تحریر: شیخ خالد زاہد ہر خاندان اور ہر محلہ کسی نا کسی ایسے فرد کی زد میں ہوتا ہے، جس کی نظر سارے محلے اور خاندان پر ہوتی ہے اور جو سب کی خبر رکھنے کی کوشش کرتا ہے ۔ویسے تو محلوں میں حجام کی دکان خبریں جاننے کی بہترین جگہ ہوتی ہے۔ ایسا ہی کردار کی خواتین جو گھروں میں بطور ماسی اپنے فرائض انجام دیتی ہیں، ایک گھر سے سنی اور دوسرے گھر میں کچھ مصالحہ لگا کر سنا دی۔ ایسے لوگ خاندانوں میں لڑائیاں بھی کروانے کہ محرق بنا کرتے ہیں۔ لیکن ایسے لوگ معاشرے میں لازم و ملزوم سمجھے جاتے ہیں۔ کسی کیلئے ایسے لوگ بہت معزز ہوتے ہیں اور کوئی انہیں اچھی نظر سے نہیں دیکھتا مگر بچارے کیا کریں انہیں قدرت نے ایسے کام کیلئے دنیا میں بھیجا ہوتا ہے۔ انفرادی طور پر تو یہ سب ٹھیک ہے کوئی بات نہیں۔ حجام کی دکان تک بھی ٹھیک ہے کوئی بات نہیں اور ماسیوں کہ معاملات بھی کوئی پریشانی کی بات نہیں۔ مذکورہ افراد کی نشاندہی بہت آسانی سے کی جاسکتی ہے اور ان سے سچ اور جھوٹ بہت آسانی سے اگل وایا جا سکتا ہے ۔ یہ لوگ اپنے پیٹ کیلئے لگائی بجھائی کا کام سرانجام دیتے ہیں۔
دنیا کا ہر ملک اپنی بقا کیلئے باقاعدہ ایسے ادارے قائم کرتے ہیں جو آس پڑوس اور دور دراز کہ ممالک میں جا کر وہاں ہونے والی ہر قسم کی ضروری معلومات جمع کریں اور اپنے ملک کو فراہم کریں۔ ان اداروں کو خفیہ ادارے یا سیکریٹ سروسز کہا جاتا ہے۔ دنیا کہ چند ایسے اہم اور انتہائی مشہور اداروں میں پاکستان کی ائی ایس ائی، آمریکہ کی سی ائی اے، برطانیہ کی ایم ائی 6، روس کی ایف بی ایس، جرمنی کی بی این ڈی، بھارت کی را، فرانس کی ڈی جی ایس ای، آسٹریلیا کی ای ایس ائی ایس، چین کی ایم ایس ایس اور اسرائیل کی موساد قابلِ ذکر ہیں۔
پچھلے زمانوں میں ان اداروں کے بارے میں معلومات تو بہت دور کی بات، ناموں تک رسائی ناممکن سمجھی جاتی تھی۔ پھر دنیا میں معلومات کا طوفان آگیا اور دنیا نے تکنیکی ترقی کی تقریباً تمام حدوں کو چھولیا ہے، جس کی بدولت دنیا میں ہونے والے واقعات اور کون ان واقعات کی پشت پناہی کر رہا ہے جاننا کوئی مشکل بات نہیں رہا۔ یہ خفیہ ادارے اپنے ملک کی بقا کیلئے بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں اور دوسرے ملکوں کو کمزور کرنے میں مصروفِ عمل رہتے ہیں۔
Pakistan and India
پاکستان اور بھارت دنیا کہ دو ایسے ممالک ہیں جو 1947 میں برِ صغیر کی تقسیم کے بعد وجود میں آئے۔ یہ دونوں ممالک آج تک ایک دوسرے کی اہمیت کو ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ بھارت نے اپنی عیاری اور مکاری سے پہلے کشمیر پر قبضہ کیا اور پھر مشرقی پاکستان کو بنگلادیش بنانے میں قلیدی کردار ادا دیا۔ کشمیری آج بھی اپنی آزادی کی جدوجہد کیلئے بر سرِپیکار ہیں اور بے دریغ اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کر رہے ہیں بھارت کشمیریوں کی حقِ خود ارادیت کو ماننے کیلئے تیار نہیں بلکہ الٹا پاکستان کوگاہے بگاہے آنکھیں دیکھانے کی ناکام کوشش کرتا رہتا ہے۔
مجھے یہ لکھتے ہوئے بہت تکلیف ہو رہی ہے کہ کم وبیش پورے کا پورا پاکستان، بھارت کہ میڈیا کا دیوانہ ہے خصوصی طور پر انڈین ڈراموں اور فلموں کہ اکثر جگہوں پرتو ان ڈراموں کہ بغیر دن ہی مکمل تسلیم نہیں کیا جاتا، انڈین گانے تو ہم ہماری روحوں کی غذائیں بن چکی ہیں کسی بھی قسم کی کوئی تقریب ہو انڈین گانوں کہ بغیر مکمل تصور نہیں کی جاسکتی۔روز مرہ کی بول چال میں انگنت ایسے الفاظ شامل ہوچکے ہیں جو انڈین ڈراموں سے درآمد کئے گئے ہیں۔ ہمارے گھروں سے اٹھنے والی ہندو مذہب کی آوازیں کیا اس بات کی گواہی دینے کیلئے کافی نہیں کہ ہم معاشرتی طور پر بھارت کہ غلام ہوچکے ہیں۔ ہمیں وقت گزارنے کیلئے انڈین گانے یا انڈین فلموں کا سہارا لینا پڑتا۔ یہ پورے پاکستان کا المیہ ہے ۔ وہ گاؤں دیہات بھی اس الودگی سے پاک نہیں جہاں ہمارا بزدل دشمن دن رات گولیاں برساتا ہے۔
اس انڈین میڈیا نے اپنی خفیہ تنظیم “را” کا کام بہت آسان کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے درمیان گھومنے اور رہنے والے لوگوں میں یہ تمیز کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے کہ کون کیا ہے اور کہاں سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ مسلئہ پاکستان کہ ہر شہر کو درپیش ہے۔ اس کا منہ بولتا ثبوت پشاور، کوئٹہ اور لاہور میں ہونے والے دھماکوں اور فائرنگ کہ واقعات ہیں۔ ہم نے اپنے آپ کو طالبان کے پیچھے لگایا ہوا ہے اور ان کو مارنے کا کوئی موقع ہاتھ سے ضائع نہیں جانے دیتے۔ یہ بھی ہمارے دشمن ہیں لیکن ہمارا اصل دشمن ہمارا وہ ہمسایہ ملک ہے جس سے ہمارے تقریباً سارے ہی سیاستدان دوستی اور محبت کی امید لگائے بیٹھے رہتے ہیں۔ بھارت نے ہمیشہ پاکستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے اور ہم نے ہر بار اس زخم کو انتہائی فراخدلی سے سہا ہے۔
گزشتہ چھ ماہ یا اس سے کچھ زیادہ عرصے سے ملک کہ وزیرِ اعظم پر بھارتی دوست ہونے کا الزام بہت زور و شور سے چل رہا ہے مودی سرکار نے میاں صاحب کی نواسی کی شادی میں شرکت فرما کر کچھ شک و شبہات اور بڑھا دیئے ، اسکے علاوہ کچھ اور ایسے ثبوت منظرِ عام پر آئے جن کی ایماء پر وزیرِاعظم صاحب کی شخصیت پر سوالیہ نشان آگیا۔ بلوچستان کہ حالات گزشتہ کئی دہائیوں سے خراب چلے آرہے ہیں، پچھلی ساری حکومتیں ناراض بلوچوں کو منانے میں مصروف رہیں۔ آخر کار بلوچستان سے باقاعدہ انڈین خفیہ ایجنسی “را” کا نمائندہ پکڑا گیا اور اس نے بہت اہم انکشافات بھی کئے، اور اس “را” کہ نمائندے کی مخبریوں سے اور بہت سارے معاملات پر سے پردہ اٹھا۔ محمود خان اچکزئی پاکستان کی اہم سیاسی شخصیات میں شمار کئے جاتے ہیں۔ آپ تیسری بار پاکستان کی دستورساز اسمبلی کہ ممران منتخب ہوئے ہیں۔ گزشتہ دنوں ان کہ ایک بیان نے انہیں مشکوک بنا دیا، آج کہ اخبار میں علامہ طاہر القادری صاحب کو انکے سیاسی مخالفین نے “را” کا ایجنٹ قرار دے دیا ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کہ سربراہ عمران خان صاحب کو ایک مخصوص طبقہ یہودی ایجنٹ قرار دیتا ہے۔ ایک نیوز چینل “جیو” جس پر انڈین فنڈنگ کا الزام لگا کہ یہ چینل یا گروپ “را” کیلئے کام کر رہا ہے۔
RAW
گزشتہ کل پاکستان کی سیاست میں ایک اور بھوچال آیا جب سندھ کہ شہری علاقوں اور خصوصی طور پر کراچی کی نمائندہ سیاسی جماعت کہ طور پر جانی جانے والی متحدہ قومی مومنٹ کہ قائد الطاف حسین صاحب نے وطنِ عزیز پاکستان کیلئے ایسے نازیبا الفاظ استعمال کئے جو کسی بھی محبِ وطن کیلئے لکھنا تو دور بولنا بھی گوارا نیہں کرسکتا اور یہ حادثہ پہلی بار بھی نہیں ہوا۔ کراچی میں آپریشن جاری ہے (ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے کراچی آپریشن کی زد میں ہی ہے) متحدہ قومی موومنٹ کا یہ کہنا ہے کہ یہ آپریشن ہمارے خلاف ایک بھرپور سازش کہ طور پر کیا جا رہا ہے۔ بارہا متحدہ قومی موومنٹ کو “را” سے منصوب کیا گیا ہے کہ یہ وہ سیاسی جماعت ہے جو “را” کہ منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں بر سرِ پیکار ہے۔
“را” کبھی مذہبی نفرتیں پھیلا کر موت کا رقص کرواتی ہے تو دوسری طرف سیاست میں تو بھرپور طرح سے قدم جمائے ہوئے ہے۔”را” وہ لفظ ہے جسے کسی کہ ساتھ لگادیا جائے تو وہ “شجرِممنوع” بن جانا چاہئے۔ مگر ہمارے یہاں ایسا نہیں ہورہا۔ مندرجہ بالا سرسری سے تجزئے کی روح سے اپنے ملک کہ تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں سے سوال یہ بنتا ہے کہ کیا پاکستان کو بھارت کی خفیہ تنظیم “را” چلا رہی ہے؟ کیاپاکستان کی خودمختاری کے فیصلے کوئی اور کر رہا ہے ؟ کیا ہم پاکستانی اپنے گھروں میں محفوظ نہیں ہیں؟ کوئی بھی کہیں بھی ہمیں جب چاہے اپنے ہی وطنِ عزیز کہ خلاف استعمال کرلے اور ہم باآسانی استعمال ہوجائیں؟ ان سوالوں کی روشنی میں اب پاکستانی ہونے کی شناخت “شناختی کارڈ” نہیں رہا۔
اب تو پورا کہ پورا پاکستان مشکوک ہو چکا۔ پاکستان کی ساری سیاسی قیادت مشکوک ہوچکی۔ پاکستان اور پاکستانیت خون کہ آنسو رو رہی ہے ہر مخلص پاکستانی اپنے ہی خلوص کو مشکوک نظروں سے دیکھ رہا ہے ۔ ہمارے آباؤاجداد کی روحیں مچل رہی ہونگی کہ ہماری قربانیاں رائیگاں جا رہی ہیں۔
ہم دعاگو ہیں اللہ پاکستان کو استحکام و دوام بخشے اور ایسے تمام لوگوں کو جو ملک دشمن ہیں “را” یا کسی اور غیرملکی خفیہ ادارے کا حصہ ہیں، بے نقاب کر دے (آمین یا رب العالمین)