تحریر : میر افسر امان ایک اچھی خبر ملی کہ حکومت اور فوج کے درمیان ڈان لیک کا باب بند ہونے پر اتفاق ہو گیا ہے۔ فوج کے سربراہ اور وزیر اعظم صاحبان کے درمیان طویل ملاقات میں معاملہ طے ہو گیا۔وزیر اطلاعات پرویز رشید، خصوصی مشیر خارجہ طارق فاطمی اور رائو تحسین کو تحقیقی رپورٹ کے مطابق فارغ کر دیا گیا۔ ڈان اخبار کے لوگوں کا معاملہ پریس کے ذمہ داروں کے حوالے کر دیا گیا کہ وہ ان کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی کریں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب اپنی فوج کا احترام کریں اور جگ ہنسائی سے بچیں۔اس سے قبل بھی فوج کے خلاف بیان دینے پر حکومت اپنے ایک وزیر کو برخواست کر چکی ہے۔
امید ہے کہ آئندہ سب ادارے اپنے اپنے اختیارات کے دائرے میں رہ کر ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی سے اجتناب کریں گے۔وزیر اعظم صاحب اس ملک کے سربراہ ہیں سب اداروں کا فرض ہے کہ ان کے احکامات پر عمل درآمند کر کے پاکستان کو مضبوط کریں۔ وزیر اعظم صاحب کو بھی اپنی پرانی روش سے رجوع کرنا چاہیے جو ماضی میں ہو چکا سو وہ ہو چکا۔ آئندہ سب کو آگے کا سوچنا چاہیے۔ اپوزیشن کے مطابق اصل مجرم وزیر اعظم کی بیٹی مریم صاحبہ تھیں جنہیں بچا لیا گیا۔ یہ بھی بہت بڑی بات ہے کہ وزیر اعظم نے فوج کی عزت رکھتے ہوئے اپنے تین اہم لوگوں کی قربانی دے کر معاملہ کو حل کر لیا ۔ فوج نے بھی اپنا ٹویٹ سے رجوع کر لے لیا۔ اس فیصلہ سے فوج بھی مطمئن ہو گئی اور حکومت بھی۔ نادان دوست اور سیاسی فاہدہ اُٹھانے والوں کو یہ بات پسند نہیں آئی۔ پاکستان دشمن بیرونی قوتوں کو بھی یہ فیصلہ اچھا نہیں لگا۔پاکستان کی نادان اپوزیشن نے قومی مفادات کو سامنے نہیں رکھا اور بیان بازی شروع کر دی۔ اپوزیشن لیڈر فرماتے ہیں جب تک اصل مجرم کو سزا نہیں ملتی ڈان لیک کا فیصلہ نہیں ہوسکتا۔ فوج کے ترجمان کو استعفیٰ دے دینا چاہیے۔حکومت نے مریم صاحبہ کو بچا لیا۔پیپلز پارٹی والوں سے ایک سوال ہے کہ کیا فوج کا ترجمان بغیر فوج کے کوئی بیان اپنے طور پر دے سکتا ہے؟ نہیں دے سکتا اس کا جواب ہے۔ اگر اب فوج نے اس میں ملکی مفادات کے لیے اپنے مؤقف سے ایک اسٹپ ڈائون ہوئی ہے تو یہ ایک اچھا فیصلہ ہے اسی پر فوج کے ترجمان نے اپنے ٹویٹ سے رجوع کر لیا ویسے تو اگر دیکھا جائے تو ٹویٹ آنا ہی نہیں چاہیے تھا۔
اس معاملے کو اندرون خانہ مزاکرات کر کے طے کر لینا چاہیے تھا۔ پیپلز پارٹی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اپوزیش کی آڑ میں جو معاملہ حکومت اور فوج کے درمیان طے ہو گیا ہے اُس پر غیر دانشمندانہ بیان بازی شروع کر دے۔ اُسے یاد رکھنا چاہیے کہ اس کے شریک چیئر مین نے بھی فوج کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی شوخی ماری تھی ۔پھر ملک سے فرار ہو کر بیرون ملک چلے گئے۔ پھر معاملہ معافی تلافی کے بعد ٹھنڈا پڑا توملک سے محبت کرنے والے ذرائع نے سکھ کا سانس لیا تھا۔ کیا اس وقت نون لیگ نے اس معاملے کو غیر ضروری طول دینے میں حصہ لیا تھا؟نہیں لیا تھا۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد تو پیپلز پارٹی نے فوج کے خلاف دہشت گرد تنظیم الذولفقار بنا ڈالی تھی۔ جس نے پاکستان دشمنوں کے ساتھ مل پاکستان کو نقصان پہنچانے کی ناقابل تلافی حرکت کی تھی۔ اس پر بھی پاکستان نے پیپلز پارٹی کو معاف کر دیا تھا۔ یہ ملک کے اندر کے اختلافات ہیں ان کو دانشمندی سے حل کر لینا ہی پاکستان کے مفاد میں ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک کی بات نہیں کہ پاکستان میںسیاسدانوں کے ساتھ ساتھ فوج سے بھی سنگین غلطیاں ہوئی ہیں۔ڈکٹیٹروں نے ہمیشہ اصلاح کے نام پر پاکستان میں مارشل لاء لگا تھا۔ مقررہ وقت پر الیکشن کرانے کے وعدے بھی قوم سے کیے تھے۔ مگر اپنے آپ کو عقل کل سمجھ کر عشروں پاکستان پر ناجائز حکومت کی۔ کسی ڈکٹیٹرنے پاکستان کی اساس کے خلاف پاکستان کے بنیادی نظریہ کی مخالت میں بیرونی آقائوں کے کہنے پر اقدامات کیے۔ کسی نے اسلام کا نام لیکر کر حکومت کی۔
کسی نے روشن خیالی کا ڈول ڈالا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ عوام کی طاقت سے یہ تمام ڈکٹیٹرز بے آبرو ہو کر اقتدار سے نکلے۔ صاحبو! دنیا میں رائج جدید جمہوری نظام حکومت میں فوج کا کام سرحدوں کی نگرانی اورملک میں سول حکومت کی مدد سے امن وامان قائم رکھنا ہے نہ کہ سول حکومت پر قبضہ کرنا ہے۔ اسی اصول کو پاکستان میں پھولنا پھلنا چاہیے ۔نون لیگ کے بعد ٢٠١٣ء کے انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی تحریک انصاف کے لیڈر صاحب بھی اس فیصلہ سے نون حکومت کے ساتھ اختلافات کی وجہ سے ناخوش ہیں۔ ان کا کہنا ٹھیک ہے کہ ڈان لیک کا معاملہ نون حکومت اور فوج کا نہیں بلکہ یہ قومی مسئلہ تھا جو قومی مفادات سامنے رکھ کر حل کرنا چاہے تھا۔ ہمارے نزدیک سو خوبیوں کے باوجود ان کا ڈان لیکس کے معاملہ میں رویہ مناسب نہیں۔ حکومت اور فوج کا آمنے سامنے رہنا کسی طور پر بھی پاکستان کے قومی مفادات کے مطابق نہیں۔ہمارا ازلی دشمن بھارت ہمارے پڑوسی اسلامی ملکوں کو ہماری غلط خارجہ پالیسوں کی وجہ سے ہمارا مخالف بنا چکا ہے۔ ایران پاکستان کی سرحدوں کے اندر کاروائی کی د ھمکی دے رہا ہے۔افغانستان ہمارے ملک میں دہشت گردی کی کاروائیاں کر رہا ہے۔ آئے روز اس سے سرحدی تنازہ ہوتا ہے۔
آپ نے تو پشاورآرمی پبلک اسکول پر دہشت گرد حملے کے وقت دانش مندی اور قومی مفاد کو سامنے رکھ کر دھرنا ختم کر کے قوم کے اعتماد میں اضافہ کیا تھا قوم اب بھی آپ سے یہی توقع رکھتی ہے۔ سیاسی مفاد حاصل کرنے کے لیے قومی مفاد کو سامنے رکھنا چاہیے۔اسوقت ملک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ہماری سرحدوں پر دشمن حملے کر رہے ہیں۔ گریٹ گیم کے تحت پاکستان کے اسلامی تشخص کو ختم کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ مغربی دنیا کو پاکستان کاایک ایٹمی ملک ہونا پسند نہیں۔ ازلی دشمن بھارت مسلمانوں سے ہزار سال دور کی حکمرانی کا بدلہ لینے کی پلائنگ کر کے بیٹھا ہواہے۔ وہ بھارت کو اکھنڈ بنانے کی پالیسی پر کارمند ہے ۔ آئے روز اس کے جاسوس پکڑے جا رہے ہیں۔ اس کے مقامی ایجنٹ اس سے دہشت گردی کی ٹرنینگ اور فنڈ لینے کے اعتراف عدالتوں کے سامنے کر چکے ہیں۔ وہ ہمارے ایک بازو کو ہم سے جدا کرچکاہے۔ اس کے وزیر داخلہ بیان دے چکا ہے کہ پہلے پاکستان کو دوٹکڑوں میں تقسیم کیا تھا اب دس ٹکڑوں میں تقسیم کریں گے ۔تازہ بیان دیا ہے کہ بھارت کسی بھی وقت سر حد پار کر سکتاہے ہمارے پڑوسی مسلمان ملک ہمارے خلاف ہو چکے ہیں۔
ان حالات میں ملکی مفادات کا تقاضہ ہے کہ ہم ایک اور یک سوہو کر ملک کی ترقی اور حفاظت کی تدبیریں کریں۔ سیاسی اختلافا ت کو ایک طرف رکھ کر آنے والے انتخابت کی تیاری کریں۔ نون حکومت کو پانچ سال مکمل کرنے دیں تاکہ سیاست میں رواداری قائم ہو۔ فوج نے ملک میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردی کے خلاف ضرب الفساد ایکشن شروع کیا ہوا ہے اس سے تعاون کریں۔ اپنی صفوں سے کرپشن کرنے والوں کو تحفط دینے کے بجائے قانون کے حوالے کریں۔ یہی اس وقت کا سبق ہے۔ اگر ہم نے اس پر عمل نہیں کیا تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ اللہ سیاست دانوں اور فوج کو پاکستان کے معاملات کو درست سمت میں چلانے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
Mir Afsar Aman
تحریر : میر افسر امان کنوینر کالمسٹ کونسل اف پاکستان