پاکستان مسلم لیگ ن اپنی مدت معیاد پوری کرنے کے بعد الوداع ہو گئی۔ ن لیگ کی حکومت جب 2013 میں قائم ہوئی اسی دن سے اس کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہو گئیں۔ بہت سے بحران اس کی راہ میں حائل ہوئے مگر جوں توں کرکے اس نے اپنی مدت معیاد پوری کرلی۔ اس دوران انہیں اپنے وزیزاعظم اور پارٹی کے سربراہ میاں نوازشریف کی قیادت سے ہاتھ دھونا پڑا۔ نوازشریف کے جاتے ہی اور حکومتی مدت معیاد پوری ہوتے ہی بہت سے فصلی بیٹروں نے اڑان شروع کر دی۔ کسی نے سبز باغ کے دھوکوں میں آکر پارٹی بدلی تو کسی نے کسی کے خوف سے۔ جیسے ہی الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیا گیا تمام سیاسی جماعتوں کی طرح ن لیگ نے بھی الیکشن 2018 کے حوالے سے اپنی تیاریوں کا باقاعدہ آغاز کر دیا اور الیکشن 2018 میں حصہ لینے والے امیدواروں کے ناموں پر غور شروع کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں ن لیگ کی جانب سے الیکشن 2018 میں حصہ لینے والے امیدواروں کے حلقوں میں ان کی مقبولیت کو جانچنے کیلئے خفیہ سروے بھی کروایاگیا۔ ن لیگ کے ذرائع کے مطابق خفیہ سروے کے دوران امیدواروں کی حیثیت ،ساکھ اور ان کی حلقے میں مقبولیت کو دیکھا گیا جبکہ پرانے امیدواروں کی مقبولیت کم ہونے پر نئے چہروں کو الیکشن 2018 کیلئے میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا گیا۔
الیکشن میں کاغذات نامزدگی سے لیکر نشان الاٹ ہونے تک کا مرحلہ مکمل ہوگیا۔ انتخابات 2018 کے قریب آتے ہی ن لیگ مشکلات سے دو چارہوگئی اورکئی حلقوں میں الیکشن مہم چلانا مشکل ہوگیا۔بہت سے ن لیگی امیدواروں نے یہ سوچتے ہوئے کہ شائد اس بار ”ن لیگ ”کی حکومت نہ بنے اس لیے انہوں نے تحریک انصاف کی چھتری پر بیٹھنا شروع کردیا اور چند مفادی لوگوں نے پارٹی پالیسی کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنے مفاد کے لیے پارٹی کے پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر یہ مفادی لوگ اتنے ہی اپنے ضمیر کے پابند تھے تو اقتدار کے دوران چھوڑ کر کیوں نہیں گئے۔ کیا ان کا ضمیر اس وقت سویا ہوا تھا جواب اقتدار کے خاتمے کے بعد بیدار ہوا؟اگر میں ان لوٹوں پر تفصیلی بحث شروع کردوں تو یہ کالم بہت لمبا ہوا جائے گا لیکن چند ایک معززین پر روشنی ضرور ڈالی جائیگی تاکہ پتاتو چلے ان کی مجبوری کیا تھی جو اتنا عرصہ ”ن لیگ” کے ساتھ رہ کر اب کیوں بغاوت کی؟ اگر ٹکٹ نہ ملنے پر بغاوت کی ہے تو پھر حلقے کی عوام کو بھی حق حاصل ہے کہ وہ ایسے لوٹوں کے جھانسے میں نہ آئیں اور اپنے مستقبل کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کریں۔
ٹکٹ نہ ملنے پر پارٹی چھوڑ نے والوں میںچوہدری نثار،زعیم قادری اورچوہدری عبدالغفور اور سردار مہتاب عباسی شامل ہیں۔ جنہوں نے پارٹی پالیسیوں کو ذاتی ملکیت سمجھتے ہوئے ن لیگ سے ناراض ہوگئے۔سردار مہتاب عباسی جو خیبر پختونخواہ میں ن لیگ کا ایک بہت بڑا نام تھا۔انہوںنے بھی اپنی انا کے خول میں رہتے ہوئے ٹکٹ نہ ملنے پر پارٹی سے راہیں جدا کرلیں۔یہی نہیںان کے چاروں ساتھیوں امیدوار پی کے 36سے سردارفرید، پی کے 37 سے سردار اورنگزیب ، پی کے 38 سے ارشد اعوان اور پی کے39سے عنایت خان نے احتجاجاََ ٹکٹ واپس کرا دیئے ۔ لاہور سے زعیم قادری نے بھی پارٹی چھوڑدی۔ آٹھ سال تک نوازشریف کے ترجما ن رہنے والے نے بھی اپنی ذات کے لیے پارٹی کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا۔ انہوں نے کہا کہ” میاں شہباز شریف نے مجھے کہا کچھ لوگوں کو تمہاری شکل پسند نہیں ہے۔ انہوں نے کہا میں حمزہ شہباز کے جوتے پالش نہیں کر سکتا، میں مالشیا نہیں ہوں۔ سنو حمزہ شہباز! لاہور تمہاری جاگیر نہیں ہے۔ سیاست میں رہوں نہ رہوں لیکن کسی کے آگے سر نہیں جھکاؤں گا۔ مجھے نواز شریف سے گلہ ہے انہوں نے مجھے 10 سال نہیں پوچھا اور ساتھ ہی نعرے لگوادیے کہ گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دو۔”یہی نہیں ان کی اہلیہ عظمیٰ قادری نے مخصوص نشستوں پر مسلم لیگ (ن) کی صوبائی اسمبلی کی ٹکٹ واپس کر دی۔
لاہورہی سے عبدالغفور میو نے بھی ٹکٹ نہ ملنے پر ن لیگ کے خلاف آواز اٹھا دی۔انہوں نے کہا کہ” ہم نے ہر مشکل وقت میں پارٹی کا ساتھ دیا لیکن پارٹی ٹکٹوں کی خرید و فروخت ہوئی اور گونگوں بہروں کو ٹکٹوں سے نوازا گیا۔حمزہ شہباز سن لو! لاہور تمہاری اور تمہارے باپ کی جاگیر نہیں۔ مجھے سب پتہ ہے کون سا ٹکٹ کتنے میں بکا اور کس نے گورنر بننے کے لیے کتنے پیسے دیئے، مسلم لیگ (ن) سے پوچھتا ہوں ٹکٹ لینے کا کیا طریقہ ہے؟ کیا ماوری میمن، دانیال عزیز اور طلال چوہدری مشرف دور میں آپ کے ساتھ تھے؟ مسلم لیگ تب چھوڑنا چاہ رہا تھا جب ماڈل ٹاؤن کا واقعہ ہوا لیکن ایسی قیادت کے ساتھ کھڑا نہیں ہوسکتا جو ملکی اداروں کے خلاف سازش کرتی ہے۔ کوئی شخص پاکستان کی تقدیر سے نہیں کھیل سکتا اور نہ ہی پاکستان کسی شریف خاندان کی ملکیت ہےْ” چوہدری نثار نے بھی ن لیگ چھوڑی مگر انہوں نے باقی لوگوں کی طرح الزامات نہیں لگائے۔ انہوں نے کہا کہ ٹکٹ لینا ہوتا تو نواز شریف کو ایک درخواست دے دیتا لیکن میں ایک دفعہ تھوک کر دوبارہ نہیں چاٹتا، میں نے 34 سال سیاست کی اور بڑے بڑے عہدوں پر فائر ہوا لیکن اپنی ذات کے بجائے عوام کی ترقی کو ترجیح دی اور ساتھ ہی اپنی قیادت سے مدد لینے کے بجائے اس کی مدد کی لیکن نوازشریف نے 34 سالہ دوستی کا بدلہ مجھ سے بے وفائی کرکے دیا۔
اب یہ تو اللہ بہتر جانتا ہے کہ ن لیگی امیدوار جو کہہ رہے ہیں وہ درست ہے یا پارٹی قیادت کا فیصلہ درست ہے۔ فیصلہ اب عوام کے ہاتھوں میں آچکا ہے وہ لوٹوں کو ووٹ دیتے ہیں یا کہ حق پر ہونے والوں کو۔ ایک بات جو نوٹ کی جارہی ہے کہ ن لیگی امیدوار اس وقت بہت پریشر میں ہیں یہی وجہ ہے کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق این اے 190 سے سابق ایم این اے سردار امجد فاروق ،این اے 193 ،پی پی 293 سے شیر علی گورچانی،این اے 194 سے ڈاکٹرحفیظ الرحمان دریشک ،پی پی 295 سے پرویز اقبال گورچانی،پی پی 296 سے یوسف دریشک ،این اے 181 سے سلطان محمود ہنجرا،پی پی 237اور 238 سے شوکت لالیکا اور فدا حسین ،پی پی 184 اور185 سے سردارمحسن عطاکھوسہ اورپی پی 184 سے رضا علی جیلانی نے ن لیگ کا ٹکٹ واپس کردیااور آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ابھی آگے آگے دیکھتے جائیں یہ سیاست کیا کیا رنگ دکھا تی ہے۔ چوہدری نثار سمیت بہت سے آزاد امیدواروں کو جیپ کا نشان الاٹ کردیا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ نشان زیادہ تر ان امیدواروں کو دیا گیا ہے جو ن لیگ کو چھوڑ کر آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔میں نے بلدیاتی انتخابات پر ایک کالم لکھا تھااس وقت بلدیاتی انتخابات میں آزاد امیدوارںمیں ایک نشان ”بالٹی” بہت اہمیت کا حامل تھا۔ اس نشان پر الیکشن لڑنے والے زیادہ امیدواروں کے مقدر میں جیت آئی تھی۔ اس وقت بھی اس بالٹی کو حکومتی (ن لیگی )آشیرباد حاصل تھی ۔ اسی طرح اب جنرل الیکشن میں نشان ”جیپ ”اہمیت کا حامل ہوگیا ہے۔ جس طرح بالٹی نشان پرالیکشن لڑنے والوں کا جیت مقدر بنی تھی اسی طرح اب دیکھنا ہے کہ کیا ”جیپ” بھی اسی طرح جیت کا نشان بنے گا۔
اب تک کی جوصورتحال نظر آرہی ہے اس سے تو کسی پارٹی کی واضح اکثریت نظر نہیں آ رہی۔ ایسا لگ رہا ہے کہ آزاد گروپ کسی بھی پارٹی کی حکومت بنانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ن لیگ کو باقی پارٹیوں پر فوقیت حاصل ہے مگر انصافی بھی زیادہ پیچھے نہیں ۔اب 5جولائی کو ہی پتا چلے گا کہ کونسی پارٹی مردمیدان ٹھہرتی ہے اور کون وزیراعظم کا تاج اپنے سر پر رکھتا ہے مگر یہ بھی ذہین میں رکھنا کہ دھرنا سیاست جو شروع ہوئی وہ آنے والی حکومت کے لیے بہت پریشانیاں کھڑی کرے گا۔