تحریر : شاہد جنجوعہ لندن گزشتہ روز چکوال میں ہونے والے افسوسناک واقعے کی ہرکسی نے کھلکر مزمت کی ہے اور بلاشبہ ایسا ہونا چاہئے تھا کہ مسلمانوں اور تمام اقلیتوں کے جان و مال کی حفاظت کی زمہ داری سے ریاست پاکستان کسی صورت پہلوتہی نہیں کرسکتی کسی اقلیتی فرقے یا جماعت سے اختلاف یا انکی ریشہ دوانیوں کے ردِعمل میں ان سے بدسلوکی یا جلاؤگھراؤ کرنا کسی صورت بھی جائز قرار نہیں دیا جاسکتا؛ سچ سامنے لانے کیلئے دلائل کی قوت سے اپنا مؤقف پیش کرکے عام الناس کو فیصلہ کرنے کاحق دیا جانا چاہئے چکوال میں جو کچھ ہوا ایسا لگتا ہے اس کے پیچھے بیرونی طاقتوں اور بالخصوص راء کی منظم منصوبہ بندی تھی جس نے مذہبی جنونیت کے عنصر کو ایک خاص موقعے پر مخصوص مقاصد کیلئے استعمال کیا مگر سوال یہ ہے کہ ہمارے سیکورٹی ادارے اتنے کمزور کیوں ہیں کہ جسکا دل کرتا ہے وہ جب چاہتا ہے نقب لگاکر بآسانی فرار ہو جاتا ہے یہ خونی کھیل پاکستان میں ایک عرصے سے جاری ہے جسکے سدباب کیلئے مربوط کوششوں کا فقدان سب پر عیاں ہے مگر اس سال کے اختتام پر میں مقتدرحلقوں کی توجہ ایک خاص پس منظر کی طرف مبزول کرانا چاہتا ہوں جسے پاکستانی میڈیا مسلسل براہ راست معلومات نہ ہونے یا کسی ڈر و خوف کی وجہ سے مکمل نظرانداز کررہا ہے ـ لایعنی بحث مباحثے کے نتیجے میں ایسے افسوسناک واقعات کے اصل محرکات اور اس سے سبق حاصل کر کے یکسوئی کیساتھ قوم کو تیار کرکے جو منصوبہ بندی ہونی چاہیے اس سے صرف نظر ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
حالات وواقعات پر گہری نظر رکھنے والے ِِِِِِذی شعور طبقے کو احساس ہے کہ برطانیہ ایک ایسا ملک ہے جہاں بیٹھ کر کء ترقی پزیر ممالک کے مستقبل اور حکمرانوں کی قسمت کے فیصلے ہوتے ہیں افغانستان کا جہاد ہو، صدام حسین کی پھانسی ہو قزافی کی موت ہو بھٹو کو تختہ دار پر لٹکایاجانا ہو یا پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کے راز افشاں کرنے والے جناب ڈاکٹر عبدالسلام کے نام پر پاکستان میں کچھ دن پہلے ایک اعلیٰ یونیورسٹی میں شعبہ تحقیق قائم کئے جانے کا فیصلہ؛ ان واقعات کے سیکونس کو سمجھے بغیر اور انہیں نظر انداز کرکے آپ پاکستان میں استحکام لاسکتے ہیں اور نہ ہی ان چیلنجز سے نبرد آزما ہوسکتے ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کی بقائ پچھلے دس سالوں میں داؤ پر لگی رہی _____ گزشتہ دنوں ایک ریفرنڈم میں یورپ سے نکلنے کے فیصلے کو ھائی کورٹ نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی منظوری سے مشروط کردینے کے بعد گزشتہ دنوں برطانیہ میں یوکشائیر اور?ھمبرسائیڈ رولنگ پارٹی المعروف ٹوری پارٹی برطانیہ کی ایک عوامی کمپین میں برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کے فیصلے کے حق میں براہ راست حکومتی ترجیحات اور منصوبہ بندی سننے اور اعلیٰ سطحی وفد سے ڈسکس کرنے کا موقع ملا جس میں میرے لئے کوئی اچنبے والی بات نہ تھی۔
مگر اس میٹنگ میں ممبران پارلیمنٹ کی پریزنٹیشن دیکھنے کے بعد انسے برِاہ راست سوال و جواب اور انٹرویو میں جو چیزیں سامنے آئیں وہ میڈیا کے زریعے عوام تک آنا بہت ضروری ہے کہ پس پردہ کونسی وجوہات اور عوامل ہیں کہ برطانیہ یورپین یونین میں رہنے کی قیمت پر انڈین کے ساتھ تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے____ اگر ریاست پاکستان کے زمہ داران چوکس ہوں تو انہیں سال 2017 کے آغاز پر ہنگامی فیصلے کرکے پاکستان کو جلد ازجلد بے یقینی کی صورتحال سے نکال کر ٹھوس منصوبہ بندی کرنی ہوگی ورنہ محض ایٹمی طاقت اور میزائل ٹیکنالوجی کے زعم میں پاکستان کو ناقابلِ تسخیر قوت سمجھتے ہوئے جو سیاسی کھیل تماشا ہم نے جاری رکھا ہوا ہے اسکے بیانک نتائج بگھتنا پڑینگے ____ برطانیہ اور یورپین یونین کے پاس دو آپشنز ہیں ایک ترقی پزیر ممالک کی CRUDE فنڈنگز یا Ethical Choices کیلئے لابنگ کرنا ?___ جبکہ مستند معلومات کے مطابق پاکستان کی پارلیمینٹ یا کسی تھنک ٹینکس میں اس حوالے سے کوئی پلاننگ زیر بحث ہی نہیں جبکہ انڈیا نے بڑی خاموشی سے اپنی ٹیمیں یورپ اور برطانیہ میں بھیجی ہوئی ہیں۔
European Union
سمجھنے والی بات یہ ہے کہ یورپین یونین سے نکلنے کے فیصلے کے بعد مقتدر قوتیں دنیا میں اگلے پندرہ سالوں کیلئے اکانومی اور فیصلہ کن سیاسی طاقت کیلئے امریکہ کے ساتھ یورپین یونین اور چائنہ کے مقابلے میں انڈیا کو آگے لانے کا حتمی فیصلہ کرچکی ہیں اور برطانیہ میں نء حکومت انڈیا کیساتھ اپنی اکانومی وابستہ کرنے کے منصوبے پر بہت تیزی سے کام کررہی ہے دوسری طرف ایسا لگتا ہے کہ بڑی خاموشی سے پاکستان کو عالمی منظر نامے میں فیصلہ کن پلیٹ فارم پر تنہاء کردیا جائے گا اور اسکی وجوھات دہشتگردی کے عفریت کے علاوہ “Sustainable goal for development agreed by the international community” سے پاکستان کا کمپلائنس نہ کرنا بھی شامل ہے جس پر اگر فوری توجہ نہ دی گئی تو معاشی طور پر پاکستان اتنا کمزور ہوجائے گا کہ وہ ایٹمی طاقت ہوکر بھی اگلی کئی دہائیاں عالمی استعماری طاقتوں کے دست نگر رہے گا ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کیتھنک ٹینکس کے پاس عوام کو ان حالات کیلئے تیار کرنے کا کوئی ٹھوس منصوبہ ہے؟ ان چیلنجز سے نبٹنے کیلئے پوری قوم کو یکسو اور یکسمت چلنا ہوگا ورنہ ایک اندازے کے مطابق یہ آئے روز کی کھینچاتانی الزامات در الزمات کا نہ رکنے والا سلسلہ، ایک ایک کرکے تمام ریاستی اداروں پر عدم اعتماد کی فضا، سب کو چور کرپٹ اور ملک دشمن طاقتوں کا ایجنٹ ڈکلیئر کرنا یہ غیر سنجیدگی کی انتہائ ہے اور اس کھیل تماشا سے ملک کی ساکھ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ رہا ہے ایسا کرنے والے پاکستان کو ناکام ریاست قرار دینے کے ایک منصوبے کا باقاعدہ حصہ لگتے ہیں۔
ہماری ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم کیس ٹو کیس فیصلہ نہیں کرتے، جس شخص کو چاہتے ہیں سرپر بٹھادیتے ہیں اور رد کرنے پر آئیں تو اسے ملک دشمن قرار دینے سے کم درجے پر ہماری تسلی ہی نہیں ہوتی ریٹنگ بڑھانے اور اشتہارات لینے کی دوڑ لگی ہے اور پانامہ لیکس کا حشر نشر کردیا گیا ہے رپورٹر جج کی کرسی سنبھال کر جو منہ میں آتا ہے کہے جارہے ہیں اخلاقک حقدار مرچکی ہیں میڈیا کو ملکی مسائل سے کہیں زیادہ سنسنی پھیلاکر عوام کی توجہ انکی طرف مبزول کئے رکھنے سے کام ہے پانامہ لیکس منی لانڈرنگ ہے اور اسکی تہہ تک پہنچنے کیلئے ایک سادہ سا فارمولہ ہے کہ جس کسی نے بھی فنڈز غیر قانونی طریقے سیپاکستان سے باہر منتقل کئے ہیں یا بیرون ممالک سے پاکستان منتقل کئے ہوں انہیں احتساب کے کٹہرے میں لایا جائے اگر پاکستان میں منی لانڈرنگ کی مسلمہ بین الاقوامی تعریف پر فیصلہ ہو تو اقتدار پر بیٹھے موجودہ اور سابق کء معزز ہستیاں ننگی ہونگی جیل جائیں گی اور انکے ساتھ دھرنا دینے والے شیخ صاحب کا منہ بھی کالا ہوگا کیونکہ بیرونی دنیا سے اربوں کے فنڈز پاکستان کیسے منتقل ہوئے یا اتنی قطیر رقم کہاں گئی اس پر بڑے سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں جس سے عین ممکن ہے وہ ٹریل بھی سامنے آجائے جو اس کالے دھن کیلئے استعمال ہوتی ہے۔
لیکن اس سے بھی اہم واقعہ پچھلے ماہ آزادکشمیر کے نو منتخب عزت مآب صدر سردار مسعود خان کا پہلا دورہ برطانیہ ہے ـ سردار مسعود خان کی قابلیت صلاحیت اور بین الاقوامی ڈپلومیسی میں مہارت کا ہرذی شعور گواہ ہے صدر منتخب ہونے کے بعد وہ پہلی مرتبہ برطانیہ تشریف لائے اور کشمیر کے حوالے سے بریڈفورڈ قونصلیٹ میں بڑا پر مغز لیکچر دیا جس میں انہوں نے عالمی انسانی حقوق کی تنظمیوں اقوام متحدہ اور دنیا میں امن کا واویلا کرنے والوں کے دھرے معیار کے بخرے کردئے مگر ستم بالائے ستم یہ کہ انکی تقریر کو پاکستان کے پہلے #سوشل میڈیا ٹی وی چینل چینل #لاہور ٹی وی نے تو بھرپور رپورٹ کیا ، مگر اسکے علاوہ پاکستان کے باقی کمرشل چینلز نے کئی دن کے بعد اس پروگرام کی صرف علامتی کووریج دی اور انگلش میڈیا صدر آزادکشمیر کو کووریج دینے آیا ہی نہیں جبکہ ریاست پاکستان کی ملکیت پی ٹی وی کا بھی کوئی ایک بھی نمائندہ صدر آزادکشمیر کی انتہائی مدلل اور مفصل گفتگو کو رپورٹ کرنے کیلئے نہیں آیا اس سے بھی بڑا ستم یہ کہ عین اس وقت برطانیہ میں سرکاری دورے پر آئے ن لیگی ایم این اے میجر طاہر اقبال جو خاص طور پر کشمیر کاز کیلئے لابی کرنے برطانیہ ائے حکومتی وفد کی سربراہی کررہے تھے انہوں نے بھی اسکا نوٹس نہیں لیا ایسا ہونا کوئی معمولی بات نہیں زمہ داران کی جواب طلبی ہونی چاہئے مگر بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے کے مترادف سب تماشائی ہیں۔
Kashmir Violence
افسوس ہم نے بڑا سنہری موقع گنوا دیا مسئلہ کشمیر جسکے لئے ہم نے نصف صدی جنگ لڑی آج پہلا موقع تھا جموں کے لوگ اس میں اپنے بل بوتے پر شامل ہوئے اور برہان الدین وانی سمیت ھزاروں لوگوں نے قربانی کی ایک مثال قائم کردی صدر آزادکشمیر کے دورہ برطانیہ کے دوران برطانیہ میں پاکستان و کشمیری نڑاد پارلیمانی ممبران کی بھی سخت نالائقی اور ناکامی تھی کہ وہ وزیراعظم برطانیہ اور انسانی حقوق کے علمبرداروں سے سے صدرآزادکشمیرکی ملاقات نہیں کرواسکے ـ آپس کی کھینچا تانی اور برادری عزم کی وجہ سے ہرایک نے اپنی دکانداری چمکانے کی کوشش کی نتیجہ صفر نکلا اور اب سب دانت پیس رہے ہیں قابل غور بات یہ ہے کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہورہی ہیں وہاں بربریت اور ننگی جارحیت کی مزمت وزیراعظم ٹریسامے کے دورہ انڈیا کے دوران وزیراعظم مودی سے ملاقات میں انکے ایجنڈے پر نہ ہونا برطانیہ میں پاکستان اور کشمیر کاز کیلئے دعوے کرنے والے ایسے پارلیمنٹیرین کیمنہ پر زوردار طمانچہ تھا ـ لیکن سوال ہھروہی کہ یہ حماکتیں آخر ہم کب تک نظر انداز کرینگے؟۔
اسمیں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں ایسے حالات پیدا کرنے کے زمہ دار ہماری قیادت تمام سیاستدان اور بیوروکریسی ہے ایسے واقعات سے پاکستان کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے اسکا خیمازہ ہماری آئندہ نسلیں اگلی نصف صدی تک بھگتی گیں ___ پاکستان میں گوادر پورٹ آپریشنل ہو چکی مگر ہم نے پچھلے دس سالوں میں کوئی تیاری کی نہ ِNVQ لیول پر کسی یونیورسٹی نے افراد تیار کرنے کیلئے کوئی کورس متعارف کروایا ____ ہم بے تکینکی ماہرین پیدا نہیں کئے جس کی وجہ سے زرمبادلہ کا بڑا حصہ ان دوسرے ممالک کے ماہرین لیجائیں گے اب نہیں تو کب یہ حکومت ، اپوزیشن اور باقی مقتدر حلقے تمام اپنی نوجوان نسل کیلئے روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور اپنے خام مال سمیت لوکل ٹیکنالوجی کی برآمدات یورپین منڈیوں اور افریقی ریاستوں تک پہنچانے کے کسی پلان اور مربوط منصوبہ بندی کا آغاز کرینگے میں پچھلے کئی دنوں سے تمام تر کوششوں کے باوجود اس بارے میں کوئی جان کاری حاصل نہیں کر پایا۔
حالانکہ اس بارے میں بنیادی معلومات تو ایک کلک پر دستیاب ہونی چاہئیں تھیں ان حالات کا زمہ دار ہمارا میڈیا بھی ہے جو کسی واقعے کو بین الاقوامی تناظر میں نہیں دیکھتا اور اسکے پس پردہ عوامل تک عوام کی سوچ جانے کے راستے میں دیوار کھڑی کردیتا ہے آج پاکستان کی حالت زار اور جنکے ہاتھوں میں زخموں سے چور چور قائداعظم کے اس پاکستان کی زمام اقتدار ہے اسے یوں بے یارومددگار لٹتا دیکھ کر رونا آتا ہے اور کف افسوس ملتے یہ اشعار گنگنانے لگتا ہوں کہ؛ عالم جنْون خیز ہے، دمساز بھی نہیں اِک ہم نفس تو کیا ، کوئی آواز بھی نہیں بپتا ہم اپنے من کی سْنائیں کِسے خلش گھٹ گھٹ کے مر رہے ہیں، کہ ہمراز بھی نہیں