بھارت میں عام آدمی پارٹی کی کامیابی اور اسکی حکومت کے عام آدمی کے ساتھ کیے گئے وعدوں پر فوری عملدرآمد سے جہاں بھارت میں عام آدمی کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے وہیں پاکستان میں بسنے والے وہ عام آدمی جس تک عام آدمی پارٹی کی کامیابی کی خبر پہنچ چکی ہے انتہائی خوش ہے اور اس میں عام آدمی کی اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے کی امید بھی جاگ چکی ہے۔
وہ امید جو عمران خان کے تیس اکتوبر کے جلسے کے بعد جاگی تھی مگر بدقسمتی سے عمران خان اس رستے سے ہٹ گئے اور اپنے لئے ایک ایسے رستے کا انتخاب کیا جو میرے خیال میں انھیں نہیں کرنا چاہِیے تھا اگر عمران خان اس رستے سے نہ ہٹتے تو عوامی سونامی اس حد تک آجاتا جسے کسی قسم کی دھاندلی نہیں روک سکتی تھی اس راستے کے انتخاب کے بعد عمران اپنی پارٹی کے اندر جاری جنگ کو ٹھنڈا کرنے میں جت گیا کیونکہ وہ لوگ جو کہ عام آدمی تھے۔
وہ کسی صور بھی ان تمام لوگوں کو پارٹی میں قبول کرنے کو تیا ر نہیں تھے لہذا پارٹی میں ایک کشمکش شروع ہوگئی جسکی وجہ سے عمران کے تبدیلی کے اس نعرے کو جھٹکا لگا جو کہ وہ کافی عرصہ لگاتا رہا اور جسکی شدید خواہش بلاشبہ آج بھی اسکے دل میں ہوگی مگر وہ اپنے ڈگر سے ہٹا ہے جسکی وجہ سے عام آدمی اس پر اعتماد کرنے میں جھجک محسوس کر رہا ہے وہ نوجوان جو عمران کے ایک نعرے پر لبیک کہتے ہوئے اپنا سب کچھ داوّ پر لگانے کو تیار تھے۔
وہ بھی اب پوری طرح مستعد نہیں ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ انکے لیڈر نے حالات سے سمجھوتہ کر لیا ہے اور کارکن ہمیشہ اپنے قائد سے حوصلہ اور ہمت لیتا ہے اسی وجہ سے تحریک انصاف کے جلسوں میں جس طریقے سے پہلے عام آدمی دلچسپی لیتا تھا اب اس نے دلچسپی لینا چھوڑ دی ہے یا یوں کہیں کہ کم کر دی ہے تو بے جا نہ ہوگا باوجود اسکے کہ عمران عام آدمی کی بھلائی کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے لیکن عام آدمی عمران پر اعتماد کرنے سے ہچکچا رہا ہے وہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی بری طرز حکومت کے باوجود بھی وہ سب نہیں کر رہا جسکی اس سے توقع کی جا رہی ہے یا جو اسے کرنا چاہئے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف نے یا عمران نے جس خاص طبقے کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے وہی اس ملک کی تقدیر کو بدلے گا مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عام آدمی کی متحرک شمولیت کے بغیر یہ خواب پورا نہیں ہوسکے گا عمران خان نے اپنی جماعت میں انتخابات کروا کر ایک ایسا اقدام کیا ہے جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے خیبر پختونخواہ میں عمران کے جیتنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے وہاں ایک درزی جماعتی انتخابات میں ضلع کے صدر بنا اور اسطرح کے کئی لوگ جو عام آدمی تھے وہ پارٹی کے اہم عہدوں پر فائز ہوئے مگر پنجاب میں ایسا کہیں دیکھنے میں نہیں آیا اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے میں یہ نہیں کہتا کہ عمران کو وہ تمام لوگ جو تیس اکتوبر کے بعد اس کی جماعت میں شامل ہوئے۔
Imran Khan
ان سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہئے لیکن پارٹی کے اہم عہدے اسے عام آدمی اور نوجوانوں کو ہی دینا ہونگے کیونکہ پرانے چہرے عمران کو سیاست اور ڈپلومیسی تو سکھا سکتے ہیں مگر عام آدمی کو اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکتے وہ تمام لوگ جو پارٹی میں تیس اکتوبر کے بعد آئے ہیں انہیں چاہئے کہ اگر وہ اپنا اس پارٹی کا اور اس ملک کا بھلا چاہتے ہیں تو رضا کارانہ طور پر پارٹی کے اہم عہدے عام آدمی اور نوجوانوں کے حوالے کر دیں بصورت دیگر یہ جماعت بھی دوسری جماعتوں کی طرح ہی تصور کی جائے گی۔ ایک اور طرف میں عمران خان کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ خیبر پختونخواہ کی حکومت عمران کے مستقبل کا فیصلہ کریگی پہلے تو عمران کو مبارکباد کہ پٹواری اور تھانہ کلچر میں خیبر پختونخواہ میں واضح تبدیلی نظر آنا شروع ہو گئی ہے لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے لہذا اسے فوری طور پر چند اقدامات کرنا ہونگے جن میں سر فہرست نوجوانوں کی تکنیکی و فنی تربیت کے ساتھ روزگار کی فراہمی اور بے گھروں خصوصا سالہا سال سے کرائے کے مکانوں میں رہنے والوں کے لئے کوئی ایسی سکیم جس کے ذریعے وہ دس سے پندرہ سال کرائے کی مد میں اس مکان کی قیمت ادا کر کے اس جگہ کے مالک بن سکیں۔
یہ دو چیزیں میں نہیں سمجھتا کہ اتنی مشکل ہیں اگر خان صاحب یہ دو چیزیں آنے والے سال میں کر گئے تو پورے ملک میں عمران کے سونامی کے زور منہ چڑھ کر بولے گا اور کوئی بھی اس سونامی کے آگے ٹھہر نہیں سکے گا کیونکہ عام آدمی کو اپنی علیحدہ جماعت بنانے کی ضرورت نہیں ہوگی اور وہ جوق در جوق عمران کی جماعت کو مضبوط کریں گے جو کہ حقیقی عوامی نمائندگی رکھنے والی جماعت ہوگی اور عوامی سونامی ہو گی لیکن اگر عمران نے اس دفعہ بھی اس گاڑی کو مس کر دیا اور اننگ کو اپنی مرضی کے مطابق آگے بڑھانے کی کوشش کی تو شاید اسکی سیاسی اننگ یہیں پر ختم ہو جائے بحیثیت ایک عام آدمی میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ عام آدمی یہاں پر بھی بیدار ہو چکا ہے۔
اس بات کا عمران سے بہتر کسی کو پتہ نہیں ہوگا عمران خان کو اپنے مشیر بھی تبدیل کرنا ہونگے کیونکہ جس صاف نیت کا وہ مالک ہے یا جتنی دلیرانہ صلاحیتوں کو وہ مالک ہے لوگ اس سے فیصلے بھی اسی طرح کے توقع کر رہے ہیں اور اگر پھر بھی ہوش کے ناخن نہ لیئے تو بہت جلد وہ ہو گا جسکا کوئی وہم و گمان بھی نہیں کرسکتا کیونکہ اب اس قوم کے پاس کھونے کو کچھ نہیں ہے اور اندھے کے ہاتھ میں ڈنڈا یا پتھر کتنا نقصان دہ ہو سکتا ہے اسکا اندازہ اسی کو ہو گا جسکے ساتھ یہ سب پیش آچکا ہو۔
Zahid Mehmood
تحریر : زاہد محمود فون نمبر : 03329515963 zahidmuskurahat1122@gmail.com