تحریر : واٹسن سلیم گل پاکستان اس وقت تاریخ کے عجیب و غریب دور سے گُزر رہا ہے۔ اندرونی اور بیرونی طور پر جن مشکلات کا شکار آج ہے پہلے کبھی نہی تھا. سیلاب آئے، زلزلوں کا سامنا رہا. مشرقی پاکستان کی صورت میں ایک بازو کا نقصان بھی برداشت کر گیا.جنگوں کی تباہ کاریوں کو بھی برداشت کیا مگر آج جو حالات ہیں وہ سمجھ سے باہر ہیں مجھے یہ یقین تو ہے کہ پاکستان ان حالات سے بھی نکل جائے گا مگر اس کے لئے کیا کوئ قیمت چکانی پڑے گی. اور کیا جن ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور ہے کیا وہ اپنی حکمت , فہم اور فراست سے بغیر نقصان کے ملک کی کشتی کو پار لگا لیں گے.
حکومت پناما کیس کے زیر عتاب ہے. آسمان سے گری ہے اور اب جے آئ ٹی کی صورت میں کھجور میں اٹکی ہوئ ہے۔ اخلاقی طور پر وزیراعظم کو اہنی کرسی چھوڑ دینی چاہیے تاکہ وہ کسی بھی قسم کی جے آئ ٹی پر اثر انداز نہ ہو سکے ویسے اس جے آئ ٹی میں آئ ایس آئ کی نما دیندگی ہے دوسرا یہ کمیٹی برائے راست سپریم کورٹ کو رپورٹ پیش کرے گی اوراس کے ٹرمز آف ریفرنسس بھی سپریم کورٹ کی زیرنگرانی بنائے گئے ہیں۔ اس لئے میرے خیال میں حکومت اس کمیٹی پر اثرانداز نہی ہو سکتی۔ اس کے علاوہ سیاسی ماحول بھی انتہائ کشیدہ ہے۔ خدا خدا کر کے ڈان لیک کے غبارے سے ہوا نکلی ہے۔جو کہ خوش آیند ہے ۔مگر تشویش کی بات یہ ہے کہ اس وقت افواج پاکستان نے جس عقل مندی سے اپنا کردار مثبت انداز میں پیش کیا ہے اس کے برعکس اپوزیشن کی تقریبا ساری ہی جماعتوں نے جس منافقت اور غیرزمہ داری کا کردار ادا کیا ہے۔ وہ پاکستان کی جمہوریت کو نقصان پہنچا سکتا تھا۔ یہ سب جانتے ہیں کہ ملک کا وزیراعظم پورے ملک کا چیف ایگزیکٹو ہے اور افواج پاکستان کا بھی آئینی سربرا ہے۔ اس کے کسی حکم نامے کو اگر فوج کا کوئ ادارہ مسترد کرتا ہے تو یہ پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی ہے۔ جس کا احساس فوج کو جلد ہوگیا اور انہوں نے اپنی غلطی سدھار لی۔ مگر عمران خان، زرداری، خورشید شاہ، سراج الحق اور بہت سے دوسرے سیاست دان کس قانون کو سامنے رکھتے ہوئے اس فوج کی طرفداری کر رہے تھے جس کو خود اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔ کیا یہ عمل فوج کو سیاست میں دھکیلنے کے مترادف نہی تھا۔ سیاسی جماعتوں کو بھی ہوش کے ناخون لینے کی یا خرینے کی ضرورت ہے. عمران خان نے ابھی تک تو سیاست میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہی کیا، وہ جتنا اچھا کردار پارلیمنٹ کے اندر کر سکتے تھے وہ نہی کیا احتجاجی سیا ست بیرون پاکستان ملک کو نقصان پہنچارہی ہے. پیپلزپارٹی اپنی سیاسی حثیت کھو رہی ہے.
مجھے حیرت ہے کہ زرداری صاحب بیانات دینے سے پہلے تولنے اور پھر بولنے کی کہاوت بھول چکے ہیں .پیپلزپارٹی نے سندھ کا جو حشر کیا ہے کیا اسے دیکھنے اور سمجھنے کے لیے کسی نظر کے چشمے کی ضرورت ہے؟. کیا سرے محل کی ملکیت کو ہم بھول گئے ہیں۔ کیا سویس اکاؤنٹ پر سویٹزرلینڈ کی حکومت کا موقف ہمارے زہنوں سے نکل چکا ہے؟۔ کراچی کو صرف اس لیے سزا دی جارہی ہے کہ کراچی میں پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک دیوالیہ ہوگیا ہے. بلکہ اگر بلدیاتی حکومت کچھ کرنا بھی چاہتی ہے تو اس کے ہاتھ پاوّں بھی باندھ دیے جاتے ہیں .جماعت اسلامی کا بھی جواب نہی جب کسی حکومت کے ساتھ ہو تو ٹھیک ورنہ حکومت کرپٹ ہے.
یہ ہی حال جمیعت علما اسلام ف کا بھی ہے حکومتوں کو مزہب اور سیاسی عدم استحکام کے نام پر بلیک میل کرنے میں جمیعت علماسلام کا کوئ ثانی نہی ہے اس وقت یہ جماعت اس لیے خاموش ہے کہ خیبر پختون خواہ کے صوبے پر اس کی مکمل اجارہ داری نہی ہے اور ویسے بھی خاموش رہنے کی قیمت جب مل چکی ہو تو شور شرابے سے کیا حاصل . اس کے علاوہ ہماری سرحدوں پر بھی امن نہی ہے۔ بھارت سے تو ہمیں پہلے ہی خیر نہی ہے۔ وہ اب کھل کر سامنے آچکا ہے۔ اس کی دشمنی اب کھیل کے میدانوں ، فنون لطیفہ، تجارت اور سفارتی سطع پر سامنے آچکی ہے۔ اس کے علاوہ اسی بھارت کے ہاتھ میں پاکستان کے خلاف عالمی سازش کی ڈور ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کا قریب ترین دوست اور پڑوسی افغانستان بھی بھارت کی اس ڈور میں بندھا ہوا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کی بقا اور سلامتی کے لئے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ سوویت یونین جیسی سُپر پاور کے سامنے کھڑا ہو گیا تھا۔
پاکستان نے مجاہدین کی صورت میں اپنے جوانوں کا خون پیش کیا تیس لاکھ سے زیادہ افغانی مہاجرین کو تیس سال تک پالا اور آج وہی افغانستان بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کو آنکھیں دکھا رہا ہے۔ تیسرا سرحدی ملک ایران جو ہمارا بہت قریبی ہے ۔ 1965 کی جنگ میں ایران ہمارے ساتھ کھڑا ہو گیا تھا۔ 1976 میں ایران نے قائداعظم کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اس کے نام سے ٹکٹ جاری کیا۔ اسی طرح پاکستان نے بھی اپنی دوستی کی لاج نبھائ جب آئ پی آئ پائپ لائن (انڈیا، ایران ،پاکستان پائپ لائن) میں سے انڈیا نے اپنے آپ کے صرف اس لئے الگ کر لیا کیونکہ امریکہ خوش نہی تھا مگر پاکستان ساتھ کھڑا رہا۔ اب اسی ایران نے پاکستان کو دھمکی دی ہے کہ وہ پاکستان میں گھس کردہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کرے گا۔
پاکستان کے تین سرحدی پڑوسی پاکستان کے خلاف کھڑے ہو گئے ہیں۔ ان حالات کے پیچھے عالمی سازش ہے۔ اور اس وقت پاکستان کو بہت حکمت، صبر اور تحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ پاکستان کی ایک غلطی ملک کو بہت بڑا نقصان پہنچا سکتی ہے۔ دشمن کی یہ کوشش ہے کہ ہم ایران کے ساتھ کوئ محاز کھولیں۔ ایران کا بھی اس وقت پاکستان کو دھمکانا بلا جواز نہی ہے بلکہ یہ پاکستان کو جواب ہے کیونکہ سعودی عرب سمیت بیشتر سُنی ریاستوں کے اتحادی افواج کا سپہ سالار اگرپاکستان کا سابق فوج کا سربراہ ہو تو آپ ان ممالک کو لالی پاپ نہی دے سکتے جن کی سعودی عرب سے دشمنی ہے۔
سعودی عرب کا شام، یمن اور ایران کے ساتھ تناضا فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہے اور پاکستان میں شیعہ فرقے کی بہت بڑی تعداد ہے۔ اگر حالات مضید خراب ہوئے تو یہ ممالک کو تو پہلے سے ہی جنگ میں کے دھانے پر کھڑے ہیں مگر ہمارا ملک خانہ جنگی کا شکار ہو جائے گا۔ میرا یہ خیال ہے کہ ایک آل پارٹی کانفرنس بلانی چاہئے اور تمام سیاسی پارٹیاں مل کر پارلیمنٹ میں ان حالات کے حوالے سے متفکہ طور پر کو فیصلہ کریں اور جلد اس اتحاد سے اپنے آپ کو علیحدہ کریں۔ اور صرف وہ فیصلہ کریں جو پاکستان کی بقا اور استحکام کے لئے ضروری ہو۔