سچ پوچھئے ٢٥ جولائی کی تاریخی کامیابی کے بعد کچھ اس قدر مصروف رہا کہ لکھ ہی نہیں سکا ۔استاد مھترم جنہوں نے لکھنے کی ہمت دی سے بات بھی ہوئی کہنے لگے کالم بھیجو اس بات کو بھی چار دن گزر گئے ہیں۔ان کے مشورے ہمارے لئے راستے متعین کرتے ہیں جناب ضیاء شاہد سے خبرین کے قیام سے ہی روابط ہیں۔پاکستان تحریک انصاف کی کامیابی کا تقریبا ١١ سال سے شاہد ہوں ۔شاہد تو سچ پوچھیں اس وقت سے ہوں جب عمران خان جدہ آئے اور ان کے اعزاز میں ڈاکٹر غلام اکبر خان نیازی نے ایک تقریب رکھ دی۔شوکت خانم کے لئے فنڈز اکٹھے کرنے کی بات تھی۔مجھے وہ دن یاد ہیں ایک کمیٹی بنائی گئی جس کی سربراہی ڈاکٹر نیازی کر رہے تھے اور میں اس کا سیکرٹری بن گیا۔مجھے عمران خان کو اس وقت دیکھنے کا موقع ملا۔عمران خان کو میں نے ایک موڈی بندہ پایا وہ بندہ جس کے احداف واضح تھے۔حیات ریجینسی مدینہ روڈ پر کیمروں کی فلشیں چل رہی تھیں انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے منع کیا۔مجھے سمجھ آ گئی یہ شخص تشہیر سے دور رہنا چاہتا ہے۔
اگلے روز السلام ہوٹل مکہ روڈ پر تقریب تھی۔وہاں منتظمین میں شامل تھا۔میرے بیٹے حافظ نبیل نے پھول پیش کئے۔میرا سوال تھا کہ وہ کون سا وقت آیا جب آپ نے محسوس کیا کہ ہم ورلڈ کپ جیت سکتے ہیں۔تو انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا ورلڈ کپ کے دورن ایسے لمحات بھی آئے کہ میں سمجھا کہ اگلے روز ہم واپس جا رہے ہیں ۔اللہ کی جانب سے مدد آ جاتی کبھی بارش کبھی کوئی ٹیم کسی سے ہار جاتی تو ہمارے پوائینٹس بڑھ جاتے اور ایک موقع آیا میرا یقین پختہ ہو گیا کہ اللہ تعالی ہم سے کوئی اچھا کام لینے کے لئے ہماری مدد کر رہا ہے اور وہ اچھا کام شوکت خانم تھا۔عمران خان نے 1992کے اس ورلڈ کپ میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور کپ جیت کر قوم کو خوشیاں دیں۔میں نے کبھی کرکٹ نہیں کھیلی اور نہ ہی پسند کیا لیکن جب عمران خان کھیلتے تو میرے تایا شہید عبدالغفار ان کی گیندوں پر تبصرہ کرتے تو مزہ آ جاتا ہم سمجھتے کہ واقعی کچھ ہو رہا ہے جو تایا جان نعرے لگا رہے ہیں واہ شیر دیا بچیا،واہ گھوڑیا کمال چال اے تیری۔خان صاحب کے ساتھ بڑا عرصہ گزارا۔جدہ میں ایک دو واقعات ہوئے تو ان کی شخصیت کے وہ پرت کھلے جو میں چاہتا ہوں اپنے لیڈر کے بارے میں قارئین کو بتائوں۔ہم نے کوئی آٹھ لاکھ ریا ل اکٹھا کیا جس میں سب سے زیادہ رقم ریڈکو کے قادر گجر نے دی۔قادر اس کمپنی کے مارکیٹنگ ڈائریکٹر تھے انہوں نے چالیس ہزار ریال کا اعلان کیا۔میں نے گرہ لگاتے ہوئے کہا یہ کرنسی آپ کی والی ہے یا بھابی صاحبہ والی۔تو انہوں نے انہیں ڈالرز میں اعلان کر دیا۔قادر گجر اب اس دنیا میں نہیں رہے۔جب میں اس تقریب کا ذکر کر رہا ہوں تو مجھے کچھ نام یاد آ رہے ہیں جنہوں نے عمران خان کی اس تقریب کو کامیاب کیا ۔یہ میٹینگز مسعود پوری کے گھر ہوئیں ان میں چودھری شہباز حسین لدھڑ والے،منیر گوندل،عرفان خانزادہ،مشتاق طفیل،انجینئر احسان الحق،افضل مرزا،ارشد خان شامل تھے یاد رہے اس وقت احسن رشید مرحوم عمران خان کے حلقہ ء احباب میں نہیں آئے تھے۔لہذہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہم عمران خان کی ارادتمندی میں بہت پہلے شامل ہو چکے تھے۔
البتہ چار سال بعد تحریک انصاف بنی تو احسن رشید،نعم الحق،حفیظ خان اور ایک اور نام ہے جو مجھے نعیم بھائی نے بتایا تھا ہو بھول رہا ہوں۔یہ پانچ لوگ تھے۔عمران خان کی سب سے اچھی بات لگی کہ انہوں نے ایک دوست کے کہنے پر ایک عرب شہزادے کے پاس جانے سے انکار کر دیا۔شہاد امین نے کہا کہ فلاں پرنس کے پاس چلتے ہیں وہ ایل لاکھ ریال دینے کے لئے تیار ہے۔یقین کیجئے ایک مدت گزر گئی ہے مجھے وہ سنہری الفاظ اب بھی یاد ہیں جب خان نے کہا نہیں میں ان لوگوں کے پاس نہیں جائوں گا یہ عرب لوگ خیمے میں آنے والے اونٹ کی طرح ہیں جو بدو کو باہر نکال کرتے ہیں۔مجھے کہا افتخار ہم پاکستانی اسکول کے بچوں کے پاس جائیں گے وہ میرے لئے فنڈز دیں گے عزیزیہ کا پاکستانی اسکول جس میں اس وقت کوئی بارہ ہزار بچے پڑھتے تھے میں زہرہ کے چودھری اعظم کی پاجیرو جو میرے زیر استعمال تھی اس میں بٹھا کر عمران خان کو اسکول لے گیا راستے میں ارشد خان مرحوم راسہ بناتے رہے۔یہ وہی ارشد خان ہیں جو سعودی مسلم لیگ کے بانی صدر تھے اور بعد میں نارووال ڈسٹرکٹ کونسل کے چیئرمین بھی رہے۔یہ بڑی دلچسپ شخصیت تھے کوئی دو سال پہلے اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں۔ان پر ارشد خانیاں نامی کتاب لکھی جا سکتی ہے۔کمال کا شخص تھا ایک بار ایک سابق وزیر داخلہ جو اس وقت وزیر داخلہ نہ تھے کے منہ پر تھپڑ جڑ دیا۔اسکول گئے تو اگست کا مہینہ تھا حبس بہت بچوں کا فلڈ سٹیج سے ٹکرا رہا تھا۔میں نے محسوس کیا کہ عمران خان بچوں کے قرب کو محسوس کر رہے ہیں میں نے کان میں کہا نکلیں کوئی بچہ ضائع ہو جائے گا۔ہم وہاں سے نکل پڑے۔جدہ نے خان کو مایوس نہیں کیا تھا۔
بعد میں پاکستان تحریک انصاف بنتی ہے۔میں جدہ کے ایک میگزین کے ساتھ وابستہ ہو گیا۔عمران خان احسن رشید کے ساتھ مہران ہوٹل میں پاکستانی کمیونٹی سے ملتے ہیں۔سچ پوچھیں انہیں سب سے پہلے پختون کمیونٹی نے قبول کیا عبدالرحمن نے ایک فنکشن کیا میں رو ء ف طاہر،اسد اکرم،شاہد امین،امیر محمد خان ایک صحافی ہونے کے ناطے انہیں کوریج دینے گئے لیکن اپنی گپیں زیادہ رہیں۔عمران خان کی جد و جہد کے وہ دن شائد 1998کے تھے۔ہمارا پہلا تسلسل ٹوٹ چکا تھا۔عمران خان کو ہم نے بھی عام لوگوں کی طرح دیکھا۔اس دوران میاں صاحب کی حکومت الٹتی ہے۔میں ان دنوں خبریں کے ساتھ وابستہ تھا۔2002میں اس وقت کے سعودی عرب میں پاکستانی سفیر جناب اسد درانی شاہ سے زیادہ شاہ کی وفا داری دکھا رہے تھے نائن الیون ہو چکا تھا مشرف اامریکہ کی ناک کا بال بن چکے تھے۔مجھے چودھری نواز جو قونصل جنرل تھے ان کی وہ بات یاد آ گئی کہنے لگے ایک ماریکہ کے آگے سجدہ ریز ہونے سے پاکستان کو ہزار سجدوں سے نجات مل گئی ہے۔یہ قونصل جنرل تھے اس وقت جہاں تک مجھے یاد ہے عبدالعزیز عقیلی تھے ڈاکٹر شعیب تھے اور چند لوگ۔میرا گھر ان کی آمدورفت مین رہتا تھا سہیل ضیاء بٹ کیپٹن صفدر بھی آیا کرتے تھے۔تحریک انصاف کا وجود تو تھا لیکن انتہائی مختصر تعداد میں لوگ عمران خان کی دعوت پر ان کے ساتھی بنے تھے۔خود کئی بار عمران خان کہہ چکے ہیں کہ گھنٹوں گزر جاتے تو کونسلر لیول کا بندہ کہتا سوچ کے بتائوں گا۔تحریک انصاف کا مشرف حکومت سے نرم گوشہ رہا۔جن دنوں مجھے اور نواز شریف کے چاہنے والوں پر جدہ میں قیامت ٹوٹ رہی تھی تو انہی دنوں میں یہ بازگشت سنی تھی کہ مشرف احسن رشید کو وزیر پٹرولیم بنانے جا رہا ہے 19مارچ سے28مئی تک مجھے جدہ سنٹر میں بند رکھا گیا۔
ہمارے پاس فون تھے ایک روز میں نے احسن رشید سے بات کی کہ ترحیل میں بند لوگوں کی مدد کریں اووسیز پاکستانیوں پر قیامت آئی ہوئی ہے۔مشرف ایک فرعون بنا ہوا تھا وہ پتہ نہیں تھا یا نہیں لیکن جنرل اسد درانی واقعی فرعون تھا اس کی گردن ویسے ہی لمبی ہے لیکن ان دنوں اس میں سریہ تھا وہ پاکستانیوں پر ایسے چڑھ دوڑتا تھا کہ لوگوں کے وضو ٹوٹ جاتے ۔سب صحافی اس کے سامنے بھگی بلی بنے رہتے سب سوشل ورکر کیا مسعود جاوید،ممتاز اختر کاہلوں،منیر گوندل،اسد اکرم،امیر محمد خان ،سب خاموش۔مجال گئی کسی نے میری گرفتاری پر چوں چراں کی ہو۔ایک اکرم گجر تھا جس نے اھتجاج کیا اسے بھی چپ کرا دیا گیا۔مجھ سے دوستی کے دعوے دار پہلی فلائیٹوں سے پاکستان پہنچ گئے۔تتی جگہ کوئی نہیں کھڑا ہوتا۔لوگ اس راستے سے گزرنا چھوڑ گئے جو میرے گھر کی طرف جاتا تھا ۔کہتے تھے یہاں انٹیلی جینس کھڑی ہے اور گاڑی کا نمبر نوٹ کر لیتی ہے۔میں عظمت نیازی کی مدد کرنے پہنچا تھا میں نے اس کی گرفتاری کا رونا رویا تھا میں نے طالبان کی حمائت میں لکھا تھا۔قونصل جنرل نے مجھے کہا کہ تم کیا کر رہے ہو آگ سے کھیل رہے ہو۔میں خود ستائشی کی جانب نکل پڑا ہوں مجھے احسن رشید نے کہا تحریک انصاف ان گرفتاریوں کے خلاف ہے میں لندن میں ہوں واپس آ کر بات کروں گا۔عمران خان کا کمال ہے کہ وہ غلطی کرنے کے بعد اعتراف کرتا ہے اور معافی مانگ لیتا ہے۔
ایسا ہی ہوا مشرف کا ساتھ عمران خان سمجھ گیا کہ ڈکٹیٹر اب عوامی بن رہا ہے۔خان کو مشرف نے آفر کی کہ وہ وزیر اعظم بن جائے سیلوٹ بھی کیا لیکن اس نے کہا نہیں میں ویزر اعظم ضرور بنوں گا لیکن عوام کی طاقت سے۔میں پاکستان آ گیا یہاں آ کر مسلم لیگ جو راجہ ظفرالحق کی قیادت میں ستو پی کر سو رہی تھی اسے جگانے کی کوشش کی۔کراچی کمپنی میں 2002میں جلسہ کرایا یوم تکبیر پر لوگ اکٹھے کئے۔میں نے محسوس کیا کہ بات یہاں نہیں بننے والی۔ویسے بھی سردار مہتاب جو میرے فیملی فرینڈ تھے انہوں نے معاشی معاملات کی درستگی کی تلقین کی اور میں ایک متوسط درجے کی نوکری پر چلا گیا۔اللہ نے کچھ حالت بہتر کئے تو صحافیوں کی تحریک چل رہی تھی شامل ہو گیا۔احمد فراز کو گھر سے لے کر جاتا اور شارع دستور پر وہ شریک ہوتے۔ان سے ان کی مشہور نظم محاصرہ سنی جاتی۔ان دنوں انہوں نے اعزاز واپس کر دئے تھے۔عدلیہ بحالی موومنٹ ایک ٹرننگ پوائینٹ تھی۔میں بھی نون لیگ کے پلٹ فارم سے تقریریں کرتا۔یہ لوگ صبح سویرے آتے جیسے ہی دھوپ نکلتی غائب ہو جاتے ایک روز شائد ١٢ جولائی کی گرم دوپہر تھی۔میں نون لیگ کی گاڑی سے اتر کر واپس جا رہا تھا۔انہی دنوں عمران خان نے ایم کیو ایم کو للکارا تھا۔
مجھے لسانیت پرست سنپولیوںکے ہاتھوں جدہ میں نقصان ہو چکا تھا۔میں نے دیکھا سامنے سے عمران خان،ایڈ مرل جاوید اقبال،احسن رشید ایک جلوس کی قیادت کرتے نظر آئے۔یہ لوگ گجرانوالہ سے بسوں میں بھر کے لائے گئے تھے غالبا ظفر سانسی لائے تھے جو بعد میں پتہ چلا۔تینوں پسینے میں شرابور تھے احسن نے دیکھا اور پاس بلا کر عمران خان سے تعارف کرایا۔عمران خان نے کہا ہم آپ کے گھر آئیں گے۔میں نے کہا خان صاحب نہیں میں آپ کے دفتر آئوں گا۔ہم کوئی تین بجے اسمبلی ہاسٹل پہنچے۔وہاں سیف اللہ نیازی،کرنل یونس رضا،سردار اظہر سے ملاقات ہوئی۔میرے لئے ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات مرکزی کا عہدہ تعین کیا گیا۔اس کے بعد چل سو چل۔پہلی سردیاں آئیں۔ایک روز عمران خان اپنے کمرے میں بیٹھے گپ شپ لگا رہے تھے کہنے لگے ایک وقت آئے گا لوگ میری قیادت میں اکٹھے ہوں گے دنیا ہو گی ہجوم ہوگا۔سچ پوچھئے میں نے کن اکھیوں سے زاہد کاظمی کی طرف دیکھا۔وہ بھی میری بات سمجھ رہے تھے کہ وہ وقت کب آئے گا۔کیا پاکستان بدل سکتا ہے؟یہ سردیوں کی اس شام کی بات ہے کہ پاکستان کا ہونے والا وزیر اعظم اپنے ان چند ساتھیوں سے مخطاب تھا اور اسے نظر آ رہا تھا کہ پاکستان بدلے گا۔جولائی کے ان دنوں میں مجھے نومبر کی اس سرد رات کو یاد کرنا ہے جب اس کمرے میں صرف ایک آدمی کو یقین تھا کہ وہ وزیر اعظم بنے گا۔میں ان لمحوں کا گواہ ہوں۔اللہ تعالی ہمیں وہ پاکستان دکھائے جس کا خواب خود عمران نے دیکھا اور اور وہ ہمیشہ کہتے رہے کہ اقبال کا خواب اب تو ان کے خواب میں چودھری رحمت علی کا پاکستان بھی شامل ہے جو صاف و شفاف دو قومی نظرئیے پر مشتمل ہے۔پاکستان کی بائیس کروڑ عوام نے بہت دکھ سہہ لئے ہیں اب کی صبح ان کی اپنی صبح ہو گی۔میں نے ہمیشہ دعا کی کہ اللہ پاک حکمرانوں کو برے لوگوں کی صحبت سے بچا۔عمران خان کے دوست بائیس کروڑ عوام شائد مخلاف ہو کر بھی اسے نقصان نہ پہنچائیں جو اس کی صفوں میں کوئی خاص مشن لے کر شامل ہوئے ہیں کچھ کا صفایا پچیس جولائی کو ہوا اور کچھ کا ہو جائے گا۔اللہ نیا پاکستان سب کو مبارک کرے جو یقینا سب کا پاکستان ہو گا۔