٢٠١٦ء میں کیا کھویا، کیا پایا، ٢٠١٧ء کی تیاری

 Quaid Azam

Quaid Azam

تحریر : میر افر امان
قارئین حضرات قائد اعظم کی مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قوم نے ٢٠١٦ء میں کتنے اہداف حاصل کیے کتنے نہ کرسکی اور ٢٠١٧ء میں کون سے اہداف حاصل کرنے کا عزم کرنا ہے۔ ہمارا یہ مضمون اسی خیال کے متعلق ہے۔ پاکستان دو قومی نظریہ کے تحت وجود میں آیا تھا۔ پاکستان کے خالق بھی پہلے ہندو مسلم اتحاد کے ماننے والوں میں تھے۔ انگریزوں سے آزادی کی جدو جہد کرنے والی ہندو مسلم مشترکہ سیاسی نظیم کانگریس میں شریک تھے۔ پاکستان کی خواب دیکھنے والے علامہ اقبال بھی ہندو مسلم اتحاد کو سامنے رکھ کر انگریز سے آزادی حاصل کرنے میں شامل تھے۔ ہندوستان کی محبت میں گیت بھی لکھتے رہے۔ مگر ہندوئوں کی اکثریت نے یہ سوچ رکھا تھا کہ آزادی کے بعد رائج مغربی انتخابی طریقہ سے اپنی اکثریت کی بل بوتے پر مسلمانوں پر حکومت کر کے اپنے ہزار سالہ مسلمانوں کی غلامی کا بدلہ چکا لیںگے۔ اس سوچ کی بنیاد پر کانگریس انگریزوں سے ساز باز کر رہی تھی۔ ہندوئوں کی اس ذہنیت کو قائد اعظم اورعلامہ اقبال نے فوراً بھانپ لیا۔ چنا چہ ہندوئوں کی اسی سوچ کی مخالفت کی بنیاد پر دو قومی نظریہ کی بنیاد رکھی گئی۔

قائد نے ایک جمع ایک۔ برابر دو۔ کے حساب سے جمہوری طریقہ سے ثابت کیا کہ ہندوستان میں دو قومیں رہتی ہیں۔ ایک ہندو اور دوسری مسلمان۔ جس کے ہیرو الگ، تہذیب الگ ہے، تمدن الگ ہے ، دونوں کے کھانے کے طریقے الگ، ایک قوم بتوں کی پوچا کرتی ہے ایک واحد خدا کو مانتی ہے۔ مسلمانوں کے اس کے آباء بت شکن تھے۔ صاحبو! آزادیِ پاکستان کے وقت دنیا دو نظاموں میں بٹی ہوئی تھی ایک سیکولر نظام جس میں سرمایادارانہ نظام کا چلن تھا ۔دوسرا کمیونسٹ نظام، جس میں انسانوں کی نام نہادبرابری کی بنیاد پرمزدوروں کی بات کرتا تھا۔ قائد اعظم نے ان دونوں کے مقابلے میں اسلامی نظام کی بات کر کے تمام مسلمانوں کوایک ایجنڈے پر جمع کیا اور ہندوستان میں ایک ذبردست تحریکِ آزدی پاکستان کے نام سے برپاہ کی۔ پورے برصغیر میں یہ نعرے گونج رہے تھے۔ کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ۔ مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ۔ لے کے رہیں گے پاکستان ۔ بن کے رہے گا پاکستان۔ ہندوستان کے جن علاقوں میں پاکستان نہیں بننا تھا ان علاقوں کے مسلمانوں نے بھی پاکستان کے حق میں اپنی رائے دی۔ دنیا کی تاریخ میں اتنی بڑی جمہوری آزادی کی تاریخ پہلے نہیں دیکھی گئی۔

کمیونسٹ، قادیانی، سرمایا دار، چوہدری، سردار اور وڈیرے، کوئی وقتی مصلحت ،کوئی مجبوری اور سارے کے سارے م عام مسلمانوں کی برپاہ کردہ تحریک آزادی میں قائد کی لیڈر شپ میں آ گئے۔ ١٤ اگست ١٩٤٧ء کو مملکت پاکستان وجود میں آ گیا۔ مملکت کے وجود میں آتے ہی قائد نے اپنے وعدوں کے مطابق خود اگست١٩٤٧ء میں ہی ایک واحد ڈیپارٹمنٹ قائم کیا تھا جس کا نام ” ڈیپار ٹمنٹ آف اسلامک ڈیکرلیشن” ہے اس ڈیپارٹمنٹ کا ہیڈ مشہور نو مسلم علامہ محمد اسد کو بنایا گیا تھا۔ اس ادارے کا کام پاکستان کا فلاحی اسلامی آئین بنانا تھا۔ جس میں اسلامی معاشیات، اسلامی تعلیم اوراسلامی سوشل سسٹم ہو۔ اس ڈیپارٹمنٹ کے لیے بجٹ کے لیے قائد اعظم نے خود خط پاکستان کے مالیاتی ادرے کو بھی لکھا تھا۔ جو اب بھی ریکارڈ کے اندر موجود ہے اس ڈاکومنٹ کی کاپی اس خط کے ساتھ منسلک تھی جبکہ حکومت میں موجود اسلام دشمن قوتوں (قادیانیوں) نے اکتوبر١٩٤٨ء میں ریکارڈ کو آگ لگا کر اس ڈاکومنٹ کو ضائع کر دیا تھا۔ مگر خوش قسمتی سے اس ڈاکومنٹ کی ایک کاپی جو اس خط کے ساتھ منسلک تھی جو قائد اعظم نے اس پروجیکٹ کے لیے بجٹ مہیا کرنے کے لیے خط لکھا تھا وہ اوریا مقبول جان نے ریکارڈ سے حاصل کی جو حوالے کے لیے ان کے پاس موجود ہے۔

اوریا مقبول جان نے اس ڈاکومنٹ کو ایک نجی ٹی وی پروگرام میں قوم کو دکھایا بھی تھا۔پاکستان میں اسلامی نظام کے حوالے سے قائد کی ایک اور بات جو ڈاکٹر پروفیسر ریاض علی شاہ کی ڈائری کا صفحہ کے حوالے سے قائد اعظم کی گفتگو جو ڈاکٹر پروفیسر ریاض علی شاہ اور کرنل الہی بخش کی موجودگی میں قائد اعظم نے موت سے دو دن پہلے کہا تھا”آپ کواندازہ نہیں ہو سکتاکہ مجھے کتنا اطمینان ہے کہ پاکستان قائم ہو گیا اور یہ کام میں تنہا نہیں کر سکتا جب تک رسول ۖ ِ خدا کا مقامی فیصلہ نہ ہوتا اب جبکہ پاکستان بن گیا ہے اب یہ لوگوں کا کام ہے کہ خلفائے راشدین کا نظام قائم کریں۔”اسی تسلسل میں ایک مذیدثبوت کہ پاکستان بننے کے فوراً بعد قائد اعظم نے مولانا مودودی کے ذمے یہ کام لگایا تھا کہ وہ قوم کے سامنے اسلام کے عملی نفاذ کا نقشہ ریڈیو پاکستان کے ذریعے بیان کریں۔ مولانا مودودی نے قائد اعظم کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اسلام کے عملی نفاذ کے لیے ریڈیو پاکستان سے کئی تقریرں نشر کیں تھیں جو ریڈیو پاکستان کے ریکارڈ میں اب بھی موجود ہیں اور ہزاروں پاکستانیوں نے اسلام کے عملی نفاذ کے لیے یہ تقریریں سنی بھی تھیں ہماری دعا ہے کہ اللہ اس ریکارڈ کی حفاظت کرے کہیں اس ریکارڈ کو بھی جلا نہ دیا جائے۔ قارئین! ان واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ قائد اعظم نے جو مسلمانان برصغیر کے لیے پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الااللہ کے نعرے سے حاصل کیا اس مقصد کے ساتھ کتنے پر خلوص تھے۔ اسلام سے الرجک لوگ قائد اعظمکو سیکولر ثابت کرنے کے لیے جھوٹ کے پہاڑ بھی کھڑے کر دیں۔ مگر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ قائد اعظم پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانا چاہتے تھے۔

2016

2016

قائد کی سوچ کے مطابق کی بنیاد پر اسلام کی شیدائیوں نے پاکستان میں دستوری مہم چلائی۔١٩٤٠ء کی قرارداد پاکستان کو پاکستان کے آئین کا حصہ بنایا۔ ١٩٧٣ء میں پاکستان کی ساری سیاسی مذہبی جماعتوں کی منظوری سے پاکستان کی پارلیمنٹ نے اسلامی آئین منظور کیا۔ جس میں مملکت کانام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا گیا۔ آئین کے مطابق پاکستان میں رائج تمام قوانیں کو بتدریج اسلامی بنایا جائے گا۔ اس کام کے لیے ایک اسلامی نظریاتی کونسل بھی بنائی گئی جو قوانین کی جانچ پڑتال کر کے پارلیمنٹ کو سفارش کرے گی کہ فلاں فلاں قانون اسلام کے خلاف ہے اسے تبدیل کیا جائے۔ آئین کے مطابق ایک شہریت کورٹ بھی بنائی گئی۔ اس شہریت کورٹ نے بہت پہلے پاکستان میں سود کو حرام قرار دے کر ختم کر کے بغیر سود کے نظام کو رائج کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔ مگر نواز شریف حکومت کے پہلے دور میں اس پر سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی جو اب تک موجود ہے۔

ضرورت اس امر کی تھی کہ قائد کی مسلم لیگ جن حضرات کے قبضے میں ہے وہ قائد کے وژن کے مطابق سارے کے سارے قانون اسلام کے مطابق بناتے۔ ملک میں آئین کے مطابق اسلامی نظام حکومت قائم کرتے ۔مگر آئی ایم ایف اور مغربی آقائوں کے منشا کے مطابق مسلم لیگی حکمران الٹے چل رہیں۔وہ پاکستان کو سیکولر دیکھنا چاہتے ہیں۔ قائد اعظم نے ٢٣ مارچ ١٩٤٠ء میں لاہور میں کہا تھاہم مسلمان ہندو سے علیحدہ قوم ہیں۔ ہماری کلچر،ہماری ثقافت،ہماری تاریخ، ہمارا کھانا پینا، ہمارا معاشرہ،سب کچھ ان سے مختلف ہے۔ جبکہ مسلم لیگی حکمران نواز شریف صاحب وزیر اعظم پاکستان ٢٣ اگست ٢٠١١ء کولاہور ہی میں فرماتے ہیںہم مسلمان ہندو ایک قوم ہیں ہمارا ایک ہی کلچر، ایک ہی ثقافت ہے ہم کھانا بھی ایک جیسا کھاتے ہیںصر ف درمیان میں ایک سرحد کا فرق ہے۔ صاحبو! یہ کچھ ہم نے ٢٠١٦ء یہ کھویا ہے۔

پاکستان کاچہرا بدنام کرنے والی شرمین چنائے کو وزیر اعظم ہائوس میں بلا کر نظریہ پاکستان کی نفی کی گئی۔ سیکولر حضرات جن کو قائد نے شکست دی تھی ان کو حکومت میں شامل کیا گیا۔ جوپاکستان میں افغانیہ صوبے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بھارت نواز سیکولرز حضرات کو حکومت کے اہم منصب پر بٹھایا گیا ہے۔ پاکستان کی اساس اور پاکستان کے آئین کے خلاف لکھنے والوں کو٢٠١٦ء کے سالانہ قومی ایوارڈ کے لیے چنا گیا ہے۔ حسب عادت ٢٠١٦ء میں بھی پاکستان کی محافظ فوج کے ساتھ اختلافات جاری رکھے گئے۔فوج کے خلاف ڈان نے خبر نشر کی۔ صرف ایک وزیر سے وزارت اطلاعات واپس لے لی مگر خبر لیک کرنے والوں کو ٢٠١٦ ء میں سزا نہیں دی گئی۔٢٠١٦ء میں ہمارے ازلی دشمن نے ہماری زمینی،بحری اور بری سرحدوں کی خلاف ورزیاں کیں۔ مگر ہم نے ازلی دشمن کے ساتھ معذرتانہ پالیسی جاری رکھی۔ ٢٢ اگست کی پاکستان مخالف تقریر کے باوجود غدارِ پاکستان الطاف حسین کی پارٹی پر عوامی رائے کے مطابق پابندی نہیں لگائی۔ بین لاقوامی طور پر سامنے آنے والی پاناما لیکس کے موقعہ پر قوم سے تین دفعہ وعدے کے باوجود اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش نہیں کیا۔مقبوضہ کشمیر میں ٢٠١٦ء میں مظفر وانی کی شہادت پر کشمیر میں ذبردست تحریک آزادی کشمیر شروع ہوئی۔ جو انشا اللہ ٢٠١٧ء میں تکمیل کو پہنچے گی۔

مشہور سماجی کارکن عبدلستارایدھی فوت ہوئے۔ انہیں فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔ امجدصابری قوال کودہشت گردوںنے ہلاک کر دیا۔ پاکستانی فوج کی کمان تبدیل ہوئی۔ صاحبو! ہمیں ٢٠١٧ء میں اپنے مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کو سیکولر، لبرل اور روشن خیالوں سے بچا کر پاکستان کے اسلامی آئین کے مطابق تحریک چلا کر تبدیل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کیا دینی اور سیاسی جماعتیں جو نظریہ پا کستان پر کامل یقین رکھتی ہیں کہ لیے وقت نہیں آ گیا کہ تحریکِ پاکستان طرزکی ایک بار پھر عوام کی طاقت سے ایک تحریک پھر سے برپاہ کریں اور جس طرح سیکولرز، لبل لبرلز اور روشن خیال حضرات کو قائد نے جمہوری طریقے سے شکست دے کر اسلامی پاکستان بناکر دیا۔ اسلامی پاکستان کو آئین پر عمل کرانے کے ٢٠١٧ء میں پروگرام ترتیب دیں ۔ اللہ ہمارے پاکستان کی حفاظت فرمائے آمین۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افر امان
کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان