پاکستان کی تاریخ اور اقلیتیں

Quaid-e-Azam

Quaid-e-Azam

تحریر: انعام الحق
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے 11 اگست 1947ء کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ”آپ آزاد ہیں،آپ لوگ اس ملک پاکستان میں اپنی اپنی عبادت گاہوں، مسجدوں، مندروں یا کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لئے آزاد ہیں،آپ کا مذہب کیا ہے، فرقہ کیا ہے،ذات کیا ہے،قوم کیا ہے اس کا ریاست کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں ۔ہم اس بنیادی اصول سے آغاز کریں گے کہ ہم سب ریاست کے شہری ہیں اور ہر شہری کو برابر کے حقوق حاصل ہیں۔

میں یہ کالم اقلیتوں کے لحاظ سے دُنیا کے ساتویں بڑے غیر محفوظ ملک کے بارہ میں لکھ رہا ہوں۔یہ ملک شاید آنے والے چند سالوں میں ساتویں سے پہلے نمبر کی طرف تیزی سے بڑھے،اس ملک کا نام پاکستان ہے۔ پاکستان میںحکمرانی کے ہر دور میں آنے والا حاکم یہی کہتا رہا ہے کہ اقلیتوں کو اُن کے تمام حقوق ملتے ہیں۔ لیکن پاکستان کاآئین اس قسم کے جھوٹے بیانات کی تردید کرتا ہے۔

Minorities

Minorities

پاکستان میں اقلیتوں کے نام پر سب سے زیادہ ظلم احمدیوں (قادیانیوں) کے ساتھ ہو رہا ہے۔ جنہیں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اسلام کے دائرہ سے خارج کر دیا گیا تھا۔کہنے کو تو بھٹو بھی اقلیتوں کے تحفظ کا ڈرامہ رچاتے تھے لیکن ضیاء الحق نے آکر بھٹو کو خاموش کروا دیا اور پھر اپنے ناپاک ہاتھوں سے احمدیہ فرقہ سے تعلق رکھنے والوں کو اذیت کا نشانہ بنایا۔جس کی سزا اللہ تعالیٰ نے ضیاء الحق کو اُس کے دورِ حکومت میں ہی دی۔آج یہ حال ہے کہ بھٹو خاندان کا کوئی چراغ زندہ نہیں اور اسلام آباد میں ضیاء الحق قبر پر بلیاں نیند پوری کرتی ہیں۔

اسلام دشمن طاقتیں جتنی تیزی سے اسلام کا نام مٹانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اُتنی ہی تیزی سے اسلام اس دُنیا کا تیزی سے پھیلنے والا مذہب بن رہا ہے۔اسی طرح پاکستان میں بسنے والے نام نہاد علماء نے مل کر احمدیوں(قادیانیوں) کو اسلام سے دور کرنے کی کوشش کی اُس کوشش کا نتیجہ یہ نکلا کہ احمدیوں کا فرقہ دُنیا میں تیزی سے پھیلنے والا فرقہ بن گیا۔اسلام دشمن طاقتیں ابھی بھی اپنے گھنائونے مشن میں سرگرم ہیں اور پاکستان کے علماء بھی اپنے ناپاک ارادوں پر قائم ہیں۔سب سے اہم اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ بقول پاکستانی نام نہاد علمائ،احمدی واجب القتل ہیںاِسی وجہ سے احمدی آئے دن قتل ہوتے ہیں۔

Opposed

Opposed

لیکن پھر بھی احمدی احتجاج نہیں کرتے، سڑکوں پر نہیں آتے، توڑ پھوڑ نہیں کرتے، قتل کا جواب قتل سے نہیں دیتے، اینٹ کا جواب پتھر سے نہیں دیتے، مار کھانے کے بعد مارنے کی کوشش نہیں کرتے،اُنہیں انسان نہ بھی سمجھا جائے وہ سب کو انسان سمجھتے ہیں،وہ کسی سے دشمنی نہیں رکھتے،وہ کسی کو غیر مسلم نہیں کہتے،وہ کسی کو واجب القتل نہیں کہتے،وہ کسی پر اُنگلی نہیں اُٹھاتے،وہ کسی بھی دوسرے مذہب کی مخالفت نہیں کرتے بلکہ ہر مذہب کی عزت کرتے ہیں،وہ کسی کی عبادت کو غلط نہیں کہتے،وہ اپنے مخالف تمام کاروائیوں کے کیس دُنیاوی عدالتوں میں نہیں۔

جبکہ اُنہیں کہا جائے کہ کیس کریں تو وہ کہتے ہیں ہمارا کیس اللہ کی عدالت میں دائر ہے۔یہ تو وہ چند خوبیاں ہیں جنہیں میں نہیں بلکہ ہر پڑھا لکھا شخص مانتا ہے۔جبکہ ہمارے نام نہاد علماء کا حال دیکھ لیں۔اسلام کے نام پر ایسا کھلواڑ کر رہے ہیں کہ اپنی ذاتی دشمنیوں کا بدلہ بھی واجب القتل کے فتویٰ کی مدد سے لیتے ہیں اور سب سے اہم یہ کہ مولوی اپنے علاوہ کسی دوسرے کوسچا مسلمان ہی نہیں سمجھتے۔پاکستان میں جب تک اقلیتوں کے ساتھ ظلم و ستم بند نہیں ہوگااُس وقت تک یہ ملک و قوم اپنے پائوں پرکھڑے نہیں ہوسکتے۔یاد رہے پاکستان میںصرف احمدیوں کے ساتھ نہیں بلکہ عیسائیوں اور ہندوئوں کے ساتھ بھی ظلم ہوتا ہے وہ الگ بات ہے ہندوئوں کی خبریں منظر عام پر نہیں آنے دی جاتیں اور عیسائیوں کی خبریں” امریکہ ابو”کے ڈر سے چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

Inam ul Haq

Inam ul Haq

تحریر: انعام الحق