا جائے۔
عالمی مبصرین کے مطابق صحافی تنظیموں نے حامد میر پر حملہ پر احتجاج کرنے کے لئے سرکاری تقریبات کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا۔ تاہم یہ ضروری ہے کہ ملک کے تمام صحافی مستقل بنیادوں پر تمام سرکاری مراعات سے دستبردار ہونے کا اعلان کریں اور صحافی تنظیمیں اس اصول کو نافذ کروانے کے لئے سخت محنت کریں۔ یہ خبریں کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں کہ صحافی ذاتی طور پر حکومت سے پلاٹ یا دیگر مراعات کی صورت میں مفاد حاصل کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ملک کے بعض صحافی خبر کے حصول کے لئے سرکاری اداروں کا آلہ کار بننے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ اس طرز عمل سے سرکاری یا دیگر ادارے اپنی پسندیدہ خبریں سامنے لانے کے علاوہ بعض بے بنیاد خبریں ”پلانٹ ” کروانے میں بھی کامیاب ہو جاتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے صحافی مالکان کے مفادات کی تکمیل کے لئے ایک دوسرے کی گردنیں دبوچنے کی بجائے بنیادی اصولوں کو مروج کرنے کے لئے کام کریں۔ انہیں یہ باور کر لینا چاہئے کہ ان کا ذاتی مفاد اور پیشہ وارانہ کامیابی تمام صحافیوں کے درمیان اتحاد سے ممکن ہے۔ ان کے باہمی انتشار سے صرف ان قوتوں کو فائدہ پہنچے گا جنہیں زبان زد عام میں آزادء اظہار کا دشمن سمجھا جاتا ہے۔