تحریر : منظور فریدی وطن عزیز مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کو آزاد ہوئے ستر سال ہونے کو ہیں مگر اس میں رہنے والی قوم کو ابھی تک آزادی جیسی نعمت میسر نہیں آئی ہمارا حکمران طبقہ جو کہ چند خاندانوں پر مشتمل ایک ہی گروہ ہے جس نے تاحال ملک کے لیئے کچھ ایسا کیا جس سے اسکا شمار ترقی یافتہ ممالک میں ہو اور نہ ہی عوام کے لیے کوئی ایسا احسن فیصلہ کیا جس سے معاشرہ میں پاکستانی قوم کا تشخص بلند ہو جو ملک اسلام اور کلمہ طیبہ کے نام پر حاصل کیا گیا آج اسے اسلامی لکھتے ہوئے بھی شرم آتی ہے اور جمہوریہ کے تو شائد معنی بھی اس قوم کو یاد نہ رہے ہوں۔
دین فطرت اسلام دنیا کے تمام مذاہب سے افضل دین ہے اور اسکے پیروکار دنیا و آخرت میں بہترین قوم مگر جو حشر اسلام کا پاکستان میں تاحال کیا جارہا ہے اس سے دین دار طبقہ جس کرب کا شکار ہے اسکا ادراک عام آدمی پر ہو ہی نہیں سکتا ۔اسلام جمہوریت کا قائل ہے مگر اس کا نہیں جو پاکستان میں رائج ہے اسلام تو اس جمہوریت کا قائل ہے جس میں ایک عام آدمی اپنے حکمران سے یہ سوال کر سکے کہ اس نے یہ لباس کیسے بنایا ہے۔
بہت مشہور واقعہ ہے حضرت عمر فاروق کے دور میں دوسرے ملک سے کچھ پارچات آئے جو چادروں کی شکل میں تھے ہر آدمی کے حصہ میں ایک ایک چادر آئی جس سے قمیص بنتی تھی یا تہہ بند جب حضرت عمر فاروق نے پورے لباس میں خطبہ دینا شروع کیا تو ایک عام آدمی جسے رعایا کہتے ہیں نے کھڑے ہوکر سوال کردیا کہ جو چادریں ہمیں دی گئیں ہیں اس سے پورا لباس نہیں بنتا آپ کا کیسے بن گیا تو اسے دربار سے دھکے دیکر نکالا نہیں گیا بلکہ آپ نے اپنے بیٹے کو بلوا کر وضاحت کی کہ ایک چادر انکو انکے بیٹے نے دی ہے جس سے لباس تیار ہوا۔
Islam
آپ کا ہی ایک مشہور خطبہ ہے جب مسند اقتدار پر آئے تو فرمایا کہ دریائے نیل کے کنارے اگر ایک بکری کا بچہ بھی بھوک سے مرگیا تو اسکا حساب بھی عمر نے دینا ہے آج کونسی جمہوریت ہے جس میں ہر صاحب اقتدار کو ہر قسم کا استثنیٰ حاصل ہے کہ وہ جب تک حکمران ہے کوئی عدالت اس سے سوال نہیں کر سکتی کہ اس نے یہ سارا مال کہاں سے لیا کوئی آف شور کمپنیا ں بنا رہا ہے تو کوئی سرے محل مگر عوام بھوک مٹانے کو اپنے جگر گوشے بیچنے پر مجبور ہے۔
اسلام اپنے پیروکاروں کو رزق حلال کمانے اور کھانے کا حکم دیتا ہے مگر ہمارے حکمران طبقہ میں شامل کون ایسا فرد ہے جسے اس بات کی فکر ہو جب حاکم ہی اس قدر خائن ہو تو رعایا کی تربیت کیا کرے گا اسلامی ریاست میں تعلیم ،صحت اور خوراک ریاست کی بنیادی ذمہ داریاں ہیں مگر پاکستان میں آج انہی شعبوں کو اس قدر پامال کیا گیا ہے کہ ہمارے حکمران نہ تو اپنے بچوں کو اس مُلک کے سکولوں میں پڑھانا گوارہ کرتے ہیں اور نہ ہی اپنا علاج معالجہ ملکی ڈاکٹروں سے کرواتے ہیں قوم کے پیسہ کو اپنا ذاتی ورثہ سمجھ کر بے دریغ استعمال کرتے ہیں ابھی کل کی بات ہے کہ ایک طرف ایک فقیر جس نے اپنی ساری عمر انسانیت کی فلاح و بہبود میں بسر کردی مرتے ہوئے اپنی آنکھیں تک عطیہ کر گیا۔
عین اسی وقت اسلامی جمہوری پاکستان کا وزیر اعظم اپنے خاندان کے ہمراہ لندن سے واپسی پر کسی عام جہاز سے آنے کے بجائے خزانہ سے تیس کروڑ روپے میں الگ جہاز بُک کروا کے آ رہا تھا آج جب اپوزیشن جماعتیں پانامہ لیکس پر صاحب کا احتساب چاہتی ہیں تو اسے یاد آتا ہے کہ وہ عوام کے ووٹوں سے اسمبلی میں آیا اور عوام کا وزیراعظم ہے ایک طرف تھر میں بھوک سے روزانہ سینکڑوں اموات ہو رہی ہو ں تو ہمارا حکمران طبقہ وہاں بھیجا جانے والا راشن بھی چوری کر رہا ہو قوم غربت اور بے روزگاری کے مسائل میں پھنسی ہو اور حکمران طبقہ میٹرو بسیں ،ٹرینیں چلا رہے ہوں تو کیا عوام ٹرین کی پٹڑی پر خود کشی کرے یا میٹرو بس کی سڑک چاٹ کر بھوک مٹائے غلطی کسی کی بھی نہیں اس قوم کی تربیت ہی غلط ہو گئی۔
Corruption
جب انگریزی بولنے والا قرآن کے عالم کو جاہل سمجھے کرپشن کے بل بوتے پر میٹر کلرک سے ترقی کر کے ایک بندہ وفاقی وزیر بن جائے اور یوں بیان دے کہ مدرسے جہالت کی فیکٹریاں ہیں تو حالات ایسے ہی ہونگے۔
کوئی اپنے خاوند کی حلال کمائی پر گزارہ کرنے کے بجائے راہ فرار اختیار کر کے شوبز کی دنیا میں قدم رکھ کے بے حیائی کی تمام حدیں عبور کر کے قندیل بلوچ بنے گی تو کوئی شیطان مذہبی لبادہ اوڑھ کر مفتی بنے گا اور یہ تماشہ اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک یہ قوم اپنے اندر سے غلامی کا مادہ نکال کر پھینک نہیں دیتی اور اقتدار کو پیسہ سے حاصل کرنے کے بجائے عوامی خدمت سمجھ کر اس سے دور نہیں بھاگتی جب تک اقتدار کی بندر بانٹ جاری ہے اور ہر پیسے والا عوام کو بھیڑ بکریاں سمجھ کر ہانکتا رہے گا تو یوں سمجھیں کہ ہم ہجرت کر کے اس دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں پچھلا گھر جل چکا اور آگے کوئی جگہ نہیں۔