کراچی (جیوڈیسک) سونے کے زیورات کی ایکسپورٹ پر سخت شرائط اور پیچیدہ طریقہ کار کے سبب پاکستان سے سونے کے زیورات کی ایکسپورٹ میں 98 فیصد کمی کا سامنا ہے۔ پاکستان کی ایک ارب ڈالر کی سونے کے زیورات کی ایکسپورٹ معاون پالیسیوں کے ذریعے چند سال میں 10ارب ڈالر تک بڑھائے جانے کے امکانات ایس آر او 760کی شکل میں لگائی جانے والی قدغن کا شکار ہوگئے ہیں۔
اس صورتحال سے تمام ترفائدہ بھارت نے اٹھایا ہے مارکیٹ برطانیہ، امریکا، کینیڈا، مڈل ایسٹ، گلف اور یورپی ملکوں کی روایتی مارکیٹ اب بھارت کے ہاتھ لگ چکی ہے۔ آل پاکستان جیم مرچنٹس اینڈ جیولرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین حبیب الرحمٰن کے مطابق سونے کے زیورات کی ایکسپورٹ کی صنعت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے ایس آر او 760کی شکل میں نافذ کی جانے والی کڑی شرائط اور پے چیدہ طریقہ کار کی وجہ سے سونے کے زیورات کی ایکسپورٹ مسلسل گراوٹ کا شکار ہے اور ایک ارب ڈالر کے مقابلے میں رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ کے دوران بمشکل 52 لاکھ ڈالر کی ایکسپورٹ کی گئی ہے۔
پاکستان کے برعکس بھارت کی سونے کے زیورات کی مقامی صنعت کا حجم 40سے 45ارب ڈالر جبکہ ایکسپورٹ کاحجم بھی 50ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ اس طرح بھارت کی انڈسٹری کا مجموعی حجم پاکستان کی ایکسپورٹ سے چار گنا زائد ہے۔ دوسری جانب پاکستان میں سونے کے زیورات کی صنعت روبہ زوال ہے۔ حبیب الرحمٰن نے وزیر اعظم نواز شریف سے اپیل کی ہے کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں سونے کے زیورات کی صنعت کو ریلیف دیا جائے ایس آر او 760 کے لیے ایسوس ایشن کی تجاویز منظور کی جائیں اور انڈسٹری کے لیے خصوصی پیکج کا اعلان کیا جائے تاکہ اس شعبے میں سرمایہ کاری اور نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے عالمی مارکیٹ میں پاکستان کا کھویا ہوا مقام حاصل کیا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ ایکسپورٹ کے لیے ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی سے لائسنس کا حصول جوئے شیر لانے کے برابر ہے، اسی طرح سونے کے زیورات کی سیلف کنسائمنٹ کے ذریعے ایکسپورٹ کی50فیصد آمدن سونے کی شکل میں جبکہ باقی 50فیصد بینکنگ چینل سے لانے کی شرط عائد کی گئی ہے اور سونے کی درآمد اور زرمبادلہ لانے پر کسٹم ڈیوٹی اور ودہولڈنگ ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ حکومت نے ایس آر او 760کے ذریعے سونے کی ایکسپورٹ پر ویلیو ایڈیشن بھی 100فیصد بڑھا کر 14فیصد کردی اور اس سے کم ویلیو ایڈیشن پر کام کرنیوالے ایکسپورٹرز کو اپنے منافع کو ایکسپورٹ کی آمدن ظاہر کرکے لانا پڑتا تھا ان مشکلات کی وجہ سے سیلف کنسائمنٹ کے ذریعے سونے کے زیورات کی ایکسپورٹ بند ہوچکی ہے جبکہ صرف انٹرسٹمنٹ اسکیم کے ذریعے سونے کے زیورات کی ایکسپورٹ بمشکل جاری ہے جس میں پاکستانی ایکسپورٹرز خریداروں سے حاصل شدہ ایڈوانس سونے کے زیورات تیار کرکے ایکسپورٹ کرتے ہیں۔
جس میں لاگت، اخراجات اور ٹیکس منہا کرکے بمشکل 4 سے 5فیصد مارجن مل رہا ہے۔ ان مشکلات کی وجہ سے ایکسپورٹ کے زیورات تیار کرنے والے کارخانوں کی بڑی تعداد بند کردی گئی ہے اور ہنرمند کاریگر بے روزگاری کا شکار ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سونے کے زیورات ایکسپورٹ کرنیوالوں کو کسٹم کی سطح پر سخت شرائط اور نت نئے ضوابط کا بھی سامنا ہے۔ محکمہ کسٹم نے حال ہی میں ایک نیا حکمنامہ جاری کیا ہے جس کے تحت ای فارم کے اجرا پر پابندی عائد کردی گئی ہے، اب ای فارم کے اجرا سے قبل کسٹم ڈپارٹمنٹ سے پیشگی اجازت لازمی قرار دی گئی ہے کنسائمنٹ ایکسپورٹ کرنے سے قبل کسٹم حکام ای فارم کی تصدیق اورجانچ کے بعد این او سی جاری کریں گے، اس کڑی شرط کی وجہ سے رہی سہی معمولی ایکسپورٹ بھی ختم ہوجائے گی۔
انھوں نے بتایا کہ کسٹم ایف بی آر اور ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ساتھ گزشتہ دو سال کے دوران متعدد اجلاس منعقد کیے گئے جس میں گھنٹوں کے بحث مباحثے اور ایکسپورٹ بحال کرنے کے لیے قابل عمل تجاویز مرتب کیے جانے کے باوجود بات وعدوں اور یقین دہانیوں تک ہی محدود ہے اور تاحال برآمد کو آسان بنانے کے لیے کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا جس سے ایکسپورٹرز میں مایوسی پائی جاتی ہے۔سونے کے زیورات کی ایکسپورٹ کی طرح سونے کی درآمد بھی مشکل تر کردی گئی ہے سونے کی امپورٹ پر ڈیوٹی اور ایڈوانس انکم ٹیکس کی مجموعی4 فیصد کی شرح کی وجہ سے سونے کی قانونی راستے سے درآمد محدود جبکہ اسمگلنگ میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے۔
جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں سونے کی درآمد پر چار ہزار روپے فی کول فکسڈ ڈیوٹی عائد کی تھی اس وقت تمام سونا قانونی ذرائع سے لایا جارہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ سونے کی درآمد پر ڈیوٹی اور ٹیکسز کے خاتمے سے ایک جانب اسمگلنگ کا خاتمہ ہوگا، دوسری جانب قانونی ذرائع سے ڈکلیئرڈ سونا درآمد کرکے اس کے زیورات تیار کرنے والے جیولرز سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس کے دائرے میں آئیں گے۔