پاکستان کے ٹاپ حکمرانوں سے لیکر نیچے کی لیڈر شپ تک کرپشن میں لت پت گذشتہ حکومت، جس کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے، مہنگائی، بیروزگاری، لوڈ شیڈنگ، دہشت گردی، خود کش حملے، لاء اینڈ آڈر، بیروانی مداخلت، قرضوں میں جھگڑے لوگ تنگ آگئے تھے۔
ان ہی پریشانیوں کی وجہ سے عوام نے گذشتہ حکومت سے جان چھوڑائی تھی اور نئی حکومت کو منتخب کیا تھا۔ عوام کی سوچ تھی کہ شاید نئی حکومت ان کے دکھوں کا مداوا کرے گی مگر پچھلے روش سے ذرا برابر بھی فرق نہ محسوس کرنے والے لوگوں کی وہی پریشانیاں ہیں۔
سال ٢٠١٣ء گزر گیا مگر عوام کی حالت نہیں بدلی اور ٢٠١٤ء بھی ایسا ہی رہنے کی تشویش میں عوام مبتلا ہیں موجودہ حکومت نے الیکشن کے دوران عوام سے جو وعدے کیے تھے ان پر ذرا برابر بھی عمل نہیں کیا عوام بلبلہ اُٹھے ہیں کہ اللہ کوئی سبب بنا دے۔ وزیر اعظم صاحب کو بیرونی ملکوں کے دوروں سے فرصت نہ ملی کہ وہ پاکستان کے عوام کی خبر لیتے اس پر کالم نگاروں نے اخباروں میں طنزیہ لکھا کہ وزیر اعظم صاحب پاکستان کے دورے پر کب آئیں گے؟ پاکستان کے دورے پر تو وزیر اعظم صاحب آگئے اب مذید عوام دیکھیں گے کہ اُن کا کیا حشر ہوتا ہے سب سے پہلے مہنگائی اور بیروزگاری کی اگر بات کی جائے تو ضرورت اس بات کی تھی کہ موجودہ حکومت کو آتے ہی کہیں نہ کہیں سے بھی فنڈ میں کٹوتی کر کے اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں کمی کرنی چاہیے تھی تا کہ عوام کو فوراً ریلیف ملتا اور عوام کی نئی حکومت سے کوئی اُمید بندھتی مگر مہنگائی اور بیروزگاری پہلے سے زیادہ ہو گئی بلکہ اب تو پاکستان ایشیاء میں مہنگائی کی لسٹ میں نمبر ون ہو گیا ہے۔
الیکشن میں عوام سے لوڈ شیڈنگ کا وعدہ دوسال کا کیا گیا تھا مگر اب چار سے پانچ سال تک برداشت کا سبق پڑھایا جا رہا ہے یعنی موجودہ حکو مت خاتمے پر ہو گی تب بھی لوڈشیڈنگ ختم نہ ہو گی تجزیہ نگاروں کے مطابق اگر ڈسٹری بیوشن کے نظام میں بہتری لائی جائے تو بھی کچھ نہ کچھ بجلی بچ سکتی ہے حکومت کے اپنے اداروںپر واپڈا کے بقایاجات کی خبریں اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں اگر یہ ادارے بقایاجات ادا کر دیں اور آیندہ وقت پر بجلی کے بل ادا کر دیں تو بھی بات بن سکتی ہے بڑے بجلی چوروں کو پکڑنے کا بہت شور مچا تھا اس میں بے دلی سے کوشش کی گئی اور بڑے بجلی چوروں کو گرفت میں نہ لیا گیا جس سے حالت خراب سے خراب تر ہو گئے ہیں۔
دہشت گردی سے چھٹکارے کی اگر بات کی جائے تو سب کو معلوم ہے کہ قوم دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے قوم کے غالب حصے کا کہنا ہے کہ اپنے لوگ جنہوں نے ہتھیار اُ ٹھا لیے ہیں یا ہتھیار اُٹھانے پر مجبور کر دیے گئے ہیں اُن سے مذاکرات کئے جائیں حکومت نے نیم دلی دکھائی اور ابھی تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا اُوپر سے امریکہ بہادر نے ڈرون حملہ کر کے مذاکرات کو نہ ہونے دیا اب پھر اُس کے مقامی ایجنٹوں نے شمالی وزیرستان میں ہماری فورسز پر حملہ کر کے سازشیں شروع کر دیں ہیں یہ ہماری فوج کو اُلجانے کی سازش کی ہے جس پر محب وطن عوام پھر پریشان ہو گئے ہے ملک کے خیر خواہ طبقہ بار بار کہہ چکاہے ہم اپنے لوگوں سے کب تک لڑتے رہیں اس لیے مقتدر حلقوں کو اِس سازش کا ادراک کر کے مذاکرات فوراً شروع کرنے چاہیے جو سال گذشتہ میں نہ ہو سکے۔
Drone Attacks
ڈرون حملے بند کروانے کے لیے تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے ناٹو سپلائی ایک ماہ سے زائد عرصے سے روکی ہوئی ہے اس سے امریکا پر دبائو پڑے گا ویسے اب ڈروان حملے کم بھی ہو گئے ہیں جہاں تک لوڈشیڈنگ کا معاملہ ہے عوام بہت پریشان ہے گھروں، اسکولوں، ہسپتالوں، فیکٹریوں کی پریشانیاں دور کرنے کے منصوبے بنانے کے بجائے چین سے گوادر تک تجارتی کوری ڈور بنانے کے منصوبے کی بات کی جا رہی ہے ہیں جناب حکومت کو عوام کو بجلی کی دستیابی پر دھیان دینا چاہیے تاکہ عوام کے دکھوں کا مداوہ ہویہ تو بھوکے کو بسکٹ کھانے والے مشورے کی بات ہے کہ کب تجارتی کوری ڈور کا منصوبہ مکمل ہو گا اور لوگوں کو روزگار ملے گا چین سے دو ایٹمی بجلی گھروں کا معاہدہ کیا گیا ہے ٹھیک ہے مگر وہ بھی ٢٠١٩ء میں کہیں جا کر مکمل ہو گا۔
اینٹی کار لفٹنگ سیل کے مطابق کراچی میں سال٢٠١٣ء میں ٢٤٢ مال بردار گاڑیاں لوٹ لی گئیں، ٤٠٧٥ گاڑیاں چوری ہوئیں یا چھین لی گئیں اور ١٦٠٨٣ موٹر سائیکلیں چوری ہوئیں۔ دہشت گردی، خودکش حملے اور لاء اینڈ آڈر کی بات کی جائے تو کراچی میں جو ٹارگٹڈ آپریش شروع کیا گیا ہے اُس سے کچھ نہ کچھ بہتری آئی ہے مگر اِسے پوری دل جوہی سے مکمل کرنا چاہیے تاکہ ٹار گٹڈ کلرز اور بھتہ خوروں سے جان چھوڑائی جا سکے اور پاکستان کو ستر فی صد ریونیو دینے والے شہر کی رونکیں دوبارا بحال ہوں تاجر لوگوں کو اس عذاب سے نجات ملے ملک کی معیشت ترقی کرے گذشتہ سال اور اُس سے قبل بھی عوام عدلیہ کو سلام پیش کرتے ہیں جس نے عوام کو انصاف مہیا کرنے میں بہت کا م کیا عوام کا لوٹا ہوا پیسہ واپس قومی خزانے میں جمع کروایا کرپٹ سیاستدانوں اور بیروکریٹز کو انصاف کے کہٹرے میں لائے عوام کو ٢٠١٤ء میں بھی عدلیہ سے ہی اُمید ہے کرپشن پر کنٹرول کرے گی اور انصاف کا بول بھالا ہو گا۔
دہشت گردی اور خود کش حملے اُس وقت تک ختم نہیں ہو سکتے جب تک ڈرون حملوں میں بے گناہوں کو شہید کرنے کی پالیسی کو تبدیل نہیں کیا جاتا یہ امریکہ کی جنگ ہے اس سے باہر آئے بغیر دہشت گردی اور خودکش حملے بند ہونا ممکن نہیں لہٰذا جتناجلد ہو سکے حکومت کو اپنی خارجہ پالیسی پارلیمنٹ کی قراردوں، اے پی سی کے فیصلوں اور جرگوں کی سفارشات کے مطابق تبدیل کرنی چاہیے۔ جہاں تک ملکی معیشت کا تعلق ہے موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف سے ٧.٦ ارب ڈالر کا قرض لیا تاکہ پرانی قسط ادا کی جا سکے اس وجہ سے سیلز ٹیکس، پٹرول اور بجلی گیس میں اضافہ جس مہنگائی بڑھ گئی ہم کئی بار اپنے کالموں میں ذکر کر چکے ہیں کہ سودی نظام میں ملکوں کو جھگڑنے والے بین الاقوامی فنڈ مہیا کرنے والے اداروں کے چکر میں جو بھی ملک پھنسا وہ دیوالیہ ہی ہو گیا سود کی رقم ادا کرنے کے لیے نئے قرضوں کے حصول کی پالیسی سے ملک کی معیشت بیٹھ جاتی ہے اخباری اطلاع کے مطابق آئی ایم ایف سے ٥٥ کروڑ٤٠ لاکھ ڈالرکی دوسری قسط مل گئی ہے مگر یہ امدادی رقم فروری٢٠١٤ء تک واپس سود کی ادائیگی میں چلی جائے گی اس طرح پاکستان سود در سود کے جال میں جھکڑا رہے گا ہم مسلمان ہیں سود اللہ اور رسولۖ سے جنگ ہے لہٰذا سودی قرضوں سے جان چھڑانی چاہیے خود انحصاری پالیسی پر عمل کرتے ہوئے ملک کو اس عذاب سے باہر نکالنا چاہیے۔ اس سلسلے میں غیر ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی ، ترقیاتی اسکیموں کو شفاف بنانے، کرپشن کو روکنے ہے، سیاسی رہنمائوں کی مراعات میں میجر کمی ہونی چاہیے سیاست دانوں، بیروکریٹ کسی بھی پاکستانی کا باہر ملکوں سے سرمایہ واپس پاکستان آنا چاہیے الیکش کمیشن کی ایف بی آر کو مہیا کی گئی لسٹ کی مطابق ٢٠١٣ء کے الیکش میں حصہ لینے والے ٢٤ہزار ٢٦٨ اُمیواروں میں سے دس ہزار سے زائد سیاست دانوں کے پاس این ٹی این نمبر ہی نہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ سیاست دانوں کے ایک اخباری اطلاح کے مطابق پچاس فی صد ٹیکس نہ دینے پر غیر ملکی امداد ملنا بند ہو جائے گی۔
قارئین! عوام کے آئیڈیل حکمران تو ہمارے پیارے پیغمبر حضرت محمد صلی علیہ وسلم اور اُن کے خلفائے راشدین ہیں جنہوں نے اسلام کی فلاحی ریاست قائم کر دکھائی جو ہر وقت دل میں اللہ کا خوف رکھتے تھے اور حکومتی خزانے کو مال یتیم سمجھتے تھے اور اللہ سے ڈر ڈر کر خرچ کرتے تھے کفایت شعاری پر عمل کرتے تھے مگر ہمارے ملک کے حکمرانوں کے بڑے بڑے محلات اُن کے شاہانہ اخراجات اور حکومت کی پالیسیوں سے تو نظر آ رہا ہے کہ کوئی بھی حکمران اور سیاست دان اس سال بھی کفایت شعاری پر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی انہوں نے اپنی شاہانہ روش بدلنی ہے عوام پاکستان میں قائد اعظم کے ویژن والے اسلامی فلاحی نظام حکومت کو پچھلے سال کی طرح اس سال بھی ترستے ہی رہیں گے ان حالات میں سال٢٠١٣ء کے حالات ٢٠١٤ء میں ویسے ہی رہنے کی تشویش نے عوام کو غم میں مبتلا کر دیا کہ کب اس ملک کے حالات بدلیں گے، امن وسکون ہو گا، مہنگائی اور بیروزگاری ختم ہو گی۔ لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے نجات ملے گی، دہشت گردی ختم ہو گی انصاف کا بول بالا ہو گا ہماری دعاء ہے کہ اللہ ہمارے ملک پاکستان کا پاسبان ہو آمین۔