تحریر : رائو عمران سلیمان پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی پاکستان میں کٹھن وقت آیاہے اور مروجہ حکومتی سسٹم فیل ہوا تو کہیں نہ کہیں کوئی ایسی قوت دکھائی دی ہے جو راتوں رات نئی حکومت کی تشکیل کردیتی ہے ،اور ملکی نظام کو بلاواسطہ اپنے ہاتھوں میں لے لیتی ہے ،جس طرح سے 1985میں جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دور میں ایک غیرجماعتی انتخابات ہوئے جس کے نتیجے میں پاکستان بھر سے مقبول سیاسی رہنمائوں کے بغیر غیر سیاسی اور ناتجربہ کارلوگ منتخب ہوئے جن کا کوئی سیاسی پلیٹ فارم نہیں تھااس کے بعد قومی اسمبلی تشکیل پا گئی ،اور حکومت بنانے کا جب مرحلہ آیا تو کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ حکومت کون بنائے گا اور ملک کی باگ ڈور کس کے ہاتھوں میں آئے گی کیونکہ غیر سیاسی انتخابات کی وجہ سے معروف سیاسی رہنما پارلیمنٹ سے باہر ہوگئے تھے، پھر ایک رات اچانک یہ سنائی دیا کہ محمد خان جونیجو اس ملک کے وزیراعظم ہونگے اس طرح وزیراعظم محمد خان جونیجوکو بنا دیا گیا اور عوام نے دیکھا کہ ایک بڑی کابینہ تشکیل پاچکی ہے اور حکومت نے اپنا کام بھی شروع کردیاہے ،مگر معاملہ اس پر ہی ختم نہیں ہواحکومت کے چندروز بعد ہی پاکستان مسلم لیگ جس کے سربراہ پیر صاحب پگاڑا تھے ان سے راتوں رات ہی مسلم لیگ کی صدارت سے استعفیٰ دلواکرمحمد خان جونیجوکو پاکستان مسلم لیگ کا صدر بنادیا گیا۔
اس طرح مسلم لیگ سرکاری جماعت بن گئی اور تمام اراکین پارلیمنٹ کو مسلم لیگ کا ممبر بنادیا گیا،یہ ہی وہ موقع تھا جب جنرل ضیاء الحق کی ایک غیر معروف اور نئی دریافت میاں نوازشریف صاحب کو پنجاب کاوزیراعلیٰ بنادیا گیا اور اس کے ساتھ مسلم لیگ پنجاب کی صدارت کا منصب بھی انہیں کہ حوالے کردیا گیا،اور پھر اس کے بعد محمد خان جونیجو کی حکومت کو نہ سمجھ میں آنے والی وجوہات کی بنا پر برخاست کردیا گیا ،محمد خان جونیجو کی جنرل ضیاء الحق سے کئی حکومتی معاملات پر نہ بن سکی مگر جنرل ضیا الحق نے اوجڑی کیمپ دھماکے کے بعد 8ویں ترمیم کو استعمال کرتے ہوئے موجودہ وزیراعظم کو گھر بھیج دیا جس سے محمد خان جونیجو کو راتوںرات میں ملنے والی وزرات عظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑا، اور پھر دیکھئے کیا ہوتا ہے کہ جنرل ضیا ء الحق ابھی نئے انتخابات کا انعقادکرانا ہی چاہتے تھے کہ17 اگست 1988کو بہاولپور کے قریب ایک ہوائی حادثے میں ان کی موت واقع ہوگئی ،اور غلام اسحاق خان جو اس وقت چیئرمین سینٹ تھے انہوںنے پاکستان کی صدارت کا منصب سنبھال لیا، جس نے نوے دن کے اندر انتخابات کروانے کا علان کیا،صدر غلام اسحق خان کو بہت سے طاقتور اختیارات جنرل ضیاء الحق کی موت کے بعد ورثے میں ملے یعنی انہیں آٹھویں آئینی ترمیم کی شق 58ٹوبی کے تحت منتخب پارلیمان اور حکومت کو برطرف کرنے کے ساتھ عدلیہ کے جج اور مسلح افواج کے سربراہوں کو تبدیل کرنے کا حق حاصل تھاجس کے باعث ان کے دور میں جو بھی حکومت آئی وہ 58ٹوبی کا ہی شکار ہوئی ،1988میں ہی غلام اسحاق خان کی سربراہی میں عام انتخابات منعقدہوئے ،جس میں معمولی اکثریت سے پاکستان پیپلزپارٹی برسراقتدار آئی ،پھر ایک رات اورآئی جس کے اندھیرے میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ بے نظیر بھٹو کی حکومت اب مزید نہیں چل سکے گی۔
لہذا پیپلزپارٹی کی حکومت کو صرف 20 مہینوں بعد ہی اس وقت کے صدرغلام اسحاق خان نے بدعنوانی کے الزام میں برخاست کردیا اورقومی اسمبلی کو تحلیل کردیا جس کے نتیجے میں بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت ختم ہوگئی ،اور اس کے بعد غلام اسحاق خان کی سربراہی میں ایک اور انتخابات منعقد ہوئے جس کے نتیجے میں اسلامی جمہوری اتحاد کی حکومت قائم ہوگئی یہ اسلامی جمہوری اتحاد کس طرح بنااور کیوں بنایہ بھی ان کراماتی راتوں کا شاخسانہ تھی ،اسلامی جمہوری اتحاد کی کامیابی کے بعد 1990 میں نوازشریف کو پہلی بارپاکستان کا وزیر اعظم منتخب کرلیا گیامگر راتو ں رات فیصلے کرنے کا سلسلہ ابھی رکا نہیں تھا لہذا 1993میں قومی اسمبلی کو ایک بار پھرسے صدر غلام اسحاق خان نے تحلیل کردیااور اس بار صرف نوازشریف ہی نہیں بلکہ اس محاورے کے مصداق ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبے گے ،مطلب نوازشریف تو اپنے عہدے سے گئے لیکن انہوں نے صدر غلام اسحاق خان کو بھی ان کے عہدے سے فارغ کروادیا، اورپھر ایک اور انتخابات 93میں ہی منعقد ہوئے جس کے نتیجے میں بے نظیر بھٹو کی پارٹی اقتدار بنانے میں کامیاب ہوگئی مگر1996میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کو ایک بار پھر سے اس وقت کے صدر فاروق احمد خان لغاری نے بدعنوانی اور کرپشن کے الزامات کی بنیاد پر ختم کردیا،اور97میں ایک بار پھر سے عام انتخابات منعقد ہوئے جس میں پاکستان مسلم لیگ نے دوتہائی اکثریت حاصل کی جس کے باعث نوازشریف کودوسری بار وزیراعظم بننے کا موقع ملا۔
نواز شریف کی اس حکومت میں ایک تاریخ ساز رات اور آئی جس میں سویلین حکومت نے ایک ایسا فیصلہ کیا جو ناقابل عمل بھی تھا اورناقابل فہم بھی تھااور وہ یہ تھا کہ پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف کو جو اس وقت ملک سے باہر تھے انہیں ہٹاکر آئی ایس آئی کے سربراہ ضیاء الدین بٹ کو پاکستانی فوج کا سربراہ بنادیا گیاجس کے نتیجے میں نوازشریف کو حکومت سے بھی ہاتھ دھونا پڑااورانہیں جیل بھی جانا پڑا،اس دوران ایک رات اور آئی جس میں مسلم لیگ میں سے مسلم لیگ ق کو بنادیا گیا،جب نوازشریف ایک معاہدے کے تحت جدہ چلے گئے تو انہوںنے اپنی جماعت مسلم لیگ ن کے تحت 2008کے انتخابات میں حصہ لیا اس انتخابات میں بے نظیر بھٹو کی شہادت کے نتیجے میں پیپلزپارٹی نے کامیابی حاصل کی جس کے بعد یوسف رضاگیلانی کو وزیراعظم بنادیا گیا اور خود آصف زرداری اس ملک کے صدر بن گئے لیکن اس بار پیپلزپارٹی کی حکومت نے اپنے پانچ سال مکمل کیئے اس کے بعد 2013کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے بھرپور کامیابی حاصل کی اور نوازشریف کو اس ملک کا تیسری بار وزیراعظم بننے کا شر ف حاصل ہوا ۔قصہ مختصر اب یہ حکومت بھی اپنے پانچ سال مکمل کرنے والی ہے لیکن اس بار ایک رات ایسی آئی جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ نواز شریف کو حکومت سے ہی نہیں بلکہ ملکی سیاست سے ہی فارغ کردیا جائے اور پھر ایسا ہی ہوا،لیکن ابھی ایک رات اورر باقی ہے اور وہ رات اس بار دن کے اجالے میں بھی آسکتی ہے ۔ آپ کی فیڈ بیک کا انتظار رہے گا۔ختم شد