گھر والوں اور مختلف دوستوں کی طرف سے جب کبھی یہ سوال کیا جاتا کہ تم بڑے ہو کر کیا بنو گے تو جواباً کہتا تھا کہ میں بڑا ہو کر پاکستان ایئر فورس کو جوائن کر کے پائلٹ بنوں گا۔ سرحدوں کی حفاظت کے لیے جہاز اُڑایا کروں گا۔ دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ملک دشمن عناصر کے ساتھ سختی سے پیش آئوں گا یہ جذبات تھے۔
ہنگو سے تعلق رکھنے والے کمسن اعتزاز حسن کے 14 سالہ اعتزاز حسن 6 جنوری بروز پیر صبح کے وقت ہنستا مسکراتا باتیں کرتا سکول جانے کے لیے تیار ہوا، اور اپنے والدین، بہن بھائیوں کو خدا حافظ کہتا ہوا سکول کی جانب روانہ ہوا لیکن اسکو کیا معلوم تھا کہ وہ ہمیشہ کے لیے اپنے خاندان کو خدا حافظ کہہ کر رخصت ہو رہا ہے۔ اور اسکے بعد وہ مزید اپنے گھر والوں کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکے گا۔ اعتزاز حسن سکول کے لیے گھر سے نکلتا ہے اور ایک اجنبی شخص اس سے راستے میں ”گورنمنٹ ہائی سکول ابراہیم زئی” کا ایڈریس پوچھتا ہے۔ اعتزاز اسکو پتہ تو بتلا دیتا ہے۔ لیکن اسکو یہ شخص مشکوک محسوس ہوتا ہے۔ وہ شخص سکول سے کچھ ہی فاصلے پر ہوتا ہے کہ اعتزاز کے دل میں خیال پیدا ہوتا ہے کہ یہ شخص شاید سکول کو یا اس میں موجود لوگوں کو نقصان پہنچانے تو نہیں جا رہا۔ اور اسی سوچ میں وہ اس نامعلوم مشکوک شخص کو آواز دیتا ہے۔ اعتزاز کی آواز پر وہ شخص سکول کی طرف تیز ی سے چلنا شروع کر دیتا جس سے اعتزاز کے شک میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ اور اعتزاز اس شخص کو پتھر مارتا ہے۔ پتھر کا نشانہ صحیح نہ لگنے پر اعتزاز حسن اس شخص کی طرف بھاگتا ہے اور اس کود بوچ لیتا ہے۔
اس شخص کی بہت کوشش کے بعد جب وہ اعتزاز سے چھوٹنے میں ناکام ہو جاتا ہے تو اپنے آپ کو بم سے اُڑا دیتا ہے۔ اور اپنے ساتھ بہادر کم سن بچے اعتزاز کی جان بھی لے لیتا ہے۔ اور یوں اعتزاز حسن سکول میں موجود 500 سے زائد بچوں سمیت سکول انتظامیہ اور اساتذہ کی جانوں کو محفوظ بناتے ہوئے شہید ہو گیا اور اس دنیا سے ایسی دنیا میں چلا گیا جہاں سے وہ کبھی بھی لوٹ کر نہیں آسکتا۔ اعتزاز حسن پاکستان ائیر فورس کے جہاز کی اُڑان تو نہ بھر سکا۔ لیکن شہادت کی اُڑان ا سکی بہادری کی وجہ سے اسکا مقدر بنی۔ جہاں اعتزاز حسن کے والدین کو اپنے بیٹے کی شہادت پر فخر ہے وہیں پوری قوم کو بھی اعتزاز پر ناز ہے کہ وہ پاکستانی بچہ تھا۔ اعتزاز تو اب اس دنیا میں نہیں رہا لیکن اس کا نام تاریخ کے سنہری حروفوں میں لکھا جا چکا ہے۔ کیونکہ اعتزاز نے وہ کام کر دکھایا ہے جو ملک کے سیکورٹی اداروں کی ذمہ داری ہوتی ہے یقینا اعتزاز جیسے بچے ہی اپنی جان کا نظرانہ پیش کر کے دنیا میں اپنی قوم کو ایک بہادر قوم ثابت کرتے ہیں اور دنیا کو بتلاتے ہیں کہ ہمارے ملک کا بچہ بچہ دہشت گردوں سے مقابلہ کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہے اور یہی اعتزاز حسن جیسے کم عمر بچے پاکستانی سرحدوں پر کھڑے فوجی جوانوں کے جذبے بھی بلند کرتے ہیں۔
Nawaz Sharif
قارئین اعتزاز حسن کو تو شہادت کا درجہ مل گیا۔ وزیراعظم پاکستان کی جانب سے اُسے تمغہ شجاعت دینے کی شفارش بھی کر دی گئی۔ سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کی جانب سے اس کو ٹی وی ٹاک شوز میں خراج تحسین بھی پیش کیا گیا۔ پاک فوج کی جانب سے گارڈ آف آنر دیا گیا۔ ملالہ یوسف زئی کی جانب سے 5 لاکھ روپے انعام کا اعلان کیا گیا۔ لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہر طرف سے اعلانات کی تو بھر مار لگ گئی۔ لیکن ملکی سلامتی کے لیے جرات کا مظاہرہ کرنے والے اعتزاز حسن کے گھر ارباب اختیار میں سے کسی نے جانا مناسب نہ سمجھا۔ وہ خیبر پختوانخوہ کی صوبائی حکومت ہو یا مرکزی حکومت کسی نے بھی ان کے والدین کے پاس جاکر انکے دُکھ کو بانٹنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ ہر کوئی ٹی وی کی حد تک بیان دے کر پیچھے ہٹ گیا۔ تمام NGO,S اور سیاسی قائدین میں سے شاید کسی کو بھی اعتزاز کے گھر کا راستہ ہی نہیں آتا۔ اعتزاز کا کارنامہ ملالہ یوسف زئی سے کم اہمیت کا حامل نہیں جس نے سینکڑوں لوگوں کی جانیں بچانے کے لیے اپنی جان گنوانے میں کوئی عار محسوس نہ کیا۔ یقینا اعتزاز حسن جیسے کم عمر بچے کی بہادری کا تمغہ شجاعت سے بھی اعتراف ناممکن ہے۔ کیونکہ واقع ہی اعتزاز حسن پورے پاکستان کا ہیرو ہے اور حکمران وقت کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ اس عظیم ہیرو کے گھر جاکر اسکے والدین کے دکھ کو بانٹیں۔