تحریر : پروفیسر رفعت مظہر پاکستان شاید دنیا کے نقشے پر وہ واحد ملک ہےجہاں حکومتیں ووٹ کی طاقت سے نہیں بدلتیں۔ اِس کے باوجود بھی ہم ایک جمہوری ملک ہیں اور ہمیں جمہور کی طاقت پر ناز ہے۔ایوبی آمریت سے پہلے ایک دفعہ بھارتی وزیرِاعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے طنزیہ اندازمیں کہا تھا کہ وہ اتنے پاجامے نہیں بدلتے جتنے پاکستان میں وزیرِاعظم بدلتے ہیں ۔ایوبی آمریت کے بعد جنرل یحیٰ خاں بَرسرِ اقتدار آیا اور قائدِاعظم کا پاکستان دو لخت ہو گیا۔ نئے پاکستان کے بانی بھٹو مرحوم تھے جنہوں نے اپنے اراکینِ قومی اسمبلی کو ڈھاکہ جانے سے روکتے ہوئے کہا کہ جو اجلاس میں جائے گا ،اُس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ اِسی ہوسِ اقتدار نے بنگلہ دیش بنایا۔ یہ بجا کہ شیخ مجیب الرحمٰن کا بھی ملک کو دو لخت کرنے میں مکروہ کردار تھا لیکن اگر معاملات کو بہ اندازِ حکیمانہ ہینڈل کیا جاتا اور مجیب الرحمٰن کو اقتدار سونپ دیا جاتا تو شاید ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہماری عظمتوں کے تمغے نہ نوچے جاتے۔
‘گزشت آنچہ گزشت ”کے مصداق قوم نے اِس سانحۂ عظیم پر بھی صبر کر لیا لیکن اگلے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف پی این اے کی تحریک اُٹھی اور جنرل ضیاء الحق کو اقتدار پر قبضہ کرنے کا موقع مل گیا ۔ضیائی دَور میں بلند آہنگ سے اسلامی نظام کا شور اُٹھتا رہا لیکن ضیاء الحق کے قول وفعل میں اتنا تضاد تھا کہ اُن کے طویل دَورِ حکومت میں اسلامی نظام کے لیے کوئی ایک قدم بھی نہ اٹھایا گیا البتہ وہ قوم کو کلاشنکوف کلچر کا تحفہ ضرور دے گئے ۔اُنہی کے دَور میں کرپشن کا بول بالا ہوا اور ضیاء الحق نے خود اقرار کیا کہ ملک میں کرپشن بڑھ گئی ہے اور اب صورتِ حال یہ ہے کہ وطنِ عزیز میں کرپشن کا عفریت بے قابو ہے جو جَگ ہنسائی کا سبب بَن رہا ہے۔
طیارہ حادثے میں پیپلزپارٹی کو ایک دفعہ پھر حکومت کرنے کا موقع ملا اور بینظیر بھٹو برسرِ اقتدار آئیں۔ اُنہی کے دَورِ حکومت میں آصف زرداری کو ”مسٹر ٹِن پرسنٹ ”کا خطاب ملا ۔صرف ایک عشرے میں بینظیر اور نوازشریف کی حکومتوں کو دو ،دو بار گھر بھیجا گیا اور بالآخر قوم پر ”مشرفی آمریت ” مسلط کر دی گئی ۔بینظیر اور نوازشریف کے ادوار میں نوازلیگ اور پیپلزپارٹی ایک دوسرے کو سکیورٹی رِسک قرار دیتی رہیںجِس کی بنا پر مقتدر حلقوں کو کھُل کھیلنے کا موقع ملتا رہا۔
ہم نے پاکستان کی مختصر ترین تاریخ کا تذکرہ محض اِس لیے کیا ہے تاکہ قارئین کو علم ہو سکے کہ ٹیڑھ کہاں پر ہے۔ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ سارا قصور ہمارے سیاسی رہنماؤں کا ہے جو ملک و قوم کی خدمت کے جذبے سے سرشار نہیں ،اقتدار کا نشہ لینے کے لیے میدانِ عمل میں اترتے ہیں ۔قابلِ نفرین امر یہ ہے کہ اُنہیں اقتدار خواہ کہیں سے ملے ،وہ اُسے چوم کر گلے لگا لیتے ہیں ۔یہ ہمارے سیاسی رہنماء ہی تھے جنہوں نے ایوبی آمریت کا ڈَٹ کر ساتھ دیا ۔ایوب خاں کی اٹھارہ رُکنی کابینہ میں ذوالفقار علی بھٹو واحد سویلین وزیر تھے، باقی سب فوجی۔ جب ایوب خاں نے بنیادی جمہوریت کا ڈول ڈالا تو سیاستدان دھڑادھڑ اُن کے گرد جمع ہوتے چلے گئے ۔ضیائی دَورِآمریت میں کون سی جماعت ایسی تھی جس کے اراکین ضیاء کی کابینہ میں شامل نہیں ہوئے؟ ۔مشرفی دَورِآمریت میں بھی پرویز مشرف کو دَس بار وردی میں منتخب کروانے والے بھی بہت تھے ۔چودھری برادران نے اقتدار کے مزے لوٹے اور لال حویلی والا شیخ رشید تو پرویز مشرف کی والدہ کو ”امّی جان” کہا کرتا تھا ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے سبھی حکمران مارشل لاء کی نرسری ہی سے پَل بڑھ کر جوان ہوئے ہیں ۔بھٹو کو ایوب خاں کا ”پَیرٹ” کہا جاتا تھا ۔میاں نوازشریف کو جنرل ضیاء الحق اپنی عمر لگ جانے کی دعا ئیں دیا کرتا تھا۔بینظیر اپنے دَورِ حکومت میں فوجی سربراہ کو ”تمغۂ جمہوریت دیتی نظر آئیں ۔ چودھری برادران پرویز مشرف کے دست و بازو بنے اور کپتان تحریکِ انصاف کا جھنڈا پکڑ کر پرویز مشرف کے جلسوں میں شریک ہوتے رہے۔ہم فوجی آمروں پر الزام تو دھرتے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہماری کرتوتوں کے طفیل ہی یہ دھرتی مارشلاؤںکی زَد میں رہی ۔ گویا ”میں الزام اُن کو دیتا تھا ، قصور اپنا نکل آیا”۔ اب بھی حالات مختلف نہیں ہیں اور کسی وقت بھی ،کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
ہمارے حکمرانوں نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا ۔سچ یہی ہے ”تاریخ کا سبق یہی ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا”۔ پاناما کیس کی سماعت جاری ہے ۔ہمیں نہیں معلوم کہ اونٹ کِس کروٹ بیٹھے گا اور سپریم کورٹ کا فیصلہ کیا ہوگا لیکن جو کچھ سپریم کورٹ کے احاطے کے باہر ہو رہا ہے ،وہ انتہائی خطرناک ہے ۔تحریکِ انصاف کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ نوازلیگ نے اپنے کارکنوں کے درمیان اسلحہ اور ڈنڈے تقسیم کیے ہیں تاکہ سپریم کورٹ میں سماعت کے دَوران مخالفین پر ڈنڈے برسا سکیں ۔ایسی ”واہیات” بات صرف بابر اعوان ہی کر سکتا ہے جس کے پاس اپنی کسی بھی بات کا کبھی بھی کوئی ثبوت نہیں ہوتا لیکن اُس کی اِس شَرپسندانہ حرکت سے تحریکِ انصاف اور نوازلیگ کے کارکنوں میں اشتعال پھیلا اور 18 جولائی کو سپریم کورٹ کے احاطے کے باہر دونوں جماعتوں کے کارکُنان ایک دوسرے سے گُتھم گُتھا ہو گئے ۔اُن کا جوش اِس قدر عروج پر تھا کہ وہ اپنے رہنماؤں کے قابو سے بھی باہر ہوتے نظر آئے۔ اشتعال ،جلاؤ گھراؤ اور گالی گلوچ کی سیاست کے بانی عمران خاں تواتر کے ساتھ اپنے کارکنان کو تیار رہنے کا حکم دے رہے ہیں ۔گویا وہ خون آلود تصادم چاہتے ہیں ۔ہم سونامیوں کو کہتے ہیں کہ وہ ضرور اپنے رہنماء کے حکم پر اپنی جان تک وار دینے سے بھی دریغ نہ کریں لیکن اِس شرط کے ساتھ کہ پہلے وہ اپنے بیٹوں کو لندن سے بلائیں اور وہ قوم کے نوجوانوں کو ”لِیڈ” کریں ۔اگرکپتان ایسا نہیں کر سکتے تو پھر اُنہیں سوچنا چاہیے کہ وہ جِن نوجوانوں کو تصادم کا درس دے رہے ہیں ،وہ بھی کسی باپ کی لاٹھی اور ماں کی اُلفت و محبت کے شاہکارہیں ۔کُرسی کی ہوس کیا انسان کو لازمۂ انسانیت سے اتنا ہی تہی کر دیتی ہے کہ وہ لاشوں کی سیاست پہ اُتر آئے۔
18 جولائی کے تصادم سے چودھری نثار علی خاں بُری طرح یاد آئے ۔وہ اِس قسم کی صورتِ حال سے خوب نپٹنا جانتے ہیں ۔اُن کی موجودگی میں حالات ابتری کی طرف نہیں بلکہ بہتری کی طرف جاتے ہیں۔چودھری صاحب آجکل کمر درد کی وجہ سے دفتری امور انجام نہیں دے رہے ۔ڈاکٹرز نے اُنہیں مکمل آرام کا مشورہ دیا ہے ۔اللہ تعالےٰ اُنہیں صحتِ کاملہ عطا فرمائے اور ہم اُنہیں ایک دفعہ پھر ملک و قوم کی خدمت کرتا ہوا پائیں۔ اُن کی جلد صحت یابی اِس لیے بھی ضروری ہے کہ پچھلے دِنوں ہونے والی کابینہ میٹنگ کے بعد اُن کے بارے میں افواہوں کا بازار گرم ہے ۔ہم توقع کرتے ہیں کہ دبنگ وزیرِداخلہ صحت یاب ہو کر پریس کانفرنس میں افواہ سازوں کو مُنہ توڑ جواب دیں گے۔