وطن عزیز پاکستان اسلام کے نام پر بنا یا گیا واحد ملک ہے جس کے قیام کے لئے مسلمانوں نے قربانیاں دیں تا کہ ایک آزاد ملک میں امن و سکون اور آزادی کے ساتھ اسلامی شعائر ادا کر سکیں۔پاکستان کے قیام کے اغراض و مقاصد میں اسلامی ریاست کے قیام کی خواہش، اسلامی معاشرے کا قیام،اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا تحفظ، اردو زبان کا تحفظ و ترقی،مسلم تہذیب و ثقافت کی ترقی، مسلمانوں کی آزادی، مسلمانوں کی معاشی بہتری، مسلمانوں کی سیاسی و معاشتری ترقی، ہندوؤں کے تعصب سے نجات، کانگریس سے نجات، رام راج سے نجات، انگریزوں سے نجات، تاریخی ضرورت، پر امن فضا کا قیام، اسلام کا قلعہ، ملی و قومی اتحاد، اتحاد عالم اسلام شامل تھے۔
یہ ملک دو قومی نظریہ کی بنیاد پر حاصل کیا گیا تھا لیکن افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ پاکستان میں نظریہ پاکستان کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں اور بیرونی قوتیں اس ملک کو سیکولر بنانا چاہتی ہیں۔ 23 مارچ کو پاکستان بنانے کی قرارداد منظور کی گئی تھی اور پھر مسلمانوں نے دو قومی نظریہ کی بنیاد پر لاالہ الااللہ کا نعرہ بلندکیا اور اس بات کا اعلان کیا تھا کہ مسلمانوں اور ہندوئوں کے عقیدے، رہن سہن اور کلچر و ثقافت الگ الگ ہیں وہ کسی صورت اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ اس مقصد کیلئے لاکھوں مسلمانوں نے قربانیاں پیش کیں اور پاکستان کے نام سے الگ خطہ حاصل کیا مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ آج قیام پاکستان کے مقاصد کو بھلا دیا گیا ہے۔
پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ کا نعرہ نوجوان نسل کے ذہنوں سے نکالنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ہندسرکار نے شروع دن سے پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا اور ہمیشہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش کی ہے۔ خاص طور پر پچھلے بارہ برسوں میں انڈیا نے خطہ میں امریکہ کی موجودگی سے بہت فائدے اٹھائے ہیں۔ ملک میں ہونے والی دہشت گردی وتخریب کاری میں بھارت سرکار ملوث ہے اور پاکستانیوں کو گروہ بندیوں میں تقسیم کرنے کی خوفناک سازشیں کی جارہی ہیں۔ ان حالات میں ضرورت اس امرکی ہے کہ قوم کو بھارتی سازشوں کے مقابلہ کیلئے متحد و بیدار کیا جائے لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ حکومت پاکستان لاکھوں مسلمانوں کے قاتل بھارت سے یکطرفہ دوستی پروان چڑھانے ، باہمی تجارت اور اپنے ہی دریائوں سے بجلی خریدنے کے معاہدات کئے جارہے ہیں۔ 23مارچ 1940ء کو مینار پاکستان پر دوقومی نظریہ کی بنیا دپر الگ ملک پاکستان بنانے کا اعلان کیا گیا تھا۔
اس لئے موجودہ حالات کے تناظر میں جماعة الدعوة پاکستان نے مینار پاکستان سے ہی نظریہ پاکستان مارچ کا اعلان کیا ہے ۔ دس بجے لاہور اوراس کے گردونواح سے مختلف مکاتب فکر اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لاکھوں افرا د مینار پاکستان جمع ہوں گے اور پھر مسجد شہداء مال روڈ کی جانب بڑا نظریہ پاکستان مارچ کیاجائے گا۔نظریہ پاکستان مارچ، جلسوں اور ریلیوں میں ملک بھر کی تمام مذہبی، سیاسی و کشمیری جماعتوں کو شریک کیاجائے گا۔امیر جماعة الدعوةحافظ محمدسعید نے پانچوں صوبوں و آزاد کشمیر کے ذمہ داران کو ہدایات جاری کی ہیں کہ 23مارچ کو پورے ملک میں تحصیلی سطح پر نظریہ پاکستان کے تحفظ کیلئے پروگراموں کا انعقاد کیا جائے تاکہ نظریہ پاکستان کے تحفظ کا عہد اور وطن عزیزپاکستان کے خلاف سازشوں کا توڑ کیا جا سکے۔جماعة الدعوة ایک محب وطن تنظیم ہے جس پر انڈیا کے دبائو پر اقوام متحدہ نے یکطرفہ فیصلہ سناتے ہوئے پابندی لگائی۔لیکن اس تنظیم کی کوئی ایسی سرگرمی نہیں جس پر اس کے کسی کے کارکن پر حرف آئے۔ملک بھرمیں جماعة الدعوة کے کارکنان موجود ہیں جو احیائے نظریہ پاکستان کی مہم چلا رہے ہیں۔یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر 5فروری کو بھی جماعة الدعوة نے ملک گیر یکجہتی کے پروگرامات کا انعقاد کیا تھا جن میں حریت رہنمائوں نے بھی خطاب کیا تھا۔
Hafiz Muhammad Saeed
اسلام و ملک دشمن جب بھی وطن عزیز کے خلاف سازشیں بناتے ہیں حافظ محمد سعید انکی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے دینی و سیاسی جماعتوں کو متحد کرتے ہیں اور انکو ناکام بنانے ،بیرونی طاقتوں کی سازشوں کا توڑ کرتے ہیں۔پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی و تخریب کاری میں بھارت ملوث ہے۔اسلام آباد کچہری حملے کے بعد تو وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے بھی کہہ دیا کہ بھارتی ایجنسی”را” کا نام آ رہا ہے۔اسے قبل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں واضح کہا گیا تھا کہ بھارت پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں ملوث ہے۔
حافظ محمد سعید بھارت کے خلاف کھل کر بولتے ہیں ۔بھارت پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی بجائے ہمیشہ الزامات ہی لگاتا ہے۔ساڑھے پانچ سال قبل ممبئی میں ہونے والے حملوں میں بھی جماعة الدعوة کے خلاف انڈیا نے پروپیگنڈہ کر کے آسمان سر پر اٹھایا مگر آج ساڑھے پانچ سال گزرنے کے باوجود انڈیا حافظ محمد سعید یا انکی جماعت کے خلاف ایک بھی ثبوت پیش نہیں کر سکا ۔انڈیا کی طرف سے پاکستان کی طرف آنے والے دریائوں پر ڈیم بنانے کی آبی دہشت گردی کی وارداتیں ہوں یا کنٹرول لائن پر باڑ لگانے کی گھنائونی چال،کشمیریوں پر بھارتی افواج کی طرف سے ہونے والے مظالم ہوں یا بھارتی ایجنسی کی پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں،حافظ محمد سعید دوسرے لفظوں میں بھارت کی ہر سازش کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرتے ہیں اسی لئے بھارت ہر وقت انکے خلاف پروپیگنڈہ کرتا رہتا ہے۔جماعة الدعوة کی احیائے نظریہ پاکستان ملک بھرمیں جاری و ساری ہے۔تا کہ وو قوتیں جو پاکستانی قوم کو قیام پاکستان کے نعرے ”پاکستان کا مطلب کیا،لاالہ الااللہ” سے ہٹا کر دوسرے نعرے دے رہی ہیں اور ملک کو ایک سیکولر سٹیٹ بنانا چاہتے ہیں انکی تمام کوششوں کو ناکام بنایا جائے ۔بانی پاکستان قائد اعظم نے قرار دار لاہور 23 مارچ 1940 کے صدارتی خطبے میں اسلام اور ہندو مت کو محض مذاہب ہی نہیں بلکہ دو مختلف معاشرتی نظام قرار دیا۔
ہندو اور مسلمان نہ آپس میں شادی کر سکتے ہیں نہ ایک دستر خوان پر کھانا کھا سکتے ہیں۔ ان کی رزمیہ نظمیں ، ان کے ہیرو اور ان کے کارنامے مختلف ہیں۔ دونوں کی تہذیبوں کا تجزیہ کرتے ہوئے آپ نے فرمایا : “میں واشگاف الفاظ میں کہتا ہوں کہ وہ دو مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان تہذیبوں کی بنیاد ایسے تصورات اور حقائق پر رکھی گئی ہے جو ایک دوسرے کی ضد ہیں۔” شروع شروع میں علامہ اقبال متحدہ قومیت کے حامی ہوتے تھے۔ مگر کچھ عرصہ بعد ہی آپ نے متحدہ قومیت کی تردید کردی اور علیحدہ قومیت کے تصور کی بھرپور حمایت شروع کر دی۔ مارچ 1909 میں ہندو رہنما منرو ا راج امرتسر نے علامہ اقبال کو مہمان خصوصی کی حیثیت سے متحدہ قومیت کے موقع پر خطاب کرنے کی دعوت دی۔
علامہ اقبال نے نہ صرف متحدہ قومیت کے تصور کو مسترد کر دیا بلکہ آپ نے مہمان خصوصی بننے سے بھی انکار کر دیا۔ آپ نے فرمایا: “میں خود اس خیال کا حامی رہ چکا ہوں کہ امتیاز مذہب اس ملک سے اٹھ جانا چاہیے مگر اب میرا خیال ہے کہ قومی شخصیت کو محفوظ رکھنا ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کے لیے مفید ہے۔بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور شاعر مشرق علامہ اقبال کے پاکستان کے حصول کے مقاصد کو نوجوان نسل کو روشناس کروانے کی ضرورت ہے کیونکہ دوقومی نظریہ سے ہی اس ملک میں امن،استحکام آئے گا۔