شانگلہ پاکستان کے شمالی صوبے خیبر پختون خواہ کا سب سے پسماندہ ضلع تو ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ قدرت کے دست ہنر شناس نے اسے جس حسن سے مالامال کیا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی، جس میں بلند وبالا خوبصورت پہاڑ بھی اس ضلع کے حسن کو چار چاند لگاتے ہیں، شانگلہ کا ہیڈ کوارٹر الپوری ہے، یہ ضلع دو تحصیلوںپر مشتمل ہے، ایک بشام ہے ، جہاں سے شاہراہ ریشم گزرتی ہے اور موجودہ سی پیک بھی بشام سے گزرے گی ، دوسرا تحصیل پورن ہے ، اسی تحصیل کا ایک گائوں جس کو ہم کابلگرام (کابل گرام) کے نام سے پہچانتے ہے ۔ کابلگرام جس کا ابتدائی نام کابل گران تھا ، دریائے سندھ کے کنارے واقع ہے ، خوبصورت بل کھاتے پہاڑ وں کے درمیان یہ خوبصورت گائوں ایک طویل تاریخ بھی رکھتا ہے۔
سترھوئیں صدی سے قبل موجودہ پاکستان کے شمالی صوبے کے پہاڑی علاقوں میں ہندو اور سکھ بڑی تعداد میں آباد تھے ، مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی ، مسلمان جو ان علاقوں میں آباد تھے وہ زیادہ تر ہندئوں اور سکھوں کے ہاں غلامانہ زندگی گزارتے تھے ۔ سترھوئیں صدی کے آخر میں افغانستان سے ایک لشکر جہاد کرنے کے غرض سے ان حسین پہاڑوں کی جانب نکلا ،جس کی قیادت اخون پنجو بابا(سید عبدالوہاب جن کی مرقد پشاور میں ہے ) کے مرید خاص اخون سالاک بابا رحمہ اللہ کر رہے تھے ، اخون سالاک بابا جن کا اصل نام عبدالاکبر ہے ، ( بعض مؤرخین نے آپ کا نام محمد اکبرشاہ اور کچھ نے سید اکبر شاہ لکھا ہے ، اکبر پر سب متفق ہے۔) آپ درانی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے ، ایک سچے عاشق رسول ۖ اور ایک نڈر مجاہد ا خون سالاک بابا رحمہ اللہ(عبدالاکبربابا)جنہوںنے اپنے بھائی اخون ساباک بابا (پیر عمر جن کی مرقد مردان کے پاس رستم گجر گڑھی میں ہے)کے ساتھ قندھار سے لشکر کشی کی اور پشاور تشریف لائے، پشاور جس کا پرانا نام پرش پورا تھا۔
اخون سالاک بابارحمہ اللہ نے ا پنے مرشد اخون پنجو بابارحمہ اللہ سے ملاقات کی،جس کے بعد وہاں سے لشکر لے کر بونیر پر حملہ آور ہوئے ، بونیر او گردو نواح اس وقت ہندو سردار ڈوما کی زیر سایہ تھے(ڈوما کافر)۔
ڈوما کافر ایک طاقتور سردار تھا گر چہ وہ ہندو تھا،مگر ان کی فوج میں ایک بڑی تعداد سکھوں کی تھی ۔ 1614عیسوی میں اخون سالاک بابا رحمہ اللہ کی قیادت میں مسلمانوں نے ایک زبردست حملہ کرکے ڈوما کافر اور اس کی فوج کو شکست دی اوربونیر میں اسلامی پرچم لہرایا ( حوالہ کتاب پختون قبائل کی جرأت)،(جبکہ بعض تاریخ دانوں کے مطابق ڈوما کافر کو باکوخان نامی ایک مسلمان سردار نے شکست دی تھی مگر ان تاریخ دانوں نے اپنی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ باکو خان نے اخون سالاک بابا کی مدد حاصل کی تھی، ڈوما کافر کو شکست دینے میں)بونیر کو فتح کرکے اخون سالاک بابا نے کچھ عرصہ بونیر کے ایک” گائوں کوریا ”میں قیام کیا ۔ جس کے بعد آپ نے لشکر لے کر ہزارہ کی جانب کوچ کیا ۔راستے میں کئی سارے گائوں، دیہات فتح کرتے ہوئے ہزارہ کوہستان تک پہنچ گئے۔ عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے کمزوریوں اور مختلف بیماریوں نے جھکڑا تو واپسی کی راہ لی ، بونیر واپس آتے ہوئے راستے میں ایک چھوٹے سے دیہات میں قیام پزیر ہوئے ، یہیں وہ علاقہ ہے جس کو آج کابلگرام کہا جاتا ہے۔ (واضح رہے ڈوما کافر کے علاوہ اخون سالاک بابا نے اور بھی کئی بڑے فتوحات حاصل کئے، مثلاً موجودہ ضلع شانگلہ ،تورغر اور سوات کے کئی سارے علاقوں پر اسلامی پرچم لہرایا۔ اگر ان کے جہادی خدمات پر تفصیلاً روشنی ڈالی جائے تو ایک زخیم کتاب بن جائے ۔)
کابلگرام (کابل گرام ) نام کیسے پڑا؟ اخون سالاک بابا نے جس دیہات میںقیام کیا اس کا نام کابلگرام ایسے پڑا کہ آپ کے ساتھ لشکر میں موجود آپ کے ایک ساتھی نے آپ سے کہا کہ آپ واپس کابل نہیں جائینگے تو آپ نے کہا کہ نہیں یہ جگہ مجھے کابل سے بھی زیادہ عزیز ہے (پشتو زبان میں”دا زائے پہ ماباندی دَ کابل نہ زیات گران دے”) اس کے بعد وہ گائوں کابل گران ہوا ،بعد میں کابل گران سے کابلگرام ۔ اخون سالاک بابا کا کابلگرام میں قیام و وفات!
کابلگرام میں آمد و قیام کے وقت آپ کے چاروں بیٹے اخون عبدالرحمن بابا ، اخون اشرف بابا اخون جمال بابا اور خدوخیل بابا آپ کے ساتھ تھے، 16شوال کے روز اخون سالاک بابارحمہ اللہ (عبدالاکبربابا)نے اس فانی دنیا کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہا ۔ اخون سالاک بابا کی تاریخ پیدائش کے بارے میں کسی بھی تاریخی کتاب میں کچھ موجود نہیں ،البتہ ایک بریلوی عالم دین علامہ نسیم احمد قادری نے اپنے ایک تحریر میں آپ کی یوم وفات 16شوال 1048ھ لکھی ہے ۔ (واللہ ا علم)اخون سالاک بابا رحمہ اللہ کی وفات کے بعد آپ کی تدفین کابلگرام میںہی کی گئی آپ کی مرقدپر آج بھی عقیدت مندوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے ۔ اخون سالاک بابا رحمہ اللہ کون تھے ،کہاں سے کب آئے ؟ اس پر مختلف لوگوں نے مختلف ادوار میں کتابیں لکھی اور شائع کی ، کسی نے آپ کو” ترین قوم ”سے لکھا ،کسی نے خٹک تو کسی نے سید ۔راقم خود بھی اس حوالے سے کتاب لکھنے کا شوقین تھا ،لیکن کابلگرام سے تعلق رکھنے والے اور اخون سالاک بابا کے قوم کے مشہور و معروف عالم دین شیخ ولی اللہ کابلگرامی مرحوم نے اخون سالاک بابا کی زندگی پر کافی معلومات حاصل کر کے تحریری شکل دی،شیخ ولی اللہ کابلگرامی کے انتقال کے بعد ان کے فرزند مولانا قطب الدین کابلگرامی اب استحقیق کو مزید مستحکم انداز سے ایک کتابی شکل دینے والے ہے ،اس لیے میں نے مضمون پر ہی اکتفا کیا۔
اخون سالاک بابا سے اخون خیل قوم تک ! ہم سب ایک آدم علیہ سلام کی اولاد ہے ، اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ سلام کے بعد ہم لوگوں کو مختلف قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا ، ان ہی میں ایک قوم درانی بھی ہے ، درانی قوم جو یوسفزئی قوم کی ایک شاخ کہلاتی ہے ، جس طرح درانی یوسف زئی قوم کی شاخ ہے۔ اسی طرح اخون خیل درانی قوم کی ایک شاخ ہے۔ اخون سالاک بابا کے بعد ان کی اولاد کو درانی کے بجائے اخون خیل کہا جانے لگا۔ جیسے درج بالا میں تحریر ہے کہ اخون سالاک بابا رحمہ اللہ کے چارفرزند تھے، اخون عبدالرحمن بابا ، اخون اشرف بابا اخون جمال بابا اور خدوخیل بابا ، انہی چاروں بیٹوں سے اخون سالاک بابا رحمہ اللہ کی نسل چلی آرہی ہے ۔
اخون خیل قوم کہاں کہاں آباد ہے؟ اخون خیل صرف اخون سالاک بابا کی اولاد کو نہیں کہا جاتابلکہ اخون درویزہ بابا کی اولاد کو بھی کہا جاتا ہیں ، اخون درویزہ اور اخون سالاک بابا ایک ہی وقت کے بزرگ تھے ، اخون درویزہ پیر بابا بونیر والے کے مرید اور اخون سالاک بابا اخون پنجو بابا پشاور والے کے مرید تھے ۔ اخون درویزہ بابا صوفیانہ طرز کے بزرگ اور قوم سے فارسی بان تھے، جبکہ اخون سالاک بابا جہادی عالم تھے۔ اخون سالاک بابا کے بڑے بیٹے اشرف بابا کی اولاد ہزارہ ڈویژن کے مختلف علاقوں میں آباد ہے ، جوباوجود پختون ہونے کے زیادہ تر ہندکوزبان بولتے ہیں۔ ان کو وہاں کے لوگ سید بھی کہتے ہیں اور میاںگان بھی ، اخون اشرف بابا کی قبر بھی کابلگرام میں ہی ہے۔ اسی طرح اخون عبدالرحمن بابا کی اولاد شانگلہ کے مختلف علاقوں مثلاً کابلگرام، ماندوریا، مارتونگ ، اس کے ساتھ دیرکے مختلف علاقوں میں آباد ہیں ، دیر کے نواب بھی اخون عبدالرحمن بابا کے پوتے اخون رشید بابا (پاچابابا)کے نسل میں سے تھے، اخون عبدالرحمن باباکی مرقد بھی اپنے والد کے مرقد کے برابر میں واقع ہے۔ عبدالرحمن بابا کی اولاد کو اخون خیل ہی کہا جاتا ہے۔ تیسرے بیٹے اخون جمال بابا جن کا مزار سوات بری کوٹ میں ہے ، ان کی اولاد سوات، چارسدہ، مردان اور صوابی کے مختلف علاقوں میں آباد ہے ، ان کی اولاد کو زیادہ تر لوگ میاں گان کہتے ہیں۔ چوتھے بیٹے خدوخیل بابا جن کی اولاد انزر میرہ ،شیدے سر اور بونیر کے کچھ علاقوں میں آباد ہیں ، انہیں مقامی لوگ اخون خیل یا میاںگان کہتے ہیں۔
کچھ واضاحتیں (١) اخون سالاک بابا ایک بڑے عالم دین بھی تھے ، آپ نے ایک کتاب بھی تحریر کی لیکن اس کتاب کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ انگریز وں نے ایک حملے میں قبضہ کرکے اپنے ساتھ برطانیہ لے گئے۔ (٢) اخون سالاک بابا کے بعد آپ کے کسی بھی بیٹے نے جہاد میں حصہ نہیں لیا البتہ آپ کے بیٹے عبدالرحمن بابا کے پوتوں نے انگریزوں اور ہندوں کے خلاف مختلف معرکوں میں ضرور حصہ لیا تھا ۔ (٣)اخون سالاک بابا کبھی کوہستان نہیں گئے بلکہ آپ کے پڑ پوتے میاں رشید بابا ، شید رشید ، اخون رشید (پاچابابا)وغیرہ نے کوہستان غزہ میں حصہ لیا تھا۔